• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دن ہفتے کا، صبح کے اخبارات آچکے تھے ایک دوست کا فون آیا، ان کا پہلا سوال یہ تھا۔ بجٹ پر تمہارا کالم کب آرہا ہے۔ میں نے جواب دیا۔ اب بجٹ میں کیا رکھا ہے ہر چیز پر حکومت نے قبضہ کرلیا۔ عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملی۔ بہت سی باتوں کا عوام سے فوری کوئی تعلق نہیں۔ رہے وعدے تو وہ تو ہر بجٹ میں ہوتے ہی رہتے ہیں۔ وہ کہنے لگے پھر ان پہلوؤں پر قلم اٹھاؤ، میں نے کہا سوچوں گا اور ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں۔ میں اسی سوچ بچار میں تھا کہ مجھے برادر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے وہ الفاط یاد آگئے جو موصوف نے میری صد سالہ تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہے تھے کہ سبزواری صاحب نے 2008ء کے انتخابات کے بعد نئی حکومت کے لئے کہا تھا کہ اس کے پاس کوئی طلسمی چراغ یا جادو کی چھڑی نہیں کہ اس کو رگڑتے یا ہلاتے ہی بگڑی ہوئی صورت فوری طور پر تبدیل ہوجائے، نیز عوام کو بجا اور بے جا مطالبات سے گریز کرنا چاہئے۔ تیل اور تیل کی دھار دیکھنی چاہئے۔
میرے خیال میں اس وقت بھی یہی صورت ہے اور یہ مثال اس صورت حال پر سو فی صد پلس صادق آتی ہے۔ خود وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں لٹی پٹی معیشت ورثے میں ملی ہے۔ نہ تو کوئی مقررہ ہدف پورا ہوسکا۔ یوں لگتا ہے کہ ملک کا پورا اقتصادی نظام آٹو پائلٹ پر چل رہا تھا۔ تاہم ہم موجوں کا رخ بدلیں گے اور نہ صرف معیشت کو بحال کریں گے بلکہ اسے بلند سطح پر لے جائیں گے اور عوام سے جو وعدے کئے ہیں ان کو پورا کریں گے۔ ملک میں نئے دور کا آغاز ہورہا ہے۔ ہماری منزل سوائے ترقی کے اور کچھ نہیں۔ میرے پرجوش احساسات اس وقت سرد پڑ جاتے ہیں جب میں آج کی ٹوٹی پھوٹی معیشت کو دیکھتا ہوں۔ معاشی ترقی سے قیمتوں تک، محصولات سے اخراجات تک ، پبلک ڈیبٹ سے سرکلر ڈیبٹ تک، زرمبادلہ کی شرح سے زرمبادلہ کے ذخائر تک اور بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں استحکام تک، کاش کوئی ایسی کارکردگی کا اعشاریہ ہوتا جس کے متعلق میں یہ کہہ سکتا کہ اس معیشت کی دیکھ بھال بہترین قومی مفاد میں کی گئی۔ دراصل دیکھ بھال کا عمل موجود ہی نہیں تھا یوں لگتا ہے کہ معیشت کا نظام آٹوپائلٹ پر چل رہا ہے۔ ان الفاظ نے گزشتہ حکومت کے پورے معاشی نظام کو کوزے میں بلند کردیا ہے۔
دراصل ہر آنے والا وزیر خزانہ پچھلے وزیر خزانہ کے کام کو طعن و تشنع کا نشانہ بناتا ہے خصوصاً جب برسراقتدار پارٹی تبدیل ہوجائے، سوال یہ ہے کہ موجودہ وزیرخزانہ نے وہ کون سے اقدامات کئے جن سے عوام کو فوری ریلیف مل سکے۔
مسائل تو بہت ہیں مگر دو مسئلے سرفہرست ہیں پہلا توانائی کا بحران جس نے نہ صرف عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے بلکہ ملکی معیشت کا بھٹہ بھی بٹھادیا ہے۔ اور دوسرا روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی ، جس کی روک تھام میں حکومت عاجز نظر آتی ہے۔ توانائی کا مسئلہ کچھ لمبی مدت چاہتا ہے۔ اگر بھارت سے مختلف مقامات پر بجلی حاصل کی جائے تو اس کی شدت میں کمی آسکتی ہے۔ مہنگائی کا مسئلہ خود حکومت سے تعلق رکھتا ہے، اس کی آمدنی کم ہورہی ہے اسی تناسب سے اخراجات میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ چنانچہ آمدنی حاصل کرنے کے لئے گھی ، خوردنی تیل ، شکر ، دودھ ، مشروبات ، چھالیہ پان، سگریٹ ، فریج، ایئرکنڈیشنر، اسٹیشنری وغیرہ پر ڈیوٹی یا ٹیکس بڑھادیئے گئے۔ سیلز ٹیکس کی شرح میں ایک فی صد اضافہ کردیا گیا، خود اپنی رقم کو بینک سے نکالنے پر، پرائز بانڈ کی انعامی رقم پر، کمپنیوں کے منافع پر ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ کردیا گیا حتیٰ کہ حاجیوں کے ٹیکس میں ڈیڑھ ہزار روپے فی کس اضافہ کردیا گیا۔ اس ساری جدوجہد سے 209 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے۔ بجٹ 35کھرب کا ہے۔ متوقع آمدنی 24کھرب ہے پھر بھی بجٹ خسارے میں رہے گا۔ اگر حکومت کو امریکہ کی جانب سے کولیشن سپورٹ فنڈ میں 112 ارب کی رقم نہ ملی تو ہماری مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ ہم 500ارب روپے کا سرکلر قرضہ 60دن میں چکا دیں گے۔ دو مہینے میں اتنی آمدنی کی توقع نہیں کہ عام اخراجات کے علاوہ 500ارب کا قرضہ ادا کردیا جائے، ظاہر ہے اس کو ادا کرنے کے لئے بینکوں وغیرہ سے ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا جائے گا۔ نقد تو 500ارب آئیں گے اور قرضہ کا بار ہزار ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔موجودہ سال میں قومی بجٹ کی اسکیموں کی کارگزاری اچھی رہی۔ اب اس ذیل میں چند نئی اسکیموں کا آغاز زیر غور ہے۔ کیا 209ارب کے لئے محصولات کے نفاذ کے بعد ان نئی اسکیموں میں اتنی سکت ہوگی کہ وہ بجٹ کو خاطر خواہ مالی ذرائع فراہم کرسکیں۔
اس وقت ملک سیاسی اور انتظامی طور پر یوں بٹا ہوا ہے، قومی اور بلوچستان اسمبلیوں پر مسلم لیگ (ن) کا قبضہ ہے۔ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کا بول بالا ہے۔ سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ کا قومی بجٹ کو مایوس کن کہنا کسی اچھی اور مفاہمتی فضا کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔
بجٹ میں روایتی انداز سے ہٹ کر جو الٹ پلٹ ہوئی ہے اور 209 ارب روپے حاصل کرنے کے لئے جو ٹیکس لگائے گئے ہیں یا ان کی شرحوں میں جو اضافہ کیا گیا ہے، اس پر اس سطح پر احتجاج نہیں ہوا جس کی سرکاری اور غیرسرکاری حلقوں میں توقع تھی، کیا اس رویہ سے یہ نتیجہ نکال لیا جائے کہ عوام میں معاملات کو سنجیدگی سے سمجھنے کا جذبہ پیدا ہورہا ہے۔ اگر میرا تاثر درست ہے تو یہ بڑی کامیابی ہے اور ملک کے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی نشانی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
تازہ ترین