• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی حقوق اور اقلیتوں کے مسائل کے حوالے سے پاکستان ایک طویل عرصے سے تسلسل کے ساتھ اعترضات و خدشات کی زد میں ہے۔ اس کی حالیہ مثال چند دن قبل یورپی یونین کی ایک قرارداد کہ پاکستان جب تک توہین مذہب کے قوانین پر نظرثانی نہیں کرتا اس وقت تک اسے یورپی ممالک میں اپنی برآمدات کے لیے حاصل ’جی ایس پی پلس‘ کا ترجیحی درجہ ختم کردیا جائے۔یورپی یونین کے پارلیمان میں پاکستان کے زیربحث آنے کا پس منظرگزشتہ دنوں کالعدم تحریک لبیک کی جانب سے ہونے والے ملک گیر مظاہرے تھے جن میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔قرارداد میں فرانس کے خلاف ہونیوالے مظاہروں کی مذمت بھی کی گئی۔بدقسمتی سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا تصور ایک ایسے ملک کا بن رہاہے کہ جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہوں، اقلیتوں کے لیے زمین تنگ کردی گئی ہو ۔ اگر کچھ غور کیا جائے تو واضح طورپہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ تنقید کے ہر پیرائے میں کہیں نہ کہیں مذہب کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ پاکستان میں سماجی سطح پر جس قسم کی ناہمواری پائی جاتی ہے اس کا سبب بھی یہ گردانا جاتا ہے کہ جیسے مذہب اس کی وجہ ہے۔ گویا مجموعی طورپہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہو، اقلیتوں کے مسائل کی بات ہو یا شدت پسندی کا ذکر آئے، ہر سطح پر مذہب اور مذہبی تعلیمات کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے،اور یہ بحث ملک کی مذہبی شناخت کی جانب موڑ دی جاتی ہے۔اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں ایک خاص حلقے نے مذہب کے نام پر تشدد کو درست کہا، ملک ایک عرصے تک دہشت گردی کی آگ میں جھلستا رہا ہے اور یہاں عام لوگ اس سے شدید متاثر ہوئے۔تاہم یہ کہنا درست نہیں کہ اس سب کا ذمہ دار مجموعی طور پہ مذہب ہے یا ملک کا مذہبی تشخص ہے۔ملک کے معتدل مذہبی حلقے نے ہمیشہ ریاست کا ساتھ دیا، متشدد تحریکوں اور جماعتوں سے دستبرداری کا اظہار کیا۔اگر مذہبی طبقے کے اندر سے بڑی طاقت ریاست کے شانہ بشانہ نہ کھڑی ہوتی تو متشدد تحریکوں وجماعتوں کو بے اثر نہ کیا جاسکتا۔کالعدم تحریک لبیک کے معاملے میں مظاہرے ہوئے اور صورتحال مزید ابتری کی جانب جاتی نظر آئی لیکن مذہبی حلقے کے اندر کی ثالثی سے معاملات پر قابو پالیا گیا۔اب تصویر کے ایک دوسرے رخ پر نظر ڈالی جانی چاہئے۔ پاکستان انسانی حقوق اور اقلیتوں کے مسائل کے حل کیلئے تسلسل کے ساتھ کوششیں بروئے کار لا رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان اقدامات کو بین الاقوامی سطح پر سراہا نہیں جاتا۔ حتیٰ کہ پروپیگنڈہ اس حد تک کیا جاتا ہے کہ حقیقی اعدادوشمار کا جائزہ بھی نہیں لیا جاتا ۔ صرف پاکستان میں ہونے والے بعض ناخوشگوار واقعات کواتنا اچھالا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے یوں لگتا ہے جیسے پاکستان میں محض ظلم اور ناانصافیاں روا رکھی جاتی ہیں اور اقلیتوں کو زندہ رہنے کی کوئی آزادی میسر نہیں ہے۔ اگر پاکستان کا بھارت کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حوالے سے بدرجہا بہتر ہے۔ کشمیر میں لاکھوں کی آبادی کئی مہینوں سے سخت فوجی محاصرے میں قید ہے۔ حتی کہ شہریت بل کی اساس پر ہزاروں لوگوں سے ان کی شہریت چھیننے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسکے باوجود دنیا کی مارکیٹ میں اس پر دروازے بند نہیں ہوتے۔ امریکاکا سرکاری ادارہ ’یونائیٹڈ اسٹیٹ کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجلس فریڈم‘ (USIRF) مسلسل دو سال سے بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کر رہا ہے کہ بھارت اس معاملے میں پیچھے کی طرف جا رہا ہے،اور اس بنیاد پر وہ اپنی رپورٹس میں اسے بلیک لسٹ کرنے کا عندیہ بھی دے چکا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق اور اقلیتی برادریوں کی سہولت کیلئے کئی اچھے اور معیاری اقدامات کرچکا ہے مگر انہیں سرکاری سطح پر دنیا کے سامنے بہتر انداز میں سامنے نہیں لاسکا۔ پچھلے چند سال کے دوران پاکستان نے متعدد ایسے اقدامات کئے ہیں جو قابل تعریف ہیں اور جن کا دنیا نے اعتراف بھی کیا ۔ پاکستان انسانی حقوق اور اقلیتوں کی صورتحال کے حوالے سے دیگر ممالک کی رپورٹس پر اعتماد کرتا ہے جبکہ اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان سالانہ اپنی رپورٹ جاری کرےپاکستان میں اقلیتوں کی حالت کیسی ہے، یہ بیان کرنے کے لیے یہاں کے اقلیتی وفود کی رائے لی جانی چاہئے۔ انہیں آگے لایا جائے اور ان کی بات کو آگے بڑھایا جائے۔ اس سے پاکستان کا امیج بہتر ہوگا۔میری رائے میں وزارت خارجہ یا پرائم منسٹر آفس میں ان امور کیلئے ایک خصوصی شعبہ تشکیل دیا جائے جس کے تحت اقلیتی کمیشن،اسلامی نظریاتی کونسل،وزارت مذہبی امور اور وزارت انسانی حقوق مل کر ایک کمیٹی تشکیل دیں جو ایک مربوط پالیسی رپورٹ مرتب کرے اور یورپی یونین سمیت دنیا بھر میں اسے پیش کرے۔اس مقصد کے لیے’ کنگ عبداللہ انٹرنیشنل سینٹر برائے بین المذاہب وبین الثقافتی مکالمہ‘ آسٹریا، او آئی سی ،ملائیشیا اور ترکی میں ہونے والے کام کا جائزہ لیا جائے اور اس کی روشنی میں آگے بڑھا جائےنیز دنیا بھر میں تمام سفارتکار بین المذاہب تقریبات میں شرکت کرتے ہیں جبکہ پاکستانی سفارتخانوں میں حاضری سب سے کم ہوتی ہے۔ پاکستان نے اپنی سطح پر بہت مؤثر اور نمایاں اقدامات کیے ہیں مگر اس کے باوجود اس کے خلاف ہونے والا پروپیگنڈہ زیادہ کامیاب ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کریں اور دنیا کو بتائیں کہ اعدادوشمار اور حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو پاکستان خطے کے بہت سارے ممالک سے آگے ہے۔

تازہ ترین