• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم اور دفتر خارجہ نے سات جون کو وزیرستان میں کئے جانے والے ڈرون حملے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے پاکستان کی خودمختاری اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا اور یہ سلسلہ ہرصورت میں بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان کی نئی منتخب حکومت کا یہ موقف ٹھوس قانونی بنیاد رکھتا ہے ، لیکن اس موقف کو منوانے اور اس کے مطابق نتائج حاصل کرنے کے لئے ہمیں اقوام متحدہ ، بین الاقوامی عدالت انصاف اور دوسرے متعلقہ عالمی اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں کی سطح پر اپنا مقدمہ موٴثر انداز میں لڑنا ہوگا۔خوش قسمتی سے خود امریکہ اور پوری مغربی دنیا میں پاکستان کے اس جائز موقف کی پذیرائی کے امکانات بہت روشن ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے متعدد ممتاز مغربی ماہرین کے علاوہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے ڈرون حملوں کی تفتیش پر مامور ٹیم کے سربراہ بین ایمرسن بھی پاکستان کے حالیہ عام انتخابات سے کچھ پہلے بڑے پرزور انداز میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ یہ حملے پاکستان کی خودمختاری کے منافی ہیں کیونکہ انہیں پاکستان کی حکومت اور عوام کی رضا مندی حاصل نہیں۔ وہ کہتے ہیں ” انسداد دہشت گردی کے نام پر گمنام ڈرون حملوں کے ذریعے امریکہ نے پاکستان کی خودمختاری کو پامال کیا اور اس کے قبائلی ڈھانچے کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔“ رائٹر کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بین ایمرسن نے یہ بات پاکستان کے دورے کے بعد اپنے ایک بیان میں کہی جو ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق جنیوا کی جانب سے جاری کیا گیا۔ ایمرسن نے واضح کیا کہ ”بین الاقوامی قانون کے ایک معاملے کی حیثیت سے پاکستان میں امریکہ کی ڈرون مہم عوام کے منتخب نمائندوں اور حکومت کی مرضی کے بغیر چلائی جارہی ہے۔ اس ملک میں اس کی رضامندی کے بغیر طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے، لہٰذا یہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔“ ایمرسن کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان، یمن، صومالیہ ، افغانستان اور فلسطین میں پچیس ڈرون حملوں پر تحقیق کی ہے اور توقع ہے کہ وہ اس پر اپنی حتمی رپورٹ اکتوبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کریں گے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ڈرون حملوں کی یہ انکوائری پاکستان، چین ، روس اور دوسرے ملکوں کے مطالبے پر شروع کرائی ہے ۔ بین ایمرسن کے بیان پر امریکی حکومت نے اب تک کسی واضح تبصرے سے گریز کیا ہے۔ امریکی صدر کے خصوصی معاون جوش ارنسٹ کے مطابق وائٹ ہاوٴس جب تک ایمرسن کی حتمی رپورٹ نہیں دیکھ لے گا اس وقت تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔
اقوام متحدہ کی تفتیش کار ٹیم کی حتمی رپورٹ امید ہے کہ بہت حقیقت افروز اور چشم کشا ہوگی، اس کا اندازہ بین ایمرسن کے بیان کی مزید تفصیلات سے ہوتا ہے۔فاٹا کے غیور قبائل پر فوجی آپریشن خصوصاً ڈرون حملوں کے جو اثرات مرتب ہورہے ہیں، اس کا ذکر وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں” یہ خود مختار اوراپنی روایات پر فخر کرنے والے لوگ نسلوں سے اپنے حکمراں آپ ہیں۔یہ ایک زرخیز قبائلی تاریخ کے حامل ہیں جس کے بارے میں مغرب میں بہت کم فہم اور آگہی پائی جاتی ہے۔ان کا قبائلی ڈھانچہ فاٹا میں جاری فوجی کارروائی بالخصوص ڈرون حملوں کے ذریعے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔“ رائٹر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ” ڈرون حملے زیادہ تر امریکہ کی جانب سے کئے جاتے ہیں، اگرچہ برطانیہ اور اسرائیل نے بھی انہیں استعمال کیا ہے،اور باور کیا جاتا ہے کہ دنیا کے درجنوں دوسرے ملک یہ ٹیکنالوجی حاصل کرچکے ہیں۔“ظاہر ہے کہ یہ انتہائی خطرناک رجحان ہے جس کوروکا نہ گیا تو انصاف کے بنیادی تقاضوں کی پامالی عام ہوجائے گی ، طاقتور حکومتیں پوری دنیا میں اپنی ناپسندیدہ شخصیات کو کسی قانونی اور عدالتی کارروائی، کسی تحقیق و تفتیش اور صفائی کا کو کوئی موقع دئیے بغیر موت کے گھاٹ اتارنے کیلئے بالکل آزاد ہوجائیں گی اور دنیا مکمل طور پر ایک اندھیرنگری بن کر رہ جائے گی۔ صدر اوباما نے اس سلسلے کا آغاز کردیا ہے۔ 29 مئی 2012ء کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ بعنوان Secret Kill Listسے یہ ہولناک حقیقت منظر عام پر آئی کہ امریکی صدر ہر منگل کو ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہیں جس میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ دنیا کے کس حصے میں امریکہ کے کس مخالف کو قتل کیا جانا ہے اور پھر ڈرون حملوں کے ذریعے ان کا صفایا کردیا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے پر خود ممتاز امریکی ماہرین قانون چیخ اٹھے اور اس طریق کار کو انصاف کا قتل قرار دیا گیا۔تھامس جیفرسن اسکول آف لاء کی پروفیسر اور امریکہ کے نیشنل لائیرز گلڈ کی سابق سربراہ مارجوری کوہن نے لکھا کہ”بش حکومت مشکوک عسکریت پسندوں کو گرفتار اور ٹارچر کرتی تھی ، اوباما حکومت انہیں قتل کردیتی ہے۔دونوں طریقے نہ صرف امریکہ کے خلاف مزید نفرت پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں بلکہ ناجائز اور غیرقانونی بھی ہیں۔ہمارے قوانین اور معاہدے ٹارچر سے روکتے ہیں۔ ہمارا آئین حکومت کو واجب قانونی عمل یعنی گرفتاری اور منصفانہ مقدمے کے بغیر کسی بھی شخص کو زندگی سے محروم کرنے سے منع کرتا ہے۔ اس کے باوجود صدر اوباما نے ان لوگوں کے قتل کی منظوری دی ہے جن میں سے بعض قتل کا حکم دئیے جانے سے پہلے تک غیر معروف تھے۔“ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ ڈرون حملوں میں مارے جانے والے شہریوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کی بناء پر امریکہ کی بدنامی ہورہی تھی اس لئے اب ان حملوں میں مرنے والے ان تمام لوگوں کو دہشت گرد قرار دئیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو جنگ لڑنے کے قابل ہوں۔واضح رہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں سے مرنے والوں میں خود معتبر امریکی ذرائع کے مطابق 98 فی صد لوگ دہشت گرد نہیں بلکہ عام شہری ہوتے ہیں۔ ستمبر 2012ء میں اسٹین فورڈ اور نیویارک یونیورسٹی لاء اسکولز کی ایک تحقیقی رپورٹ میں بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کے ذریعے ایک معروف دہشت گرد کے ساتھ 49 شہری قتل ہوتے ہیں۔صدر اوباما کی جانب سے شہری ہلاکتوں کو کم کرکے دکھانے کی حکمت عملی کے باوجود حقیقت بدل نہیں سکتی۔ چنانچہ ہر ڈرون حملہ درجنوں عام شہریوں کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔اس کے نتیجے میں ان کے لواحقین میں شدید ردعمل کا ابھرنا بالکل فطری ہے ۔ یہ ردعمل دہشت گردی کی وارداتوں کی شکل میں پاکستان کے اندر اور باہر حتیٰ کہ خود امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں میں سامنے آتا ہے۔اس طرح ڈرون حملوں کے ذریعے کیا جانے والا یہ قتل عام دہشت گردی میں کمی کے بجائے ہولناک اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پرپاکستان عالمی برادری کے سامنے امریکہ کے ڈورن حملوں کے خلاف اپنا مقدمہ موثر انداز میں پیش کرسکتا ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت اگر پورے عزم کے ساتھ بین الاقوامی فورموں پر اس معاملے کو اٹھائے اور امریکی شہریوں کو بھی اپنا مخاطب بنائے تو امید ہے کہ اس کی بات سنی جائے گی اور اسے اپنا موقف منوانے میں کامیابی ہوگی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اگر پاکستان اور دنیا میں پائیدار امن کی خواہاں ہیں تو انہیں پاکستان کی نئی حکومت کو دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پانے کا آزادانہ موقع دینا چاہئے اور ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان کی خودمختاری اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے تفتیش کار بین ایمرسن نے بھی یہی بات ان الفاظ میں کہی ہے: ” وقت کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری پاکستان کے لئے پریشانی کا سبب بننے والے اس معاملے پر توجہ دے، اور پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت کو اپنی سرزمین پر دوسرے ملکوں کی جانب سے جبری فوجی مداخلت کے بغیر پائیدار امن کے قیام کے لئے وقت، حمایت اور معاونت فراہم کرے۔“
تازہ ترین