• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو چالیس سال پہلے کی بات ہے ، مگر ایک ایک لفظ اور شخص یوں یاد ہے کہ مسافر اور سفر… دونوں انوکھے تھے۔ انڈیا سے شمیم حنفی اپنی دو بیٹیوں اور بیوی صبا کے ساتھ پہلی دفعہ پاکستان آئے تھے۔ میرا ایک انوکھا دوست تھا شاید پولیس افسر تھا۔ ان کے خاندان، اصغر ندیم کے خاندان اور میں نے پروگرام بنایا، چلو انہیں لاہور سے باہر لے کرچلیں، دکھائیں کہ کیسی کیسی خوبصورت وادیاں پاکستان میں ہیں۔ دو گاڑیوں میں یہ قافلہ مری سے نتھیا گلی، ایبٹ آباد، مانسہرہ، سید احمد شہید کی قبر سے ہوتا ہوا ناران اور کاغان کے ہر شہر میں ایک دن ٹھہرا۔ اس زمانے میں سیف الملوک جھیل کا راستہ کچی پہاڑیوں سے ہوتا ہوا جاتا تھا۔ کسی طرح کی گاڑی بھی نہیں جاسکتی تھی۔ صرف خچروں پر سواری ہوسکتی تھی۔ اب آپ سوچیں کہ صبا نے ساڑھی پہنی ہے اور خچر پر چڑھ رہی ہے۔ جیسے تیسے کرکے اتنا مشکل راستہ کہ ایک جگہ صرف ایک پیر رکھنے کی گنجائش اور نیچے کھائی۔ جان پر کھیل کر، سامنے سیف الملوک جھیل تھی۔ ابھی پوری طرح برف سے آزاد نہیں ہوئی تھی۔ جھونپڑی میں ایک پکوڑے بنانے والا بوڑھا بیٹھا تھا۔ ہم نے خوش ہوکر آدھے کچے کھا لئے۔ ہوٹل میں تالاب سے ٹرائوٹ مچھلیاں پکڑیں۔ ہم نے اس خاندان کو پاکستان کی ہر زمین اور ذائقہ چکھایا۔ اب بھی جب ہم لوگ ملتے تو شمیم ناران اور کاغان کا بہت ذکر کرتا۔

یہ چالیس سال پرانا دوست شمیم حنفی جس نے جدید تنقید اور جدید ادب پرلکھنے میں بڑا نام کمایا۔ احمد شاہ نے کراچی آرٹس کونسل کے بے شمار افتتاحی اجلاس میں کبھی بطور مہمانِ خاص اور پچھلے برس سے زوم پر شمیم حنفی کا افتتاحی خطاب ہوتا تھا۔ پاکستان سے جانے والے سارے ادیب، ایک شام ضرور اس کے ساتھ گزارتے اور صبا بے حد لذیذ کھانوں سے ان کی تواضع کرتی۔ میرا تو دستور ہی یہ بن گیا تھا کہ دوپہر کو زبیر رضوی اور میں کچھ دیر ادبی کتابوں اور رسالوں اور خاص طور پر ادیبوں کی اچھی بری عادتوں پہ بات کرتے ہوئے کبھی ہنستے تو شمیم ہم دونوں کو ڈانٹتا کہ کیا بے ہودہ باتیں کررہے ہو۔ اب گننے لگی ہوں تو میرے دوستوں میں سے پہلا دھچکا محمود ہاشمی نے دیا۔ اس کے بعد بہت بیمار رہ کر بلراج گیا، پھر اچانک پریس کلب میںبیٹھے زبیر رضوی۔ پچھلے دنوں کورونا نے نوجوان رضا حیدر، غالب اکیڈمی کے سیکرٹری کو دبوچ لیا اور 6مئی کو شمیم حنفی اسپتالوں کے بے پناہ رش کا شکار ہوگیا۔ رنجیت اور غزل، دونوں اِدھر سے اُدھر بھاگتے رہے۔ آخر مجھے بھی اُسے مرحوم کہنا پڑ رہا ہے۔ آج کے قبرستان کا وہ بھی مکین ہوگیا۔

گزشتہ دنوں وہ گھر بدل رہے تھے کہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ آپ تین منزل اوپر چڑھ کر مت جایا کیجئے۔ گھر بدلتے ہوئے، پرانے کاغذات میں بہت سے انتظار صاحب اور میرے خط مجھے ملے۔ ماہِ نو کے زمانے میں نیر مسعود سے لیکر سربندر پرکاش اور جیلانی بانو تک کی تخلیقات، ڈاکٹر نارنگ اور ڈاکٹر شمیم حنفی کے ذریعہ اور وہ بھی لندن میں ساقی فاروقی سے ہوتے ہوئے مجھ تک پہنچتے تھے کہ زمانہ تھا مارشل لا کا، انڈیا پاکستان پھر روٹھے ہوئے تھے۔ فہمیدہ بھی دلی میں تھی۔ اس کی تو کتاب بھی وہاں سے منگوا کر شائع کروائی تھی۔ ویسے اس زمانے میں پاکستانی سفارت خانے میں پڑھے لکھے لوگ ہوتے تھے۔ میں فون کرکے سفارت خانے میں کہتی کہ سارے ادیبوں کو ماہِ نو بھجوا دیا کریں۔ انڈیا سے ہر آنے والا ادیب، محبت سے ملنے آتا۔ عینی آپا ہوں کہ نارنگ صاحب کہ شمیم یا خالد جاوید، میری نشست میں کبھی اقبال بانو تو کبھی روبینہ قریشی اور ایک دفعہ تو میڈم نورجہاں نے سب ادیبوں سے گفتگو کی اور کھانا کھایا۔ کراچی آرٹس کونسل کی جانب سے ٹی وی انٹرویوز بھی ان مہمانوں کے ہوتے، عذرا عباس مولی کے پراٹھے بنواتی اور ایک شخص جو شمیم سے بھی پہلے چلا گیا۔ آصف فرخی تو سائے کی طرح انتظار حسین اور شمیم کے ساتھ ہوتا تھا۔ دو دفعہ میرا شعری انتخاب کیا، ایک دفعہ تو مکتبۂ جامعہ ملیہ نے شائع کیا اور ایک ہندی میں ترجمہ صبا نے کیا وہ راج کمل والوں نے شائع کیا۔

پاکستان میں شمیم حنفی اور ڈاکٹر نارنگ کی کتابیں، سنگِ میل شائع کرتا رہا ہے، نیاز صاحب زندہ تھے تو ضیافتوں کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ ان مشکل حالات میں بھی، سنجیدہ ادیب لاہور اور سنگِ میل میں اپنی کتابیں شائع کرواتے۔ اچھے زمانوں میں آل انڈیا ریڈیو پر ہم سب مہمانوں کے ٹی وی اور ریڈیو پر مکالمے اور انٹرویوز بھی ہوتے تھے۔ شمیم پورے انڈیا کی یونیورسٹیوں میں ڈاکٹریٹ کے وائی وا کے لئے جاتے تھے۔ اس طرح ٹرین کا سفر انہیں بہت پسند تھا۔ میرا چھوٹا بیٹا میٹرک کرکے ضد کرکے اکیلا دلی گیا۔ شمیم اور زبیر گاڑی سے لیکر گھر آئے اور اس کے بعد اصل میزبان دیوندر ستھیار جی تھے کہ دوپہر میں اپنے پاس بلا لیتے اور ساتھ لے کر شہر دکھاتے۔ شمیم نے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں لیکچر دیئے مگر انکساری ایسی کہ کبھی کسی کے سامنے شیخی نہیں بگھاری۔ انتظار صاحب کے جانے کے بعد آصف فرخی کے جانے پر بہت افسردہ تھے۔ دوسرے جہان میں یہ سب اکٹھے اور ہم کورونا کورونا کی دہشت میں فون تک نہیں سننا چاہتے۔

تازہ ترین