اسلام آباد(نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نے ایف بی آر میں ایپ آٹومیشن کیلئے پرائیویٹ کمپنی کی خدمات لینے سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے تحریری جواب طلب کرلیا ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ ایف بی آر اتنا پیسہ اکھٹا کرتا بھی ہے یا نہیں جتنی ان کی تنخواہیں ہیں؟چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایف بی آر اور ریونیو آٹومیشن پرائیویٹ کمپنی سے بھرتیوں کے طریقہ کار اور ایکسپرٹیز سے متعلق جواب طلب کیا اور ہدایت کی کہ کمپنی دو ماہ میں اپنے کام کے حوالے سے تمام تفصیلات عدالت میں جمع کرائے۔ عدالت نے قرار دیا کہ کمپنی بتائے کہ انکے پاس کتنے لوگ کام کررہے ہیں اور مذکورہ کام کرنے کی کمپنی کی صلاحیت کیا ہے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ ایف بی آر اور کمپنی 1994 سے پہلے اور بعد میں انکم ٹیکس کی رقم جمع کرانے کی تفصیلات سے بھی آگاہ کرے،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پاکستان ریونیو آٹو میشن پرائیویٹ کمپنی کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے کمپنی میں چھ چھ ڈائریکٹرز رکھے ہوئے ہیں ان کی اہلیت کیا ہے؟ جبکہ چیف جسٹس نے کمپنی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کمپنی ایف بی آر میں ٹیکس جمع کرنے کیلئے کام کرتی ہے یا دوسرے معاملات بھی دیکھتی ہے؟ کمپنی کو بجٹ کون دیتا ہے اور کمپنی کا اصل مقصد کیا ہے؟جو ایکسپرٹس کمپنی میں رکھے ہیں ان کی بھرتی کا طریقہ کار کیا ہے؟کمپنی نے اب تک ایسا کوئی کام کیا ہو جس سے ایف بی آر کو فائدہ ہوا ہو؟ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ پرائیویٹ کمپنی چلانے کا حکومتی طریقہ ٹھیک نہیں۔