• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کا لوک گیت ’’ہو جمالو‘‘، پنجاب کا ’’جگنی‘‘ اور بلوچستان کا ’’دانہ پہ دانہ‘‘ انتہائی مقبول ومشہور ہیں۔ اگر ان گیتوں کو متعلقہ زبانوں کا لوک ترانہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ جولوگ یہ زبانیں نہیں سمجھتے وہ بھی ان کی دھن پر جھوم اٹھتے ہیں۔ 

موسیقیت اور ردھم کے لحاظ سے یہ رقص کے گیت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب محافل میں یہ گیت گائے جاتے ہیں تو پنڈال میں موجود اکثرسامعین ناچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ویسے تو پورے ملک کی زبانوں کے لوک ادب میں کہیں نہ کہیں پر مماثلت ہے مگر پنجاب میں جگنی جو ایک خاتون کردار ہے، بہت زیادہ مقبول ہے۔ سندھ میں جمالو، جو ایک مرد کاکردار ہے انتہائی مشہور گیت ہے۔ یہ لوک گیت اپنی اپنی ثقافتوں کے ترجمان ہیں۔ ذیل میں ’’ہوجمالو‘‘ کے حوالے سے ملاحظہ کریں۔

ہمارے معاشرے میں خواتین میں سے ایک کردار ’’بی جمالو‘‘ بھی ہے۔بی جمالو کو سندھی میں’’ دھونی‘‘ کہا جاتا ہے، جس سے ہم سب واقف ہیں۔ سندھی لوک گیت، ہو جمالو کا، بی جمالو سے کوئی تعلق نہیں۔ ہو جمالو کے معنی ہیں،اے جمالو یا ارے جمالو! ’’جمالو‘‘ لفظ جمال کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔جمال کے معنی ہیں حسن یا خوبصورتی۔ہمارے یہاں پورے ملک میں ایک دوسرے کے نام بگاڑنے یا تبدیل کرنے کا رواج عام ہے۔ یہ تبدیلی کسی سے پیار ومحبت یا نفرت وحقارت میں کی جاتی ہے۔ لوک گیت، ہو جمالو کے لفظ جمال کی صورت وپیارومحبت میں تبدیل کی گئی اور ایسی تبدیلی کی گئی کہ اصل نام جمالو سب لوگ بھول گئے۔

اس گیت کی قدامت اور آغاز سے متعلق مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ جمالو ایک پہلوان تھا، جس نے مدمقابل پر فتح حاصل کی۔ اس کے بعد اس کی شان میں یہ گیت گایاگیا۔دوسری روایت یہ ہے کہ سندھ پر انگریز دور حکومت یعنی1843سے1947کے دوران میں جمال یا جمالو نامی ایک شخص اپنے جرم کی سزا جیل میں کاٹ رہاتھا۔ 

جب انگریز حکمرانوں نے دریائے سندھ پر سکھرکے مقام پر ریل گاڑی گزارنے کے لئے پل تعمیر کیا تو پل مکمل ہونے کے بعد وہاں سے پہلی مرتبہ ٹرین چلانے کیلئے کوئی ڈرائیور تیار نہیں تھا۔انگریز سرکار پریشان ہوگئی کہ آخر کیسے پتہ چلایاجائے کہ ان کا تجربہ کامیاب ہوا ہے،تاکہ آمدورفت شروع کی جاسکے۔ غوروفکر کے بعد انہوں نے سزائے موت کے مجرم ،جمالو سے کہا کہ اگرتم ٹرین پر سوار ہوکر یہ کام کروگے توہم تمہاری سزا معاف کردیں گے۔

جمالو نے سوچا کہ ویسے بھی مجھے مرنا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ریل گاڑی پار کرنے سے بچ جائوں، لہذا اس نے حامی بھرلی اور تھوڑی بہت ڈرائیونگ سیکھ لی۔ اس کے بعد پل سے ریل گاڑی گزارنے کا تجربہ کیا گیاجو کامیاب ہوگیا۔ ابھی تک وہ پل سلامت ہے اور وہاں سے ریل گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اس کے بعد جمالو کی واہ واہ ہوگئی۔ سزا ختم کرکے انعامات سے نوازا گیا۔ بعد ازاںاس کے رشتہ داروں نے یہ گیت گایا۔ 

اس روایت کے سلسلے میں خیال ہے کہ یہ مستند نہیں ہے۔یہ روایت سندھی لوک ادب کے معروف محقق ڈاکٹر عبدالکریم سندیلو سے منسوب کی گئی لیکن ان کی کسی کتاب یا مضمون میں بھی یہ روایت نظر نہیں آئی۔اس سلسلے میں سندیلو صاحب کے بیٹے ڈاکٹر اسلم سندیلو، جوخود ایک مصنف ومحقق ہیں، انہوں نے بھی اس روایت کی تصدیق سے انکار کیا۔ انگریز کوئی بھی کچا کام نہیں کرتے تھے۔ وہ جوبھی کام کرتے ، اس کا تجربہ خود کرتے ، پھر اُسے تحریری شکل دیتے تھے۔

دریائے سندھ پر جو پل بنایا، اگر اس پر پہلی ٹرین گزارنے کے لئے ایک قیدی جمالو سے ڈرائیور کاکام لیتے تو یقیناً اپنے ریکارڈ میں تحریر کرتے۔ بہرحال اس روایت کو ثابت یا رد کرنےکے حوالے سےتحقیق جاری رہے گی۔

ہوجمالو گیت ملک کے صف اول کے گلوکاروں نے گایا ہے، جن میں استاد محمد جمن ، عابدہ پروین، رونا لیلی، شازیہ خشک اور دیگر شامل ہیں۔ لوک گیت جمالو کے بولوں کامفہوم کچھ اس طرح ہے:۔

میرا جیت کے آیا خیر سے…ہوجمالو

ہوجمالو جو سکھر والے پل پر…ہوجمالو

اس گیت میں موجود مصرع جس میں سکھر کے پل کا ذکر ہے اس سے کچھ اندازہ توہوتا ہے کہ یہ گیت سندھ میں انگریز دور حکومت(1947 تا1843) میں تخلیق ہوا مگر حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ۔

معروف محقق ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کے مطابق جمالو نامی ایک شخص اپنے ساتھیوں سے بچھڑ کر کچھ برس لاڑ یعنی زیریں سندھ کے علاقے میں جت قبائل کے ساتھ رہا ، جہاں سے وہ مالدار بن کر واپس لوٹا۔ اس خوشی میں اس کے رشتہ داروں نے اس کے نام سے گیت گائے اور رقص کیا۔

ایسے لوک گیت جمالو کے بولوں کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے۔

میرا جیت کے آیا ،خیر سے…ہوجمالو

میرا جمالوجتوں کے ساتھ رے…ہوجمالو

جس کو ہری لکڑی ہاتھ میں…ہوجمالو

جوگیاتھا، لاڑ کی طرف رے…ہوجمالو

ایک روایت یہ بھی ہے کہ، جمالو نامی ایک شخص گھڑ سواری اور تیر اندازی کا ماہر تھا، جو دوردراز علاقوں میں چلاگیاتھا۔ اس کے گھر والوں نے سمجھا کہ وہ مرگیا ہے۔ جب وہ بہت عرصے کے بعد واپس آیا تو،خوشی میں گیت’’ ہوجمالو‘‘ گایا گیا۔ ان تمام روایات میں جمالو کو ایک بہادر اور فاتح کے طور پر پیش کیاگیا ہے۔ روایات میں جمالو کے آبائی علاقے بھی مختلف بتائے جاتے ہیں۔ کچھ روایات میں اس کا تعلق ضلع دادو، کچھ میں ضلع سانگھڑ تو کچھ میں ضلع ٹھٹہ کے مضافاتی علاقے ہیں۔

لوک گیت ہوجمالو اب سندھی لوک ادب کی مقبول ترین صنف بن گیا ہے۔ اس صنف پر جتنے بھی قدیم اشعار ملے ہیں ان میں شاعر کا نام نہیں ہے ۔یہ اشعار مشترکہ میراث ہیں۔ اس صنف کی عوام میں مقبولیت دیکھ کر دور حاضر کے شعرا نے بھی طبع آزمائی کی ہے۔ان شعرا میں شیخ ایاز،نیاز ہمایونی، رشید احمد لاشاری، علی گل سانگی وغیرہ شامل ہیں۔

یہ لوک گیت مردوخواتین مل کر بھی گاتے ہیں اور الگ الگ بھی کورس کے انداز میں گایا جاتا ہےجس میں ایک لیڈ کرتا ہے، باقی ہوجمالو کہتے ہیں۔ ہوجمالو کہنے والے لازمی نہیں کہ فنکار یا گلوکار ہوں۔ پنڈال یا محفل میں موجودسامعین بھی ’’ہوجمالو‘‘ کہہ کرشامل ہوجاتے ہیں۔

سندھی محافل موسیقی کی یہ روایت ہے کہ اس کا اختتام ہوجمالو یا رانو سے کیا جاتا ہے ۔رانو ایک راگ ہے جو لوک داستان ’’مومل رانو ‘‘کے قصے پر مشتمل ہے۔ سندھی زبان کے علاوہ اردو زبان میں بھی اس گیت پر طبع آزمائی کی گئی ہے۔ مشہور گلوکارارشد محمود اور شازیہ خشک نے اسے اردو زبان میں گایا ہے۔ انہوں نے ہو جمالو کی وہی دھن برقرار رکھی ہے جب کہ اردو بولوں کے ساتھ ہوجمالو کی تکرار بھی برقرار رکھی ہے۔

تازہ ترین