• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر:محمد عمر توحیدی ۔۔۔اولڈھم

امیر المومنین سیدنا علیؓ بن ابی طالب مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ راشد تھے۔ان کا تعلق قریش کی برادری بنی ہاشم سے تھا ۔مکہ کے قریشی قبیلوں میں اس خاندان کا مقام و مرتبہ بہت بلند تھا۔سیدنا علی ؓ حضور ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے اور ان کی ولادت 600ء میں بنو ہاشم میں ہوئی ،حضور ﷺ سے تیس برس چھوٹے تھے ۔آپ کے والد محترم کا نام عبدمناف تھا جو ابوطالب کی کنیت سے مشہور تھے ۔ابوطالب ،حضرت زبیر اور حضور ﷺ کے والد محترم حضرت عبداللہ آپس میں ماں اور باپ دونوں کی طرف سے سگے بھائی تھے ۔آپ کی والد ہ محترمہ کا نام فاطمہ بنت اسدؓ تھا یہ بھی بنوہاشم سے ہی تعلق رکھتی تھیں اور ان سے پہلے بنو ہاشم کی کسی لڑکی کی شادی اپنی ہی برادری میں نہیں ہوئی ۔اس لحاظ سے سیدنا علیؓ ہاشمی ہونے میں نجیب الطرفین تھے ۔جب حضور ﷺ کے دادا کا انتقال ہوا تو انہوں نے آٹھ سال کے محمد کو ان کے سگے چچا ابوطالب کی کفالت میں دیا۔ اس موقع پر فاطمہ بنت اسدؓ نے حضورﷺ کو ماں جیسا پیار دیا،ان کے اسی محبت بھرے سلوک کی وجہ سے حضورﷺ انہیں ماں کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ مسلمان ہوئیں اور مدینہ میں ان کا انتقال ہوا جب کہ ابوطالب حضورﷺ کی کوشش اور چاہت کے باوجود اسلام سے محروم رہے ۔ ابوطالب چوں کہ کثیر العیال ہونے کے ساتھ ساتھ غربت کی زندگی گزارتے تھے، اس لیے حضرت علیؓ کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد انہیں حضور ﷺ نے اپنی کفالت میں لے لیا ۔حضرت علیؓ کےعظیم اوصاف اورعلم و شجاعت کے لازوال روشن پہلوئوں سے ہماری تاریخ جگمگا رہی ہے،اس کے لئے ہمیں دیو مالائی کہانیوں کی قطعاًکوئی ضرورت نہیں۔آپؓ کے بارے میں حضور نبی کریم ﷺ کےبیشتر مقدس فرامین کتب احادیث میں صحیح اسناد کے ساتھ منقول ہیں جو ہمارےلیےکافی ہیں۔ان سے آپؓ کی تابناک اور روشن شخصیت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے۔ ابوطالب نے آپ کا نام علی رکھا اور آپ کی والدہ آپ کو حیدرکہہ کر پکارتی تھیں ،آپ کی کنیت ابوالحسنؓ اور ابوتراب تھی،ایک موقع پر جب کہ آپؓ مسجد نبوی میں لیٹے ہوئےتھے اور مٹی آپ ؓ کے جسم مبارک سے لگی ہوئی تھی تو یہ دیکھ کر حضور ﷺ نے محبت بھرے لہجہ میں فرمایا:’’ قُم یَا أبَا تُرَاب‘‘تب سے یہ آپؓ کی کنیت مشہور ہوگئی ۔المرتضی اور اسداللہ آپ ؓ کے القاب تھے۔ جب حضورﷺ کو نبوت عطا ہوئی تو حضرت خدیجہؓ کے بعد انہوں نے اسلام قبول کیا، بعض روایات میں آتاہے مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اسلام قبول فرمایا اور بعض روایات میں حضرت علی ؓکی تصریح ہے اس میں امام ابوحنیفہؒ نے اس طرح تطبیق دی کہ مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اور بچوں میں سب سے پہلے حضرت علیؓ نے اسلام قبول کیا۔ ہجرت کے موقع پر کفار مکہ کی امانتیں حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کے سپرد فرمائیں اور انہیں اپنے بستر پر لٹا دیا ۔سب کی امانتیں لوٹا کر حضرت علیؓ بعد میں قبا پہنچ کر حضورﷺ سے ملے۔آپ ﷺ نے اپنی لاڈلی بیٹی خاتون جنت سیدۃ فاطمہ الزہراء ؓ آپ ؓکے نکاح میں دی، تب آپؓ کی عمر پچیس برس تھی، اس موقع پر حضورﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ کو فرمایا تھا میں نے تمھارا نکاح اپنے اہل بیت کے بہترین آدمی سے کردیا ہے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کی طرح آپؓ کو بھی حضورﷺ سے دہری دامادی کا شرف اس طرح حاصل ہوا کہ سیدہ فاطمۃؓ کے انتقال کے بعد انہوں نے حضورﷺ کی نواسی اور سیدہ زینبؓ کی بیٹی سیدہ امامہ ؓ سے نکاح کیا ۔رسول کریم ﷺ کو آپ ؓ سے اور آپؓ کو رسول اللہﷺ سے گہری محبت تھی۔غٖزوہ خیبر کے موقع پر جب ایک قلعہ فتح نہیں ہورہاتھا تو حضورﷺ نے فرمایا تھا: ’’کل میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس سے اللہ اور اس کے رسول محبت رکھتے ہیں‘‘ ۔ آپؓ کی رسول اللہﷺ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک موقع پر آپ ؓ کومعلوم ہوا رسول اللہ ﷺ کے گھر فاقہ ہے تو ایک یہودی کا باغ سینچ کر اجرت میں سترہ عجوہ کھجوریں حاصل کیں اور انہیں خدمت اقدس میں پیش فرمایا تا کہ آقا ﷺ کا فاقہ دور ہوجائے۔ آپؓ اپنی قابل مثال شجاعت کے باعث شیر رب ذوالجلال کہلائے۔آپؓ کا خلق با کمال اور رعب و دبدبہ لازوال تھا۔آپؓ نے غزوۂ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں آنحضرتﷺ کے ہمراہ شرکت فرمائی۔معرکہ بدر و خیبر اور احزاب میں مبارز ت طلبی کے مراحل میں آپؓ نے ذوالفقار حیدری کی ضرب سے ولید، مرحب اور عمرو بن عبد ودود کو واصلِ جہنم کر کے کفر پر اسلامی برتری کی دھاک بٹھائی۔آپؓ نے تمام جنگوں بالخصوص احد اور خیبر میں شجاعت و بہادری کے ایسے جوہر دکھائے اور ایسے عظیم تاریخی کارنامے سرانجام دیئےجو سورج سے زیادہ روشن ہیں اور اسلامی تاریخ میں درخشاں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صدیقی دور میں اسلام کے تمام اہم امور میں خلیفہ اول حضرت امام سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کے ساتھ متحدو متفق اور ان کے عظیم الشان کارناموں میں ان کے ممد و معاون رہے۔آپؓ نے خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سچے دل سے اپنا امام و پیشوا مانتے ہوئے بیعت کی اوران کی معیت میں احیائے دین اور بقائے ملت کے استحکام کیلئے گراں قدرخدمات انجام دیں،انہی کے پیچھے اپنی نمازیں ادا فرمائیں،ان کے بہترین وزیر اور بہترین مشیر رہے۔آپؓ کا خیال تھا کہ خلافت کے بجائے آپؓ وزارت کے فرائض زیادہ بہترطریقہ سے انجام دے سکتے ہیں۔امام سیدنا عمر فاروقؓ کے دور میں آپؓ عدالت کے مشیر اول بھی رہے،چنانچہ فاروق اعظمؓ جب بھی کسی سیاسی کام کیلئے مدینہ سے باہر جاتے تو آپؓ ہی نائب کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ آپؓ کو خلفائے ثلاثہ سےاس قدر انس وعقیدت تھی کہ اپنے تینوں بیٹوں کا نام خلفاء کے ناموں ابوبکر،عمر اور عثمان رکھے جو کربلا میں اپنے بھائی حضرت حسینؓ کے ساتھ شہید ہوئے۔آپؓ کے تقویٰ اور صداقت پسندی کا یہ عالم تھا کہ سیاسی جہت سے اپنے شدید مخالف خال المئومنین ،سیدنا امام معاویہؓ بن ابو سفیانؓ اور ان کے ساتھیوں کی مومن کامل ہونے کی گواہی دی اور ان کو اپنا اسلامی بھائی کہا اور اپنے اختلاف کو دینی اختلاف نہ کہا۔علامہ رضی اپنی شہرہ آفاق تالیف ’’ نہج البلاغہ ‘‘ جلد ۳ صفحہ۱۲۶میں آپ ؓسےنقل کرتاہے کہ:’’ ہم اور شام والے(حضرت امیر معاویہ ؓ اور ان کے انصار)بالکل ایک ہیں‘‘۔ ہم میں بالکل اتحاد تھا ماسوائے اس اختلاف کے جوخون عثمانؓ کے بارے میں ہوگیااور حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سے قطعی بری الذمہ اور پاک ہیں۔ آپؓ نے یہ بھی ارشاد فرمایاکہ: میرے بارےمیں دو قسم کے لوگ ہوں گے ایک دعوائے محبت میں حد سے بڑ ھ جانے والے اور دوسرے بغض کی وجہ سے بہت کم کرنے والے اور سب سے بہتر میرے بارے میں درمیانی قسم کے لوگ ہوں گے ۔پس اسی حالت کو لازمی پکڑو۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے جو کچھ فرمایاتھا اسی طرح پیش آیا،خوارج نے آپ کی شان کو اتنا گھٹایا کہ آپ کے قتل تک کو حلال کردیا اور روافض نے اتنا بڑھایا کہ خدا سے ملا دیا ۔ آپؓ کا دور حکومت پانچ سال سے کچھ کم یا زیادہ تقریباََبائیس لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطے پر محیط رہا ۔آپؓ کا طرز حکومت مصطفوی شریعت کی اصل روح،عدل و مساوات اور خلفائے ثلاثہ کے منہاج پر قائم رہا۔تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتاہےکہ آپؓ کی شہادت خوارج کی کار ستانی کا شاخسانہ تھی۔منصوبہ سازوں نے آپؓ سمیت امیر معاویہؓ اور عمرو بن العاصؓ کے قتل کا منصوبہ ایک دن اورایک ہی وقت طے کیا۔ چنانچہ سیدنا علیؓ کے قتل کاذمہ عبدالرحمـٰن بن عمرو المعروف ابن ملجم نے لیا،بُرَک بن عبداللہ نے امیر معاویہؓ کے قتل کا حلف دیا اورعمرو بن بکر تمیمی نے عمرو بن العاص ؓ کو قتل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔سترہ رمضان المبارک کو برک بن عبداللہ ، امیرمعاویہؓ پر اس وقت حملہ آور ہوا، جب وہ د مشق کی جامع مسجدسے صبح کی نماز پڑھا کر باہر نکل رہے تھے ، آپؓ حملے میں معمولی زخمی ہوئے اور بچ گئے۔عمرو بن العاصؓ اس روز بیمار تھے اور انھوں نے اپنی جگہ خارجہ بن حذیفہؓ کو نماز پڑھانے کیلئے بھیج دیا، چنانچہ عمرو نے انھیں عمرو بن العاصؓ سمجھ کر شہید کر دیا۔اسی روز شقی القلب ابن ملجم خارجی نے داماد رسول اللہ ﷺ، ابوالحسنین ؓخلیفہ چہارم ، سیدنا حضرت علی المرتضٰی ؓ کو اس وقت اپنی زہرآلودتلوار کا نشانہ بنایاجب آپ ؓحی علی الصلوۃ کی صدا لگاتےہوۓنمازفجراداکرنے کے لۓکوفہ کی جامع مسجدکو جارہے تھے۔اورچند دنوں کےبعداکیس رمضان المبارک آپ ؓاپنے دو پیش روؤ ں امام عدل و حریت سیدناعمرابن خطاب اور امام جود و سخا سیدنا عثمان بن عفان رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح جام شہادت نوش فرما کے سرفرازی کے اعلیٰ مقام پہ فائزہوگئے ۔آپ ؓ کا طرز خلافت ہر مسلم حکمراں کیلئے مشعل راہ اور آپؓ کی زندگی ہر مسلم کیلئے نمونہ حیات ہے۔

تازہ ترین