• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک خداداد میں عجیب ہوائیں چل رہی ہیں جو ایک ایسے دور کے آغاز کا پتہ دیتی ہیں جس کی مثال تاریخ کے اوراق میں کہیں نہیں ملے گی۔ مختلف مدوں میں فوائد حاصل کرنے والے مفاد پرست افراد جوق درجوق احتساب کے عمل سے ناقابل بیان ریلیف حاصل کررہے ہیں، چند نئے چہرے بھی اُن میںشامل ہیں۔ ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ بیوروکریسی کے ارکان روزِ اول سےاس ریلیف کے جدی پشتی حقدار رہے ہیں۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) نے حال ہی میں "Cash Poor, Perk Rich" کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ ’’پاکستان کی بیوروکریسی آج بھی نوآبادیاتی میراث سے بہت زیادہ متاثر ہے‘‘۔برطانوی راج نے حکمرانی کے لئے ایک انتہائی جابر اور سنٹرلائزڈ بیوروکریٹک ادارہ تشکیل دیا تھا لیکن آزادی کے بعد بھی اس ادارے نے اپنی سوچ نہیں بدلی جس کے نتیجے میں یہ ادارہ ریاست کے کام کاج کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنا رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ریاست کے معاملات پر اس کی گرفت اتنی مضبوط ہوتی چلی گئی کہ سول سروس میں اصلاحات کے لئےقائم کئے جانے والے 29 کمیشنز / کمیٹیاں بھی اسے قابو کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں جسے عرفِ عام میں ’’افسر شاہی‘‘ کہتے ہیں۔ قائد اعظم کے منشور کے مطابق ریاست کے خادم ہونے کے بجائے اس طبقےنے طاقت اور منافع کے حصول کی خاطر مجرم سیاسی مافیا کے ہاتھوں خود کو گروی رکھ دیا۔

اگرچہ سرکاری ملازم کو کسی پبلک فورم پر جھاڑنے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لیکن حال ہی میں پیش آنے والے ایک واقعے سے احساس ہوا کہ بیورو کریسی کا رویہ کس حد تک متعصبانہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب رانا ثناء اللہ نے چیف سیکرٹری پنجاب اور کمشنر لاہور کو کھلے عام دھمکیاں دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ وہ ’’سرخ لائن‘‘ کو عبور کرنے کی جرأت نہ کریں تو ہر طرف سناٹا چھایارہا لیکن جب تحریک انصاف کی ایک رہنما نے ایک جونیئر سرکاری ملازم کو اس کے فرائض یاد دلاتے ہوئے ناراضی کا اظہار کیا تو ایک طوفان بدتمیزی برپا کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ اس معاملے کی شکایت چیف سیکرٹری نے وزیراعلیٰ سے بھی کر دی۔ سول سروس کی اس دوغلی سیاست کا اس کے دیئے جانے والے معاوضہ اور ترغیبی ڈھانچے ، کیریئر میں اضافے کے غیر مساوی مواقع ، تنخواہ ، کارکردگی سے منقطع ہونے ، نقد گرانٹ ، رہائشی سہولیات ، طبی الائونس ، غیر معمولی تنخواہوں ، شاہانہ طرز زندگی اور مراعات سے جڑا ہوا ہے جن کی اجرت ’’عالمی بیورو کریسی شماریات‘‘ کے مطابق ملک میں نجی شعبے کی اجرت سے 53فیصد زیادہ ہے۔ خدشہ ہے کہ PIDE کی رپورٹ میں شامل سفارشات کو افسر شاہی کے عہدیداران ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیں گے تاکہ بابوئوں کی طاقت اور زعم کم نہ ہو۔ اس کا سب سے نقصان دہ حصہ وہ ذہنیت ہے جو اس طبقے میں سب سے بالاتر ہونے کا احساس پیدا کرتی ہے۔ یہ بات ایک غلط مفروضے پر مبنی ہے کہ بیوروکریسی کے بغیر کچھ کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ اسے خصوصی استحقاق حاصل ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنے لئے جو بھی مناسب سمجھے وضع کرے۔ اس ضمن میں انہوں نے اپنے آپ کو ایک Hydra بنا دیا ہے جو عام انسانوں پر لاگو قوانین اور ضوابط کی پاسداری سے کلیتاً انکاری ہے۔

احتساب (کی عدم موجودگی) کی افسوسناک کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ہم نے سیاستدانوں کا محاسبہ کرنے کے معاملے میں بے شمار مزاحیہ سرکس لگا رکھے ہیں ۔ ہمارے پاس شریفوں ،بھٹواور زرداریوں سمیت کئی سیاستدانوں کے خلاف ناقابل تردید شواہد موجود ہیں لیکن پھر بھی کسی کو سزا دلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ الٹا مجرموں کو بغیر کسی ٹھوس دلیل کے نہ صرف ضمانت دے دی جاتی ہے بلکہ خودساختہ بیماری کی آڑ میں بیرون ملک فرار ہونے کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ غریب تو انصاف کے حصول کے لئے ہمیشہ ہاتھ اٹھائے منتیں کرتا نظر آتا ہے لیکن تعطیلات کے باوجود عدالتوں کے دروازے کھول کر طاقتور اور دولت مند افراد کو ریلیف فراہم کیا جاتا ہے۔

نیب کی بات کریں تو مجرموں کا احتساب کرنا اس کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے اس ادارے کو بھی مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ نیب کی احتساب میں صرف اتنی دلچسپی رہ گئی ہے کہ ’’پلی بارگین‘‘ کے تحت لوٹی ہوئی رقم سے کچھ حصہ لے کر ملزموں کومع باقی دولت آزاد کر دیا جاتا ہے۔ سب نے مل کر ایک بھیانک تماشہ لگایا ہوا ہے۔ ان کی اپنی صفوں میں مجرم موجود ہیں جو دوسرے مجرموں کو احتساب سے بچاتے ہیں کیونکہ جرم کی دنیا میں یہ سب یک زبان ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی بقا ایک دوسرے سے جڑے رہنے میں ہے ، اگر کسی ایک کو سزا سنائی گئی توسب برباد ہو جائیں گے۔

ان حالات سے نکلنے کے لئےPIDE کی رپورٹ میں جو راستہ تجویز کیا گیا ہے اس کے تحت ہر ریاستی ادارے میں جامع اور پائیدار اصلاحات متعارف کروانا ہوں گی۔ اگر اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات نہ کئے گئے تو پھر تباہی کے اس سیلاب سے کوئی نہیں بچ پائے گا۔

(صاحب تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

تازہ ترین