• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمد ہمایوں ظفر

مئی2019ء کا ’’مدرز ڈے‘‘ میری امّی کے ساتھ میرا آخری مدرز ڈے ہوگا، میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ شفیق سایہ، وہ نرم و ملائم ہاتھ اور وہ ہر دَم برستی ہوئی محبت، مجھ سے اتنی جلدی رُوٹھ جائے گی اور اس طرح روٹھے گی کہ مجھے اس کا آخری دیدار بھی نصیب نہیں ہوگا، کبھی تصور ہی نہیں کیا تھا۔ مَیں اپنی ماں کے سب سے زیادہ قریب تھی، یہاں تک کہ اپنی شادی سے پہلے خاص طور پر یہ شرط رکھی کہ اسی شہر میں رہوں گی تاکہ اُن سے دُور نہ ہوسکوں۔ 

اللہ تعالیٰ نے میری یہ خواہش پوری کی۔ مَیں روزانہ اُن سے نہ صرف ملنے جاتی، بلکہ جو ذمّے داریاں شادی سے پہلے نبھاتی تھی، شادی کے بعد بھی بھرپور طریقے سے پوری کرتی رہی۔ میری عظیم ماں نے کبھی میری تعلیم پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا تھا۔ حتیٰ کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی مزید آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتی رہیں۔آج جو میں گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج، سکرنڈ میں بحیثیت لیکچرار خدمات انجام دے رہی ہوں، یہ اُن ہی کے مرہونِ منّت ہے۔

اپریل 2019ء میں امّی کی طبیعت اچانک خراب ہونا شروع ہوئی، تاہم وہ اپنی کیفیت ہم سے چُھپاتی رہیں اور گھر کے تمام کام کاج خود ہی کرتیں، ہمیں اچھی اچھی ڈشز بنا کرکھلاتی رہیں، لیکن جب اُن کی طبیعت شدید خراب ہوئی اور الٹرا سائونڈ کروایا گیا، تو پِتّے میں سرطان کا انکشاف ہوا۔ یہ ایک ایسی روح فرسا خبر تھی کہ جسے سُنتے ہی ہم سب کے اوسان خطا ہوگئے، میں اپنی بڑی بہن کے گلے لگ کر رونے لگی، لیکن پھر سب نے مجھے تسلّی دی کہ آج کل ہر مرض کاعلاج ہے۔ ہم امّی کے علاج کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے، وہ ان شاءاللہ جلد ہی تندرست ہوجائیں گی۔ تاہم، انہیں علم نہیں تھا کہ وہ ایک جان لیوا مرض میں مبتلا ہوچکی ہیں۔ 

وہ ہر ایک کو یہی بتاتیں کہ مَیں بالکل ٹھیک ہوگئی ہوں، اب مجھے آرام کی ضرورت نہیں ہے۔ خیر، اُسی دن شام 4بجے ہم ڈاکٹر سے ملے اور ان سے امّی کے علاج کے لیے کوئی بہتر راستہ تجویز کرنے کی درخواست کی، تو ڈاکٹر نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’انہیں یہ ادویہ کھلاتے رہیں، تاہم انہیں اب دوا سے زیادہ دُعا کی ضرورت ہے۔‘‘ فرطِ جذبات سے میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، روتے روتے ہچکییاں بندھ گئیں۔ لیکن یہ سوچ کر کہ امّی کو اس بات کا علم نہ ہوجائے کہ انہیں سرطان ہے،خود پر بہت کنٹرول کیا۔ امّی نے میری سوجی ہوئی آنکھیں دیکھیں تو باجی سے پوچھا کہ ’’اسے کیا ہوا ہے؟‘‘ باجی نے بات سنبھالتے ہوئے انہیں یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ ’’آپ کو اس طرح بستر پر پڑے دیکھ کر رو رہی ہے۔‘‘

میرے، میرے شوہر اور میری ساس کے مارچ ہی میں عمرے کی ادائی کے لیے سعودی عرب کے ٹکٹس کنفرم ہوچکے تھے، لیکن امّی کی بیماری کے پیشِ نظر ٹکٹس کینسل کروانے کا فیصلہ کیا، تو انہوں نے سختی سے ایسا کرنے سے منع کردیا اور کہا کہ ’’میں ٹھیک ہوں، میری وجہ سے آپ لوگ اپنا مبارک سفر ملتوی نہ کریں۔‘‘ سو اُن کے بے حد اصرار پر ہم نے اپنے ٹکٹس منسوخ نہیں کروائے۔ ہم چاہتے تھے کہ ہمارے عُمرے پر جانے سے پہلے امّی کچھ بہتری کی طرف آجائیں تاکہ ہم بھی اطمینان کے ساتھ جاسکیں۔ 

بہرحال، رمضان المبارک کا مہینہ تھا، 21مئی کو ہماری کراچی سے سعودی عرب کے لیے فلائٹ تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جارہی تھی، کیوں کہ میں امّی کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی۔ روانگی سے قبل امّی نے مجھے، میرے شوہر اور میری ساس کو پھولوں کے ہار پہنائے۔ مَیں امّی کے گلے لگ کر زور زور سے رونے لگی، تو انہوں نے مجھے گلے لگا کر پیار کیا، بہت تسلّی دی اور گاڑی کے نزدیک پہنچنے تک مسلسل ہاتھ کے اشارے سے اللہ حافظ کہتی رہیں، مَیں انہیں مڑ مڑ کر دیکھ رہی تھی۔ میرے شوہر اور ساس نے بھی امّی کو خدا حافظ کہا، پھر شوہر نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کار میں بٹھا دیا۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ میری امی سے آخری ملاقات ہے۔

مکّہ مکرمہ پہنچنے اور عمرہ ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے امّی سے بات کی، وہ بے حد خوش تھیں۔ ہمیں بہت مبارک باد دی۔ ہم نے اُن کی طبیعت پوچھی، تو کہا ’’تم اپنی عبادت پر توجّہ دو اور میرے لیے دُعا کرو، مَیں ٹھیک ہوں۔‘‘ میں نے کئی بار ویڈیو کال کے ذریعے انہیں حرم کعبہ کی زیارت بھی کروائی۔ 23ویں روزے کو ہم مدینہ منورہ پہنچے، وہاں بھی مسجد نبوی ؐ کی زیارت کروائی اور اذانیں بھی سنوائیں۔ امّی دن بہ دن بہت کم زور ہوتی جارہی تھیں، مگر اپنی بیماری سے بہت بہادری سے لڑ رہی تھیں۔ تاہم، وہ آخری وقت تک اپنی بیماری سے لاعلم تھیں۔ 

میری عدم موجودگی میں باجی، میرے بہنوئی، اور اُن کے بچّے امّی کا بہت خیال رکھ رہے تھے۔ عید کے تیسرے روز فجر کی نماز مسجدِ نبوی ؐ میں ادا کرنے کے بعد واپس ہوٹل آئی، تو پاکستان سے سُسر کا فون آگیا۔ فون کا اسپیکر آن تھا، وہ میرے شوہر کو بتارہے تھے کہ’’خالد! سمیرا کی ماں اب اس دنیا میں نہیں رہی۔‘‘ یہ روح فرسا خبر سنتے ہی میرا دماغ اور کلیجہ ایک ساتھ پھٹنے لگے۔ میرا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ میں اپنی امّی سے بات کرنا چاہتی تھی، لیکن وہ مجھ سے ناراض ہوکر بہت دُور چلی گئی تھیں۔ باجی نے بھی امّی سے بات نہیں کروائی، صرف چہرہ دکھایا، کتنی پیاری لگ رہی تھیں، کتنا خُوب صُورت، کتنا پُرنور چہرہ تھا۔ جیسے ہلکی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ گہری نیند سو رہی ہوں۔

تدفین اگلے دن فجر کے بعد رکھی گئی، اُس روز جمعتہ المبارک تھا۔ ہم فجر سے پہلے ہی مسجد نبوی ؐ پہنچ چکے تھے، میں نے باجی کو ویڈیو کال کی اور امّی کو اذانِ فجر سنوائی۔ امّی سفید لباس میں بہت خُوب صُورت لگ رہی تھیں۔پھر نمازِ فجر کے بعد خود بلند آواز میں سورئہ ملک کی تلاوت کرکے سنائی۔ تھوڑی دیر بعد باجی نے روتے اور سسکتے ہوئے کہا ’’سمیرا!امّی کو اللہ حافظ کہو، وہ ہمیشہ کے لیے جارہی ہیں۔‘‘ گھر میں بہت شور تھا، سب رو رہے تھے اور میری امّی اپنے آخری سفر پر روانہ ہورہی تھیں۔ 

میرے منہ سے مسلسل بس یہی نکل رہا تھا کہ ’’میرے آنے تک کوئی انہیں روک لے۔‘‘ لیکن کال کٹ چکی تھی اور شاید دُعا کا دروازہ اور میرا امّی سے رابطہ بھی ہمیشہ کے لیے منقطع ہوچکا تھا۔ امّی نے گھر کو مڑ کر بھی نہیں دیکھا،انہیں سب سے زیادہ فکر میرے چھوٹے بھائی کی رہتی تھی، اسے بھی پلٹ کر نہیں دیکھا اور آخر کیوں، میرا بھی انتظار نہیں کیا۔ میرے چھوٹے بھائی کا بھی بہت بُرا حال تھا۔ رو رو کربس یہی کہے جارہا تھا کہ’’ آپ لوگ جلدی واپس آجائیں۔‘‘سب اسےسنبھال رہے تھے، باجی کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہورہی تھی۔ اِدھرمجھے میری ساس اور شوہر نے سنبھالا ہوا تھا۔ اس دن ہم نے ساری نمازیں مسجد ِنبوی ؐ ہی میں ادا کیں اور امّی کے ایصال ثواب کے لیے مسلسل نوافل ادا کرتی، تسبیحات پڑھتی رہی۔ 

بعدازاں، مکّہ مکرمہ میں بھی ان کی مغفرت کے لیے دعائیں کرتی رہی۔ مکے کی سرزمین پر سجدہ ریز ہو کر امّی کے لیے مغفرت کی دعائیں، بخشش کی دعائیں، میری طرف سے امی کے لیے وہ تحفہ تھیں، جس کی ہر مسلمان کو خواہش ہوتی ہے اور پھر حیرت انگیز طور پر جتنی جلدی میں نے یہاں خود پر قابو پالیا تھا اور جتنا اللہ ربّ العزت نے مجھے حوصلہ اور صبر دے دیا تھا، مجھے خود سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہے، اتنا صبر کہاں سے آیا۔ اس کے بعد ہم نے دو عُمرے اور ادا کیے۔ 13جون کو ہماری جدّہ سے پاکستان کے لیے فلائٹ تھی، میرا دل بہت گھبرا رہا تھا، یہ سوچ سوچ کر دماغ ہلکان ہورہا تھا کہ میں اُس گھر میں کیسے جائوں گی، جہاں ہر طرف، قدم قدم پر میری ماں کی یادیں بکھری ہوئی تھیں۔ 

وہاں پہنچی تو ہر طرف صرف اُداسیوں کا راج پایا۔ سب مجھ سے گلے مل رہے تھے، پر میری نظر صرف اُس عظیم ہستی کو تلاش کر رہی تھی،میرا دل اُن سے ملنے کے لیے پھٹا جا رہا تھا اور وہ قبر میں اطمینان سے سورہی تھیں۔ خواتین کے قبرستان جانے کی ممانعت کے باوجود مَیں امّی سے ملنے قبرستان گئی،امّی سے بہت باتیں کیں، لیکن امّی نے میری کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ لگتا تھا، بہت گہری نیند میں ہے میری ماں..... ’’ہائےمیری ماں..... میری ماں.....یااللہ!! میرے ماں باپ کے درجات بلند فرمانا، ان کی مغفرت فرمانا، آمین۔‘‘ (سمیرا شیخ ،نواب شاہ)

تازہ ترین