• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب بھی تربت جانا ہوتا، درویش صفت ڈاکٹر مالک، ڈاکٹر یوسف، گلزار اور میں، ہماری چوکڑی لگا کرتی۔ تربت جسے پرانے زمانے کی بلوچی زبان میں کیچ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پیلی کھجوریں بے پناہ ہوتی ہیں، یہ وہ علاقہ ہے جہاں کسی سردار کا گزر نہیں۔ جہاں کے لوگ ایک طرف بہت پڑھے لکھے اور دوسری طرف وہ علاقہ جو مہر گڑھ کی طرف جاتا ہے، وہاں کئی علاقوں میں تو بجلی بھی نہیں تھی۔ اس علاقے کے دیہاتوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح مقابلتاً دوسرے بلوچ علاقوں کے، کافی کم ہے۔ اس کا سبب بقول ڈاکٹر شاہ محمد مری اور ڈاکٹر مالک، خواتین میں صحت کے نقطہ نظر سے جسمانی خرابیاں ہیں۔ تربت سے گوادر تک کی خواتین اپنے گھروں میں بیٹھ کر سمندر پار عمان اور قطر میں آباد بلوچوں کی خواتین کے لئے بھاری بلوچی کڑھائی کے آرڈر پہ سوٹ تیارکرتی ہیں۔ فی سوٹ کڑھائی دس ہزار روپے لیتی ہیں پورے علاقے کی آبادی میں سے نصف مردوں کی آبادی نوکری یا دکانداری کرتی ہے اور باقی لوگ گھروں میں آرام کی زندگی گزارتے ہیں۔ آج سے چھ برس پہلے کی بات ہے کہ دور دراز گاؤں میں بھی ٹانک کے پیکٹ اور نمکو کے ڈبے ، جن پر ایرانی مہرلگی ہوتی تھی وہ عام ملا کرتے تھے، تربت اور اس کے ملحقہ علاقوں میں بجلی بھی ایران سے آتی ہے لب سڑک، پیٹرول بیچنے والے نظر آتے ہیں جوایران سے پیٹرول اسمگل کرتے ہیں ،گوادر کی مچھلی اور جھینگے، ہر موسم میں تربت میں ملتے ہیں تو یہ ہے ڈاکٹر مالک کے علاقے کی تفصیل۔ شکر ہے ڈاکٹر مالک اور پرویز خٹک دونوں نے اس گرمی میں سفید کپڑوں کے اوپرجیکٹ نہیں تانی ہے حالانکہ کئی دفعہ منع کرنے کے باوجود حاصل بزنجو نے اپنے طرز کی جیکٹ کوحرز جاں بنایا ہواہے۔
ہمارے صوبوں کے گورنر ہاؤسز اور چیف منسٹر ہاؤسز کو بارہا دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے مگر سب سے دلچسپ منظر تو اسلام آباد میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان شہنشاہی اداروں میں داخل ہونے والے مہمانوں کو کورنش بجا لانے والے چوبداروں کی نمائشی مسکراہٹوں کو دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ کبھی ان سے دل کا احوال سنا جائے کہ انہوں نے تو آئے دن بدلتے چہروں کی رعونت کو دیکھا ہوا ہے۔ میں نے اسلام آباد کے اس منظر نامے پر ایک نظم لکھی تھی ۔ وہ پیش کرتی ہوں۔
وہ جو حد امکاں سے باہر کھڑے تھے
زمانے کی تاریخ میں ، مقبرے ان کے ناموں سے
موسوم، موجود تھے۔
طلسماتِ عقل و خرد سے ورا
ماسوا کے تحیر گرفتہ
وہ جو لامکاں کو مکان جانتے تھے
زمانے کی تاریخ میں ان کے حجرے
مقاماتِ وارفتگی و محبت نشاں ٹھہرتے ہیں
زمانہ محبت کی جتنی دشائیں اٹھائے ہوئے ہے
وہ سب کے سب
ایسے حجروں کی دہلیز پہ جاگتی ہیں
مگر اس زمین پر، بہت اونچے اونچے
پرانے زمانے کی محلوں سے بھی خوبصورت
نئے سنگ مر مر کے پیکر بنے مقبرے ہیں
جہاں جانے والے
محبت نہیں، فائلوں کی ضعیفی کے لاشے اٹھائے ہوئے
مردہ قدموں سے اندر کی جانب تو جاتے ہیں
پر، لوٹتے ہی نہیں
لوگ ایسے مقابر، محض دیکھنے کو بھی جاتے نہیں
کہ ان مقبروں میں نہ سچ ہے نہ تاریخ
اور نہ محبت
منافق زمانے کی سازش
ستونوں سے لپٹی کھڑی ہے
یہاں سچ کہیں ہے تو بس
چوبداروں کی آنکھوں میں ہے
کہ دیکھیں جنہوں نے حکمران جوتوں پہ
لٹکی زبانیں
کہیں گردنوں کا ستونوں سے لپٹا ہوا
واھمہ بھی نہ تھا
حرف تھے !
جو کہ میت زدہ کاغذوں پہ برھنہ پڑے تھے!
ڈاکٹر مالک! آپ کو اس منظر نامے کا حصہ نہیں بننا ہے۔ اول تو آپ کی تربیت میں ملائمت اور خاکساری ہے۔ آپ کے سپرد بہت کام ہیں لاپتہ افراد کی بازیابی ہو کہ ٹارگٹ کلنگ کا قضیہ، کہ بے گھر ہونے والوں کی واپسی، سیاسی قیدیوں کی رہائی، انتہا پسندوں سے بات چیت اور سب سے بڑھ کر فوجی آپریشن بند کرنے کے علاوہ وہ جو میرے روٹھے ہوئے بلوچ بیٹے باہر بیٹھے ہوئے ہیں، ان کو واپس لانا ہے۔ میں پھر تربت کے بادام درختوں کو دیکھنے ضرور آؤں گی۔ میں حسنیٰ لیک پہ آپ کے ساتھ، حکیم بلوچ اور حاصل بزنجو کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیوں گی۔ آپ نے یہ نہیں بھولنا کہ پچاس فی صد آبادی خواتین کی ہے ان کو ساتھ لیکر چلنا ہے۔ اذانوں کا فرق تو آپ کو بھی اور مجھے بھی علامہ اقبال نے سکھایا ہی تھا۔ آپ کو یہ بھی یاد کرا دوں کہ جن لوگوں نے عورتوں کو زندہ دفن کیا تھا، ان کو اپنے قریب مت آنے دیجئے گا ورنہ پشین کے سیب بھی فریاد کریں گے اور جو پیٹر کے درخت قائد اعظم سے شکایت کریں گے کہ زیارت کی ترقی کے لئے آپ نے کیا کام کئے ہیں۔
تازہ ترین