تہران (اے ایف پی) ایرانی صدارتی امیدواروں کی فہرست میں عسکری شخصیات کی موجودگی پر بےچینی پائی جاتی ہے۔ جب کہ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ صدارتی امیدواروں کا فوجی پس منظر نئی بات نہیں، کوئی حاضر سروس فوجی نہیں ہے۔ تفصیلات کے مطابق، ایرانی صدارتی امیدواروں کی فہرست میں عسکری شخصیات کی موجودگی پر اسلامی جمہوریہ کی سیاست میں ممکنہ عسکریت پسندی پر بےچینی پائی جاتی ہے۔ 18 جون کے انتخابات کی رجسٹریشن منگل سے ہفتے تک ہوگی۔ ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے فوجی پس منظر رکھنے والے ممکنہ صدارتی امیدواروں کی ممکنہ فہرست کی جانب اشارہ کیا ہے۔ جب کہ تہران کے ایک صحافی احمد زید آبادی کا کہنا تھا کہ صدارتی امیدواروں کا فوجی پس منظر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فارس نیوز ایجنسی کے حبیب تورکاشوند کا کہنا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی امیدوار حاضر سروس فوجی نہیں ہے۔ ایران کی انقلاب گارڈ کور کے دو ارکان پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باغیر غالیباف اور علی لاریجانی ماضی میں صدارتی انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اسی طرح ایڈمرل علی شام خانی جو کہ سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری جنرل ہیں وہ بھی انتخابی مہم میں شامل ہوچکے ہیں۔ یہ تینوں ممکنہ طور پر رواں برس بھی صدارتی انتخابی مہم میں حصہ لیں گے۔ روزنامہ جمہوریہ اسلامی نے خبردار کیا ہے کہ فوجی شخصیت کے سربراہ بننے سے ملک پر منفی نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ جب کہ سابق قانون ساز علی مطہری کا کہنا ہے کہ ترکی اور پاکستان میں فوجی اقتدار ختم کرنے کے لیے بہت کوششیں کی گئیں ہیں، جس سے سبق سیکھنا چاہیئے۔ تاہم، جنرل دہقان نے ان تمام باتوں کو مسترد کردیا ہے کہ فوجی قیادت مارشل لا یا آزادی کو محدود کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران میں ریاستی عسکریت پسندی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی نے بارہا فوج کو سیاست میں دخل اندازی سے روکا ہے تاہم، آیت اللہ خامنہ ای نے فوج کا اقتصادی اور سیاسی اثرورسوخ بڑھایا ہے۔