• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر جوبائیڈن نے 11ستمبر 2021ء تک افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کا جو اعلان کیا ہے، اسکے پاکستان پر مرتب ہونے والے اثرات سے نمٹنا ایک اور بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ پاکستان کو پہلے سے درپیش کئی چیلنجز میں مزید اضافہ ہو گا۔ پاکستان ایک بار پھر نازک موڑ پر آن کھڑا ہو گا۔ کیونکہ افغانستان کے مسئلے پر پاکستان کیلئے پہلے کی طرح کوئی واضح پوزیشن لینا مشکل ہو گا۔ اتحادی افواج کا افغانستان سے انخلا( اگر ہوا) تو آسان ہے مگر افغانستان کی دلدل سے پاکستان کا نکلنا بہت مشکل ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے اس موقف کو تسلیم کر لیا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ طاقت کی بجائے سیاسی طور پر حل ہونا چاہئے۔ لیکن یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا اور نہ ہی وہاں استحکام پیدا ہونے کا کوئی امکان ہے اور یہی بات پاکستان کےلئے پریشان کن ہے۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نےیکم مئی2021تک افغانستان سے مکمل انخلاکا اعلان کیا تھا جبکہ موجودہ صدر جوبائیڈن کے اعلان کو افواج کے انخلاکی تاریخ میں توسیع سے تعبیر کیا جار ہا ہے۔ طالبان اس اعلان کو ’’ دوحہ معاہدے ‘‘ کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ طالبان 24 اپریل کو استنبول ( ترکی ) میں ہونیوالے مذاکرات میں شریک نہ ہوں۔ اگر طالبان نئی تاریخ کو قبول نہیں کرتے تو وہ افغان اور اتحادی افواج کے خلاف اپنی کارروائیوں کو تیز کر دینگے، جیسا کہ طالبان کے مختلف گروہ عندیہ دے رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں نہ صرف بدامنی اور خونریزی میں اضافہ ہو گا بلکہ امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاکا پروگرام بھی موخر ہو سکتا ہے۔ شاید یہ امریکی منصوبہ ہو۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ طالبان امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کی نئی ڈیڈ لائن قبول کر لیں لیکن افغانستان میں مستقبل کا سیاسی ڈھانچہ کیا ہو گا ؟ اس حوالے سے کسی بھی تصفیے کا کوئی امکان دور دور تک نہیں ہے۔ طالبان کے مختلف گروہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی لازمی کوشش کریں گے اور اس طرح افغانستان ایک نئی داخلی جنگ میں داخل ہو سکتا ہے ۔امریکی صدر جوبائیڈن کو ان کے بعض مشیروں نے مشورہ دیا ہے کہ افغانستان میں مستحکم سیاسی حکومت کی تشکیل کے بغیر وہاں سے امریکی افواج کا انخلا انتہائی تباہ کن ہو گا۔ ظاہر ہے کہ نہ تو طالبان تبدیل ہوئے ہیں اور نہ ہی افغانستان میں سیاسی حل کیلئے حالات سازگار ہوئے ہیں۔

اس مسئلے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ دیگر بڑی طاقتیں بھی افغانستان میں کھل کر اور پہلے سے زیادہ کردار ادا کریں گی۔ ان میں روس، بھارت، چین اور ایران وغیرہ شامل ہیں۔ یہ مفروضہ بھی محض غلط فہمی ہے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ کا اس خطے سے کردار ختم ہو جائے گا یا اس کی اسٹرٹیجک پالیسی میں یک دم کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو گی۔ پہلے کی طرح طالبان اور دیگر انتہا پسند گروپس اس خطے میں امریکی فوجی موجودگی کا جواز مہیا کر سکتے ہیں۔ اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ امریکہ اس خطے میں مزید فوجی مہم جوئی کرے تاکہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو سبوتاژ کرنے اور چین کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے کے اپنے ایجنڈے پر کام کر سکے۔ افغانستان سے امریکی انخلاسے افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کےسوا باقی سارے امکانات موجود ہیں۔ انخلا کے امریکی اعلان سے صرف یہ ہو گا کہ افغانستان کے مسئلے میں اب تک جو ’’ اسٹیٹس ‘‘ تھا، وہ برقرار نہیں رہے گا اور ایسا نیا محاذ کھلے گا، جس میں پاکستان کیلئےاپنا توازن قائم رکھنا بہت زیادہ مشکل ہو جائیگا۔ جب سے پاکستان، امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے انتہائی قریبی اتحادی کے طور پر افغانستان کی دلدل میں پھنسا ہے، اس وقت سے اب تک پہلی مرتبہ پاکستان اپنی پوزیشن واضح کرنے کےلئے ہر طرف سے دباؤ میں ہو گا۔ اب پاکستان، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا انتہائی قریبی اتحادی نہیں رہا۔ چین کے خلاف محاذ آرائی نے امریکہ کی ترجیحات تبدیل کر دی ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ چاہے گا کہ پاکستان اس نئی صورت حال میں اپنی پوزیشن واضح کرے۔ امریکہ کا ساتھ دے لیکن امریکہ سے پہلے والی توقعات بھی نہ رکھے۔ اس مرحلے پر روس کو بھی پاکستان کی ضرورت ہے۔ روس ’’ ماضی کو بھلا کر ‘‘ پاکستان کیساتھ نئے دفاعی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ وہ پاکستان کو دفاعی اور اقتصادی طور پر مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا حالیہ دورہ پاکستان بہت اہمیت کا حامل ہے۔ روس بھی پاکستان کی واضح پوزیشن چاہے گا۔ ہمیں حقائق کو تسلیم کرنا چاہئے۔ پاکستان کو نئی صورت حال میں توازن قائم کرنے یا اپنی پوزیشن واضح کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے مختصر اً کچھ امکانات کی نشاندہی کرنا مناسب ہو گا، جن پر غور کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو پاکستان میں پارلیمنٹ کو زیادہ با اختیار بنانا ہو گا۔ بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں حکومت کو چاہئے کہ وہ نئی صورت حال پر پارلیمنٹ میں بحث کرائے اور اس بحث کی روشنی میں نئی خارجہ اور داخلہ پالیسی مرتب کرے۔ اس پالیسی پر عمل درآمد کے لئے بھی پارلیمنٹ سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ اس پالیسی کی روشنی میں پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کے اقدامات کرے۔ چین اور روس کے ساتھ اقتصادی اور دفاعی تعاون کے منصوبوں پر زیادہ توجہ دے۔ دوسری اور اہم تجویز یہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے پاکستان بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کیساتھ معاملات کو حل کرانے کی کوشش کرے۔ بھارت، امریکہ اور روس دونوں کی ترجیحات میں شامل ہے اور افغانستان میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔ ایس سی او کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے علاقائی سیکورٹی اور استحکام کیلئے پاکستان درپیش رکاوٹوں اور مشکلات کو سفارتی کوششوں سے دور کر سکتا ہے اور خاص طور پر بھارتی دباو کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

تازہ ترین