• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدینہ منورہ پہنچ کرایسی خوشی محسوس ہوئی تھی جو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں،دیکھنے والے اندازہ لگارہے تھے کہ یہاں آکر میں بہت خوش ہوں ، چال ڈھال بدل چکی تھی ، ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا ، مدینے کی زمین پر ادب و احترام سے قدم رکھاکہ اس زمین پر آقائے دوجہاں سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نےبھی قدم ِ مبارک رکھے ہونگے ، دنیا بھرکے ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہےکہ کسی بھی قیمت پر رمضان المبارک کا آخری عشرہ اس پاک سرزمین میں گزارے ،میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل تھا جن کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ مدینہ منورہ میں گزارنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی ،مدینہ منورہ میں مقیم ہمارے دوست بھی ان خوش نصیبوںمیں شامل ہیں جن کو مدینہ منورہ کے حوالے سے نہ صرف بہت زیادہ معلومات ہیں بلکہ وہ یہاں آنے والے مہمانوں کو مدینہ منورہ کا دورہ بھی کراتے ہیں اور معلومات بھی فراہم کرتے ہیں ،جبکہ میری تو حقیقی خواہش یہ تھی کہ میں کسی طرح چودہ سو سال پرانے دور میں پہنچ جائوں اور اپنی آنکھوں سے اس دور کے مدینہ منورہ کو دیکھ سکوں۔ اپنے پیارے رسول ﷺ کا دیدارِ مبارک کر سکوں، صحابہ کرام رضوان ﷲ علیھم اجمعین کا دیدار کرسکوں، حضرت بلال حبشی رضی ﷲ عنہ کی خوبصورت آواز میں اذان سن سکوں اور پھر مسجد نبوی ﷺ میں آقائے دوجہاں حضر ت مصطفیﷺ کی امامت میں نماز ادا کرسکوں ۔میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی رسول ﷲ ﷺ کے لئے محبت دیکھنا چاہتا تھا ۔ میں حضرت علیؓکی میدان جنگ میں شجاعت دیکھناچا ہتا تھا ۔ میں حضرت عمرؓ کا ان کے دور خلافت میں انصاف دیکھنا چاہتا تھا۔ حضرت عثمان ؓ کی سخاوت دیکھنا چاہتا تھا ، غرض میں پوری ریاست مدینہ دیکھنا چاہتا تھا ، میری خواہش تھی کہ کاش میں غزوہ بدر کے ان تین سو تیرہ مجاہدین کی جماعت کا سپاہی ہوتا جن مجاہدین نے ایک ہزار سے زائد کفار کا غرور خاک میں ملایاتھا۔ میری خواہش یہ بھی تھی کہ میں غزوہ احد میں شریک ہوتا ‘کاش غزوۂ خندق میں شریک ہوتا ،ایسی ہزاروں خواہشیں تھیں جو مدینہ منورہ پہنچ کر میرے دل میں جاگ اُٹھی تھیں، لیکن بدقسمتی سے میں اس دور کا مسلمان نہیں تھا لہٰذا میری یہ تمام خواہشیں ادھوری ہی رہنا تھیں ، لیکن خوش قسمتی یہ تھی کہ میں آج کے زمانے کا مسلمان تھا ، ایک خوش قسمت انسان جسے ﷲ تعالیٰ نے مسلمان پیدا کیا، جسے ﷲ تعالیٰ نے شہر نبی ﷺ آنے کی توفیق عطا فرمائی ۔ میرے ساتھ دیگر ساتھی بھی تھے ،میری کوشش تھی کہ ہر فرض نماز کے بعد پیارے نبی ﷺ کے روضہ مبارک پر حاضری اور سلامی پیش کرسکوں ،راستے میں اپنے بائیں ہاتھ پر ریاض الجنہ کا دیدار کرتا ہوا گزرتا ، پھر اگلے روز فجر کے موقع پر مجھے ریاض الجنہ میں داخل ہونے اور وہاں شکرانے کے نوافل ادا کرنے کا موقع ملا ، میں نبی اکرم ﷺ کے روضہ مبارک کے بالکل نزدیک تھا ، میں محسوس کر سکتا تھا کہ آج سے چودہ سو سال قبل ہمارے نبی اکرم ﷺ نماز کے موقع پرکیسے اپنے گھر کا دروازہ کھول کر نمازکی ادائیگی کےلئے مسجد نبوی ﷺ میں تشریف لاتے ہونگے، ان سے محبت کرنے والے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور دیگر صحابہ کرام آپ ﷺ کے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہونگے ،ریاض الجنہ میں نوافل کی ادائیگی کے بعد میری ملاقات مسجد نبویﷺ کے ایک خادم سے ہوئی ،یہ کوئی عام خادم نہ تھے یہ ایک پاکستانی شہری اور سچے عاشق رسولﷺ تھے جنھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ متحدہ عرب امارات میں گزارالیکن پھر عشق نبیﷺ کی ایسی تڑپ جاگی کہ سب کچھ چھوڑ کر مدینہ منورہ منتقل ہوگئے اور پھر خدمت کے لئے بھی مسجد نبویﷺ میں اصحاب صفہ ، یعنی جہاں شام کو نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ بیٹھ کر بات کیا کرتے تھے، کے چبوترے کے اطراف کی صفائی کی ذمہ داری ہمارے اس بزرگ دوست کے حصے میں آئی تھی،ان کا کہنا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان سے دعا کراتے ہیں ، درجنوں دفعہ یہاں آکر لوگ انہیں بڑ ی بھاری تنخواہ پرملازمت کی آفر بھی کرتے ہیں لیکن ان کے لئے اس سے بڑی کوئی دولت نہیںکہ وہ نبی کریم ﷺ کے گھر کی خدمت گزاری پر مامور ہیں اور آخری سانس تک یہیں رہنا باعث فخر سمجھتے ہیں ، مجھے آج بھی مدینہ منورہ کے پہاڑوں کے دامن میں اونٹنی کے دودھ کا وہ ذائقہ یاد ہے‘ جب مقامی عرب تاجر نے ہم آدھے درجن افراد سے دودھ کی قیمت لینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ ہم مہمانوں سے قیمت نہیں لیا کرتے ، آج ایک بار پھر رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہے ہم جاپان میں ہیں دو سال ہوگئے‘ ہم مدینہ منورہ نہیں جاسکے ۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ﷲ تعالیٰ اس کورونا کی وبا کو جلد ازجلد اس دنیا سے ختم فرما دے اور اپنے در کی حاضری کھول دے تاکہ مجھ جیسے کروڑوں گناہ گار آپ ﷺ کے درپر پیش ہوکر اپنے گناہوں کی معافی طلب کرسکیں۔

تازہ ترین