بات کو آگے بڑھانے سے قبل سعید غنی کو یہ کہنا تھا کہ جناب فیصل واؤڈا کا خصوصی شکریہ ادا کریں، اور بہتر ہے کراچی پیپلزپارٹی واؤڈا صاحب کے اعزاز میں افطار ڈنر کا اہتمام کرے۔ ہمارے ہاں پرانی سیاسی رسم ہے کہ، پارٹیاں حریفوں کی تعریف کرنے میں بخیل رہی ہیں۔ اجی، کبھی تو مخالفین کو بھی چاہ لینا چاہیے، چاہنے والوں کی طرح!
ایسا دوسری دفعہ ہوا ہے کہ، نون لیگ کو پیپلزپارٹی نے پکڑ پکڑ کر روکا کہ الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا کیونکہ پیپلزپارٹی نے 1985میں اور جماعت اسلامی نے 1997 میں جو انتخابی بائیکاٹ کئے وہ اس کی نحوست سے آج تک باہر نہیں نکل سکیں! یہی کام مشرف کے اعلان کردہ 2008 کے الیکشن میں نون لیگ نے کرنا چاہا تاہم آصف علی زرداری نے نہ کرنے دیا، نتیجتاً پنجاب میں نون لیگ کی حکومت بن گئی اور 7 وزارتیں پیپلزپارٹی کو بھی دی گئیں، اسی پنجاب حکومت کی بنیادوں پر نون لیگ نے الیکشن 2013 کی فتح اپنے نام کی، جماعت اسلامی نے 1993میں پہلے تو اسلامک فرنٹ بنایا اس فرسٹریش کے اثرات 1997 تک گئے اور جماعت اسلامی نے نعرہ لگا دیا کہ ’’ووٹ مانگ کر شرمندہ نہ ہوں‘‘ یہی کام انہوں نے 2008 کے انتخابات میں کیا کیونکہ ایم ایم اے سے یہ دور ہوچکے تھے ، کوئی میثاق جمہوریت نامی رشتہ ان کا کسی سے استوار نہ تھا‘ کوئی زرداری ہی نہ ملا جو واپس لاتا، تب سے انتخابی سیاست میں جماعت اسلامی بےیار و مددگار ہے۔ ابھی نون لیگ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر استعفوں کی خواہاں تھی، سینٹ الیکشن سے بھی گریزپائی کے درپے تھی مگر معرکہ ڈسکہ میں ضمنی الیکشن کی دوسری قسط میں سرخرو ہوکر اور این اے 249 کراچی کی ’’نیم فتح‘‘ نے ثابت کیا، کہ پیپلز پارٹی وفاق کی پارلیمانی علامت نہ سہی مگر سیاسی و انتخابی فہم کی علامت آج بھی ہے۔ ٹیسٹ میچ میں چھوٹے موٹے زخم یا بدقسمتی کاعلاج دوسری اننگ میں ممکن ہوجاتا ہےلہٰذا پی ٹی آئی کی طرح ہر میچ کو ٹونٹی ٹونٹی بنانے سے اجتناب ضروری ہے۔ ڈسکہ الیکشن کی جیت کا سہرہ جتنا بھی نون لیگ کے سر ہو، مگر انہیں بھی عمران خان اور ان کے مشیروں کا شکر گزار تو ہونا چاہئے کہ مشیران عمومی و خصوصی کارکردگی سے ماحول کو مخالف کیلئے کس قدر سازگار بنا دیتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد پی ڈی ایم وجود میں آیا تھا، پی ڈی ایم کمزور تھا یا شہ زور، ایک بات طے تھی کہ ایوان لرز اٹھے تھے ورنہ کراچی میں دروازے توڑنے اور کیپٹن صفدر کے خلاف بوکھلاہٹ میں بنائی ہوئی ایف آئی آر کے واقعات جنم نہ لیتے۔ یہ کراچی کا پی ڈی ایم جلسہ ہی ہے کہ این اے 249 کے پیپلزپارٹی کے تمام ووٹرز باہر نکل آئے، کوئی پانچ سو ووٹ اوپر سے ہوگیا ہوگا، اور پی ٹی آئی ووٹر واؤڈا صاحب کے حسن و جمال اور نیک سیرت ہونے کے سبب ووٹ کاسٹنگ کا روزہ رکھ بیٹھا۔ ڈسکہ (سیالکوٹ) کے بعد کراچی کے حلقہ 249کی بازگشت نے حکمرانوں کی نیندیں حرام نہیں بھی کیں تو انہیں بےخوابی ضروردی ہے۔ کیبنٹ کے اندر کے تین گروپس، جہانگیر ترین اور بااثر ’’دوستوں‘‘ نے بھی اپنے اپنے مقام پر سوچا ہوگا ، اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کے بجائے بےسمت چل نکلا، اور جب رخ متعین نہ ہو تو کئی رخِ روشن منہ موڑ جاتے ہیں۔ ایسے میں کپتان انڈر پریشر کھیل کر کچھ بھی کرسکتے ہیں، ان خطوط پر پی ڈی ایم کو ازسرِ نو سوچنا ہوگا۔ خیر سوچنا تو ایم کیو ایم کو بھی ہوگا کہ، جس حکومت کو انہوں نے کندھا دے رکھا ہے ابھی تو کندھا پیوندِ خاک ہوا ہے گر پورا جسم خاک ہوگیا تو آدھی درجن سیٹیں بھی جاسکتی ہیں، نہ مقتدر ہی ملا نہ وصال صنم ! پھر کیا بنے گا؟
سیاست میں وہ مقام آگیا ہے کہ، پیپلزپارٹی اور نون لیگ ہاتھ اٹھا کر دعا کرے کہ کپتان کریز ہی پر رہے کیونکہ رنز کا نہ بننا بہت بڑا عذاب ہے اور بےحساب ہے۔ ابھی تو سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن صاحب نے پولی پولی ڈھولکی بجائی ہے اگر نیب کے اندر سے بھی کوئی ہلکی پھلکی موسیقی نے کانوں میں رس گھولنا شروع کر دیا تو پھر کیا ہوگا؟ بھلے ہی وزیر اعظم پاکستان نے بشیر میمن کے اپنے، وزیر قانون اور نیب معاون پر لگائے ہوئے الزامات کو بےبنیاد قرار دے دیا مگر یہ بازگشت جسٹس قاضی عیسٰی فائز کے خلاف صدر پاکستان کے ریفرنس کی بازگشت میں ایسی جا ملی ہے جو حکومت کے خلاف ایک گونج بن کر سامنے آئی، پھر یہ کراچی اور ڈسکہ کے الیکشن، یہ سب ہضم کرنا اتنا آسان نہیں جیسا تاثر حکومت دے رہی ہے۔ ہم کم فہم تو پی ڈی ایم کو پہلے روز سے عرض کررہے ہیں کہ حکومت گرانے کی نہیں حکومت بھگانے کی کوئی سبیل ممکن ہے۔ اب کی سیاست جادو ٹونے اور ’’کالے علم‘‘ کا جتنا طواف کرتی نظر آتی ہے اس کیلئے سیاسی تڑکے کو اتنا بڑھاوا دینا پڑتا ہے کہ بات جلن، اور جلنے کی بُو تک پہنچے:
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا
خارجی محاذ اور داخلی و سیاسی محاذوں پر ناکامی کو حکومت کووڈ-19 کے ساتھ نتھی نہیں کرسکتی، اب اگر اقتصادیات و اصلاحات اور ترقیات کو کورونا وبا سے جوڑا جائے گا تو مانے گا کون؟ پیپلزپارٹی اور نون لیگ اتنی بالغ نظر ضرور ہیں کہ تیل اور تیل کی دھار دیکھ لیں۔ اب دو صورتیں بچتی ہیں ‘ ایک یہ کہ عمران آنکھیں چرائیں یا ملائیں انہیں بہت زیادہ مصلحت پسند ہونا پڑے گا بے شک وہ تقاریر اور ارشادات میں کچھ بھی کہیں کیونکہ وہ ناہلی کا بڑا کلنک کا ٹیکہ اپنے ماتھے کی زینت نہیں بنانا چاہیں گے۔ کرپٹ کرپٹ کہہ کر انہوں نے مخالفین کو ایسا’’بےکرپٹ‘‘ سا کردیا ہے کہ لوگ حقیقت کو بھی گردان ماننے لگے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ عمران خان مظلوم کارڈ کھیلیں بالواسطہ حربے سے اسمبلیاں توڑیں یا بلاواسطہ، ایسا ماحول بنائیں اور اگلے الیکشن میں اترنے کا ہائبرڈ سلوگن بنائیں کہ، مخالفین ایک تو مافیا اور اوپر سے مجھے اصلاحات نہیں کرنے دیں !
مگر یہ ضروری تو نہیں، مظلوم کارڈ چلے بھی جاناں!