آج کل ہمارے 3کرکٹرز (بلے باز) مختلف تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں ۔ سابق کپتان یونس خان جو آج کل چیئر مین پاکستان کرکٹ بورڈ شہر یار خان کے مشیر بھی ہیں ، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد ٹیم کے درمیان ہونے والے ایک میچ میں امپائر کے مصباح الحق کو (جو آؤٹ تھے) ناٹ آئوٹ دینے پر امپائر سے الجھ پڑے ، منہ زبانی برا بھلا بھی کہا اور پھر میچ ادھورا چھوڑ کر گھر لوٹ گئے۔ گویا کرکٹ کی زبان میں غلطیوں کی ہیٹ ٹرک کر ڈالی ۔ پہلے بیٹ پٹخا پھر امپائر سے الجھے اور میچ ادھورا چھوڑنا جو ناقابل معافی تھا کر گزرے، اس رویے کی اتنے سینئر کھلاڑی اور سابق کپتان سے قطعی اُمید نہیں تھی۔ یونس خان کئی بار ماضی میں بھی غلطیاں کرتے رہے ہیں اور مہربان بورڈ ہمیشہ ان کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے معافی نامہ ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے معافی کا پروانہ پکڑا دیتا ہے۔ مگر اس مرتبہ میڈیا نے بورڈ سے کھلی جنگ سمجھ کر ایک ہفتے خوب مزے لئے اور ایسا لگ رہا تھا کہ اس مرتبہ صرف امپائر کا 50فیصد جرمانہ کافی نہیں ہوگا بلکہ بورڈ ڈسپلن برقرار رکھنے کے لئے سخت ایکشن لے گا۔ سابق کپتان جاوید میانداد نے بھی بورڈ کو مشورہ دیا تھا کہ ہماری ٹیم کے آدھے لڑکے بے قابو ہوچکے ہیں جن کی وجہ سے ہماری بدنامی ہو رہی ہے اور دیگر لڑکے بھی اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ پھر یونس خان نے بورڈ سے بھی الجھنے کی پوری تیاری کر لی تھی ، میڈیا ایک طرف بورڈ کو ڈرا رہا تھا تو دوسری طرف یونس خان کے بیانات کو نمک مرچ لگا کر اکسا رہا تھا۔ پھر اچانک بورڈ نے انضباتی کارروائی کرنے کے بجائے ایک مرتبہ پھر ہتھیار ڈال کر میڈیا اور عوام جو کرکٹ سے محبت کرتے ہیں کو نا اُمید کر دیا ۔ بیشک یونس خان کا کرکٹ ریکارڈ بہت اچھا اور قابلِ فخر ہے وہ ایک اور بڑی منزل عبور کرنے والے ہیں ، اس قبل وہ سابق کپتان جاوید میانداد کے ٹیسٹ کر کٹ میں سب سے زیادہ 8832رنز بنانے کا ریکارڈ 20سال کے بعد 9116ٹیسٹ رنز بنا کر اور سب سے زیادہ سنچریاں31بنا کر پاکستان کے صفِ اول کے کھلاڑی بن چکے ہیں۔ میانداد نے 124ٹیسٹ میچوں میں 23سنچریاں اور 43نصف سنچریاں بنائی تھیں۔ ان کا سب سے زیادہ اسکور 280رنز ناٹ آؤٹ تھا۔ یونس خان کا313رنز سب سے زیادہ اسکور تھا۔ اب وہ 10000رنز کے سنگِ میل کی طرف جارہے تھے اور بورڈ اگر پابندی لگاتا تو پاکستان ابھی تک 10000رنز بنانے والے ملکوں سے باہر ہو سکتا تھا ۔ کیونکہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں ان کا کھیل زوال پذیر تھا اسی وجہ سے پہلے انہیںٹی ٹوئنٹی سے ہٹایا گیا پھر ون ڈے سے ان کے اصرار کے باوجود ہٹا دیا گیا ۔ یوں کہئے کہ شہر یار خان نے ان کے ماضی کے ریکارڈ کی وجہ سے ان کو نئی توانائی مہیا کی ہے۔ اب یونس خان کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی غلطیوں سے اجتناب کریں ورنہ 10000رنز کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
دوسرا عمر اکمل کو بھی خبروں میں رہنے کا بہت شوق ہے ، مزید یہ کہ ان پر بھی بورڈ اور اسکے ممبران بے جا مہربان نظر آتے ہیں۔ کبھی وہ سڑکوں پر بچکانہ حرکات کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی تھیٹرز میں غل غپاڑہ کر کے پاکستان کی دنیا بھر میں سبکی کا سبب بنتے ہیں۔ حال ہی میں ان کے 2اسکینڈلز سامنے آئے ہیں اور ایک تو بورڈ نے جانتے بوجھتے نظر انداز کر کے کلیئر کر دیا ہے ۔یہ صحیح ہے کہ وہ اپنی نجی زندگی میں انجوائے کرنے کے حق دار ہیں مگر پھر وہ میڈیا ٹرائل سے نہیں بچ سکتے ۔ نوجوان ہیں ابھی انہیں بہت کرکٹ کھیلنی ہے ۔ کئی مرتبہ وہ پرفارم نہ کرنے کی وجہ سے ڈراپ بھی ہوچکے ہیں تاہم وہ بہت اچھے بیٹسمین ہیں ۔ اگر وہ اپنی صلاحتیوں کو منفی کے بجائے مثبت سمت میں استعمال کریں تو وہ ایک اچھے بلے باز بن کر اپنا اور پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں ۔ ماضی میں کھیل کے دوران جب ان کے بھائی کامران اکمل جو اچھی وکٹ کیپنگ نہیں کر رہے تھے کی جگہ ذوالقرنین حیدر کو آزمایا گیا اوراس نے اچھی وکٹ کیپنگ کے ساتھ ساتھ اچھے آل راؤنڈر کی طرح رنز بھی بنائے، تو انہوں نے اس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں جس سے وہ دلبرداشتہ ہو کر ایک دن بغیر کسی کو بتائے دبئی سے لندن چلا گیا ۔ وہاں جا کر اس نے پناہ لی اور عمر اکمل کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ۔ اس واقعہ سے ناصرف پاکستان کی سبکی ہوئی بلکہ پاکستان ایک ابھرتے ہوئے وکٹ کیپر سے بھی محروم ہو گیا۔ آخر ایسی کیا وجہ ہےکہ اکمل برادران ان تمام انکوائریوں سے وارداتیں کرنے کے بعد بھی نکل جاتے ہیں اور کراچی کا وکٹ کیپر انیل دلپت صرف ایک الزام کے بعد ہی معزول کر دیا جاتا ہے ،جس کے بعد آج تک وہ ٹیم میں واپس نہیں آسکا۔ اس کے پیچھے بھی کسی ایسی شخصیت کا ہاتھ ہو سکتا ہے جو کامران اکمل کا نعم البدل ٹیم میں نہیں لانےدیتی۔ اتنی خرمستیوں کے باوجود بورڈ صرف معاف کرنے کے بجائے آخری شٹ اپ کال دے تو ہوسکتا ہے کہ عمر اکمل اب باز آجائیں ۔ کیونکہ نہ تو اب کامران اکمل ٹیم میںہیں اور نہ ان کے بھائی عدنان اکمل کی وکٹ کیپنگ کا کوئی چانس ہے ۔ اب پاکستان کو ایک بہترین آل راؤنڈر وکٹ کیپر اور مڈل آرڈر بلے باز سرفراز مل چکا ہے ۔ جس نے حالیہ پاکستان سپر لیگ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر سب سے کمزور ٹیم کوئٹہ گلیڈئیٹر کو فائنل کھلوا یا جس کا سب نے اعتراف کر تے ہوئے اس کو ٹی 20کا کپتان بنوا دیا۔
اب میں تیسرے بڑے کھلاڑی جو اپنے غصے اور جلد بازی میں آؤٹ ہونے کیلئے مشہور ہیں اور جن کی تمام غلطیاں نہ صرف بورڈ نے معاف کر رکھی ہیں بلکہ کپتان آفریدی بھی ان کی چاہت میں ہر ایک سے جھگڑا مول لے کر ناکامی کے باوجود انکو ٹیم کا حصہ بنانے پر اصرار کرتے ہیں وہ ہیں احمد شہزاد ۔ وہ اپنے غصے اور آفریدی کے کندھوں پر رہنے کی وجہ سے خلیفہ مشہور ہیں ۔ ماضی میں عامر سہیل اور شعیب اختر بھی ایسے ہی خلیفہ مشہور تھے۔ مگر وہ پرفارمنس کی وجہ سے آخر وقت تک ٹیم کا حصہ بنے رہے ۔ مگر کیا وجہ ہے کہ احمد شہزاد ایک مرتبہ پر فارمنس دے کر اگلے 5میچوں میں 10کے ہندسے کو بھی عبور نہ کرنے کے باوجود مسلسل ٹیم کا حصہ رہے ؟ اب تو یار لوگ باتیں بنانے لگے ہیںکہ کپتان خوش تو بورڈ خوش۔ ٹیم میں اگر رہنا ہے تو تم کو صرف کپتان کی سننی ہے ، سلیکٹر اور کوچ کو گھاس نہ ڈالو جو کرنا ہے ، کپتان کو کرنا ہے ۔ اسی وجہ سے احمد شہزاد صرف کپتانوں کی سنتا ہے اس کو نہ سلیکٹر سے مطلب نہ کوچ سے ۔ اسی وجہ سے آج تک ٹیم کا حصہ ہے مگر وہ بھول گیا ہے کہ اب سلیکٹر بھی انضمام الحق ہے جو اپنی مرضی سے ٹیم لیتا تھا تاکہ وہ جیت کر اپنا مقام منوائے ۔ آگے احمد شہزاد کو اپنا مستقبل بنا نا ہے ۔ بورڈ سے میری گزارش ہے کہ ہر جگہ نرم رویہ ، ٹیم کا ڈسپلن ختم کردیتا ہے ۔ اگر آپ کو پاکستان کرکٹ ٹیم کو عبدالحفیظ کاردار ، عمران خان ، جاوید میانداد اور انضمام الحق کی طرح ڈسپلن ٹیم بنانی ہے تو ٹیم کو آخری شٹ اپ کال دیں ۔ آج ہی انضمام الحق کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ شیشہ توڑنا کوئی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں ہے اور آخر میں وہ کہتے ہیں کہ میں ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں ہونے دونگا۔
بقول ہمارے صدر پاکستان زیرو ٹالرنس ان ڈسپلن، ہمارے اکثر کرکٹرز بھی سفارشی ہوتے ہیں۔