• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر گاہ حقیقت پر مصنوعیت کی طلسم کاری چھائی ہوئی ہے،یوں سچ سو پردوں میں نہاں ہے۔ پشتو میں کہتے ہیںکہ ’’جب سچ پہنچتا ہے تو جھوٹ بستی کی بستیاںویران کر چکا ہوتاہے۔یہی اس ملک کا معمول ہے،اس سلسلے میں قوم کو ہیپناٹائزیا سحرزدہ کرنےکیلئے حکمران طبقات اور ان کےدیرینہ حلیف سرمایہ دارومذہبی اشرافیہ کا مضبوط اکٹھ موجود ہے۔یوں سیاست،معاشرت ،معیشت، سمیت گویا زندگی کا ہر شعبہ جمود کا شکار بلکہ یرغمال ہے۔اختیارمند اور حکمران طبقات عوام کی توجہ ایک مسئلے سے ہٹانے یا اس مسئلے میں عوام سے اپنی ہمدردی جتانے کی خاطر ایسے ایسے شوشے مارکیٹ میں لاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ،اسی عقل کا پھر ٹھکانہ اُس وقت کہیں نہیں رہتاجب عوام بھی دکھاوے کے ان رسمی بیانات وتقریروں کو سنجیدہ لے لیتے ہیں۔سیلاب ،زلزلوں سمیت ناگہانی آفتوں و واقعات میں مقتدر طبقات عوام سے خیرخواہی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے ،اور جذبہ ایثار کا مثالی مظاہرہ کرنےکی ایسی ہی اپیلیں کرتے رہتے ہیں ، نیز المیہ سازوآواز سے بھی دکھتی رگوں کو چھیڑنےکا ’قومی فریضہ ‘‘بہ ا حسن نبھانےمیں ’ کوئی دقیقہ فروگزاشت ‘نہیں رکھاجاتا، لہٰذا اثر کیوں نہ ہو۔ان دنوں کوروناوبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میںلے رکھا ہے لیکن جتنےبےبس پاکستانی عوام ہیں شاید ہی دنیا کے کسی اورخطے کے باسی ہوں۔ اپنے حکمرانوں اور نظام صحت پر بے اعتباری کا یہ عالم ہے کہ بیماروں کی ایک بڑی تعداد اس وجہ سے گھروں میں اذیت ناک صورتحال سے دوچارہے کہ اُنہیں یہ شک ہے کہ اسپتال جانے کی صورت میں اُن کی ٹی بی،دمے،سرطان ،امراض قلب سمیت دیگر اصل بیماریوں سے صَرف نظر کرتے ہوئے اُنہیں کورونا وارڈ میں ڈال دیا جائیگا ،لہٰذاخداوندکریم ہی کے آسرے پر گھر پر ہی پڑا رہاجائے۔ اس وباکے دوران جس طرح بےروزگاری و غربت میں اضافہ ہواہے،اسی تناسب سے ستم گروں نے مہنگائی کا طوفان بھی برپا کررکھاہے،یوں غریب کی جو حالت ہے وہ صاف ظاہرہے لیکن حکمران طبقات ایسے میں ذخیرہ اندوزوں اور مہنگائی مافیا کے دراز ہاتھ روکنے اور نظام صحت پر عوامی اعتماد بحال کرنےکی بجائے عوام سے ’’عید سادگی ‘‘سے منانے کی اپیلیں کر رہے ہیں۔اسلام کے اس قلعے پاکستان کاعجوبہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی حکمران یا سپہ سالار ایسی کوئی اپیل مارکیٹ میں لاتاہے تو شاہ سے زیادہ شاہ کےوفاداروں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں ، وہ چاپلوسی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانےکی کوشش میں ایسابازار گرم کردیتے ہیں کہ بس کوئی اورآواز سنائی ہی نہیں دیتی۔ان دنوں درباریوں کی جانب سے مملکت خداداد میں یہی اپیلیں عام ہیں کہ عید سادگی سے منائی جائے۔ایسی اپیلیں کرنے والے چونکہ خود عیش وعشرت کی زندگی گزارتے ہیں،اس لئے انہیں یہ پتہ ہی نہیں ہوتاکہ غریب کی تو ہر عید ہی سادہ ہوتی ہے،بلکہ یہ کہنا درست ہے کہ اپیلیں کرنے والے اور ان کے ہمنوائوں کو سب کچھ پتہ ہونےکےباوجود گویاوہ ہر موقع کی طرح وباکی اس صورتحال کو بھی غریب عوام کا تمسخر اُڑائے بغیر نہیں انجوائے کرسکتے۔جس ملک کی 8کروڑ سے زیادہ آبادی غربت سے دوچار ہو،اور باقی آبادی کو بھی فنا وبقا کی صورتحال درپیش ہو،اُس ملک کے عوام سےعیدسادہ انداز سے منانے کی اپیل تووہ اشرافیہ ہی کرسکتی ہے جو اس تمام صورتحال کی ذمہ دارہے۔ حب الوطنی کے نام نہا د دعوے کرنے والی یہی مافیا برسوں پہلے بھی غریب کو عید کی خوشیوں سے محروم کرنےکی ذمہ دارتھی ،آج بھی کورونانہیں یہی مافیا ذمہ دارہے،اسی مافیا ہی کےمتعلق برسوں ہوئے احمدفراز نے کہا تھا:

ہلال عیدہے گویا کٹی پتنگ جسے

بلند بام خلا ہی میں لوٹ لیتے ہیں

آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صرف پاکستان اور نائیجریا کی اقتصادی شرح نمو انتہائی کم یعنی 1.5 فیصد ہے۔ورلڈ بینک کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان میں غربت میں ممکنہ طور پر 2.3فیصد مزید اضافہ ہوا اور مزید 58لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جاچکے ہیں۔اب جب ہماری معاشی حالت یہ ہو،توکیا اندازہ نہیں لگایا جا سکتاکہ ماسوائے اشرافیہ کے کسی اورکی عید کیونکررنگین ہوسکتی ہے؟اب کیا یہ مذاق نہیں کہ جو حکمران مزدورکی ماہانہ تنخواہ 17ہزار روپے مقرر کرکے اس کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے ،وہ انہی مزدوروں سے سادہ عید منانے کی اپیلیں کرتے ہیں۔وفاقی بیورو شماریات نے گزشتہ دنوں اپنی ہفتہ واررپورٹ میں بتایا ہےکہ ایک ہفتے کے دوران 28اشیاءکےنرخوںمیں مزید اضافہ ہوگیاہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کو مہنگائی مافیاکیخلاف کارروائی سے کورونا نے روک رکھا ہے؟اب جو کام حکمرانوں کے کرنےکے ہیں وہ تو ان سے ہونہیں پاتے لہٰذا ظاہر ہے کہ وہ اور اُنکے ہمنوا پھر اسی طرح کی اپیلیں کرتے رہیں گے،اس طرح کی اپیلیں بارہاسابقہ حکومتوں نے بھی کیں ،اور آئندہ بھی مملکت کا کاروبا ر اسی طرح لایعنی اپیلوں، وعدوں اور یقین دہانیوں پر چلتارہے گا۔

تازہ ترین