اسلام آباد (انصار عباسی) راولپنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ انکوائری میں کچھ عجیب سی بات سامنے آئی ہے جس میں پنجاب حکومت نے جو تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کے سربراہ راولپنڈی کے موجودہ کمشنر ہیں، اس کے سربراہ نے اپنے طور پر ہی تحقیقات سے دو دیگر ممبران کو علیحدہ رکھنے کا فیصلہ کیا اور آخر میں اپنی اقلیتی رپورٹ وزیراعلیٰ کے پاس جمع کرا دی اور ساتھ ہی سمری بھی منسلک کی ’’سمری فار چیف منسٹر‘‘، حالانکہ رولز آف بزنس کے تحت وہ یہ سمری پیش نہیں کر سکتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس انداز سے سمری پیش کیے جانے پر چیف سیکریٹری نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ انہوں نے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا کہ تین رکنی کمیٹی کس طرح یک رکنی کمیٹی بن گئی
انہوں نے کمشنر کی غیر معمولی سمری پر متعلقہ محکموں سے رابطہ کیا جن میں ریونیو، پی اینڈ ڈی، قانون، داخلہ، ایس اینڈ جی اے ڈی اور ہائوسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ، رنگ روڈ کا انتظامی ڈپارٹمنٹ شامل ہیں؛ تاکہ وزیراعلیٰ کے سامنے معاملہ پیش کیے جانے سے قبل ان اداروں کی رائے معلوم کی جا سکے۔ بین المحکمہ جاتی رابطوں کی عدم موجودگی میں، کمشنر نے اپنی تحقیقات کے آزاد جائزے سے گریز کیا۔
سمری کی نقل دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سی ایس کے دفتر سے ہوتی سی ایم تک پہنچی اور عثمان بزدار نے اسے منظور کیا اور ساتھ ہی غیر معمولی معاملات کے حوالے سے کوئی وضاحت بھی طلب نہیں کی۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف انتظامی سیکریٹری ہی وزیراعلیٰ کو سمری پیش کر سکتے ہیں جبکہ ضرورت پر کمشنر جیسے فیلڈ افسران چیف منسٹر کیلئے نوٹ بھیج سکتے ہیں۔
دی نیوز نے کمشنر کی سمری کے حوالے سے متعلقہ سرکاری عہدیداروں سے رابطہ کیا تو اس نمائندے کو بتایا گیا کہ ’’ہمارے ساتھ شیرلاک ہومز بننے کی کوشش مت کرو‘‘ (یعنی جاسوس بننے کی ضرورت نہیں)۔ افسر نے اس نمائندے کو بتایا کہ کمشنر کی انکوائری رپورٹ پڑھ لیں جس میں قیاس آرائیوں اور الزامات پر مبنی نتائج اخذ کیے گئے ہیں اور شاید، ممکنہ طور پر اور مبینہ طور پر جیسے الفاظ کی بھرمار ہے جبکہ کئی لوگوں پر سنگین الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ جن لوگوں پر الزامات عائد کیے گئے ہیں؛ کمشنر نے ان کا موقف بھی معلوم نہیں کیا۔
آر آر آر پروجیکٹ کے حوالے سے پنجاب حکومت نے 27؍ اپریل کو فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں راولپنڈی کے موجودہ کمشنر، اس وقت کے ایڈیشنل کمشنر (کو آرڈینیشن) راولپنڈٰ اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی شامل تھے۔ چیف منسٹر کو 11 مئی کو بھیجی گئی سمری میں کمشنر گلزار شاہ نے کہا ہے کہ رپورٹ میں دو دیگر ارکان کی رائے اسلئے پیش نہیں کی گئی کیونکہ اس میں مفادات کا تضاد پایا جاتا ہے لہٰذا تجویز ہے کہ دیگر دو ارکان کی رپورٹ پر دھیان نہ دیا جائے۔
سمری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود کے مس کنڈکٹ کے حوالے سے ضروری اور کافی شواہد موجود ہیں، سفارش کی جاتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو رپورٹ بھیج کر محمود کو معطل کرایا جائے۔
سمری میں وزیراعلیٰ سے درخواست کی گئی ہے کہ یہ رپورٹ دیگر دو ارکان کی رائے کے بغیر قبول کی جائے اور اسے منظور کیا جائے۔ چیف سیکریٹری نے یہ سمری ملتے ہی کوئی اعتراض نہیں اٹھایا اور نوٹ لگایا کہ انکوائری رپورٹ کے مندرجات اور ضروری منسلک دستاویزات کو دیکھ کر مختلف محکموں اور ایجنسیوں کی کارروائی کی ضرورت ہے۔ لہٰذا وزیراعلیٰ یہ رپورٹ منظور کریں تاکہ دیگر متعلقہ محکمے ضروری کارروائی کر سکیں۔
جس کے بعد وزیراعلیٰ نے سمری منظور کر لی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کمیٹی کے دیگر دو ارکان، جن کی رائے کو کمشنر پنڈی نے اپنی رپورٹ کے ساتھ شامل نہیں کیا تھا، نے اپنی اپنی متعلقہ رپورٹ جمع کرائی تھی تاہم ان کے مندرجات کمشنر کی رپورٹ سے متضاد تھے۔
دی نیوز پہلے ہی ان دونوں کی رپورٹ کے کچھ حصے شائع کر چکا ہے۔ دو دیگر ارکان کی رپورٹ کے برعکس، کمشنر کی اقلیتی رپورٹ، جسے وزیراعلیٰ نے منظور کیا ہے، مین لکھا ہے کہ نیسپاک کی (پہلی) الائنمنٹ اس کے کلائنٹ آر ڈی اے (راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کو 2017 میں جمع کرائی گئی تھی اور دسمبر 2017 میں الائنمنٹ کی حتمی دستاویز جمع کرائی گئی تھی اور فروری 2018 میں اے آئی آئی بی کے دورے کے موقع پر پیش کی گئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2017 کی رپورٹ میں ایک بات طے کی گئی جس کی بنیاد پر سی اینڈ ڈبلیو ڈپارٹمنٹ کی سمری مارچ 2018 میں وزیراعلیٰ کو بھیجی گئی تھی جسے انہوں نے منظور کیا تھا۔
اس کے بعد رپورٹ میں اسی (پہلی) الائنمنٹ کا حوالہ دیا گیا ہے کہ یہ مجوزہ الائنمنٹ ہے جس پر میسرز زیرک کی خدمات آر ڈی اے نے حاصل کی تھیں تاکہ فزیبلٹی اسٹڈی تیار کی جائے اور مفصل ڈیزائن بنوایا جائے تاکہ آر آر آر تعمیر ہو سکے۔ چونکہ الائنمنٹ کی منظوری وزیراعلی دے چکے تھے اسلئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوسری کسی الائنمنٹ کی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اس منظوری کو حکومت کی جانب سے منظور کردہ ہی سمجھا جائے۔
اس کے بعد رپورٹ میں دوسری الائنمنٹ کا ذکر ہے جس میں اٹک لوُپ اور پسوال زگ زیگ شامل ہے اور کہا گیا ہے کہ میسرز زیرک نے 19 نومبر 2019 کو ہونے والے پہلی اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس کے منٹس کا حوالہ دیتے ہوئے الائنمنٹ کا دفاع کیا ہے اور جس میں موت ایم ٹو تک الائنمنٹ کو حتمی شکل دینے کا ذکر ہے اور ساتھ ہی یہ حوالہ بھی پیش کیا گیا کہ چیف انجینئر آر ڈی اے نے ہفتہ وار پروگریس رپورٹ کا فیصلہ کیا ہے جس میں ایم ٹو سے سنگجیانی کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ویری ایشن آرڈر برائے اسکوپ تبدیلی کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوسری الائنمنٹ غیر مجاز ہے، سی ایم کو غیر قانونی الائمنٹ کے سامنے آنے کی بات بتانا تھی جس میں اٹک لوپ اور پسوال زگ زیگ کو شامل کیا گیا تھا، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
پنجاب حکومت کے قانونی فریم ورک کو دیکھتے ہوئے غیر مجاز اور غیر قانونی الائمنٹ پر کام روک دینا چاہئے تھا۔ دھوکہ دہی کی بجائے سابق کمشنر کو چاہئے تھا کہ وہ یہ معاملہ پیش کرتے اور غیر قانونی الائمنٹ کی بات سامنے لاتے۔ رپورٹ میں پی پی پی کے ایک رکن کیخلاف انکوائری کی بھی تجویز دی گئی ہے اور الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے سرکاری منٹس میں ’’منظوری‘‘ کے حوالے سے غلط تاثر دینے کی کوشش کی، ان کی بد دیانتی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ رپورٹ میں سابق کمشنر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جوابدہی طلب کرنے پر وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ انہوں نے اچھی نیت کے ساتھ کام کیا تھا تاوقیتکہ ایسی منظوری قابل قبول انداز سے دی گئی ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشتہر کردہ الائمنٹ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ اسے سی ایم کی منظوری بھی حاصل نہیں۔ پی ڈی ڈبلیو پی میٹنگ کے منٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کمشنر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الائنمنٹ کا معاملہ وزیراعلیٰ کی منظوری کے بعد طے ہو چکا۔ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ سابق کمشنر نے دھوکہ دہی سے پی سی ون منظور کرائی۔
رپورٹ کے مطابق، سابق کمشنر نے مبینہ طور پر آر تھری الائمنٹ کے ساتھ زمین حاصل کرنا شروع کر دی تاکہ قیمتوں کو برقرار رکھا جا سکے اور ساتھ ہی نجی ہائوسنگ سوسائٹیز کے پلاٹس کی رجسٹریشن اور فائلوں کا ریٹ بھی برابر رکھا جا سکے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پروجیکٹ ڈائریکٹر دیگر سرکاری اداروں کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتے لیکن سابق کمشنر نے یہ کام کیا اور غیر قانونی طور پر کرایہ کی متلاشی سنڈیکیٹ کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی۔ رپورٹ کے مطابق، الائمنٹ کی منظوری کے بعد ہی زمین حاصل کرنے کا عمل شروع کیا جاتا ہے لیکن سابق کمشنر ایک قدم آگے بڑھ گئے اور انہوں نے زمین کیلئے ادائیگیاں کرنا شروع کر دیں۔
اس کے بعد رپورٹ میں ایسے افراد اور کاروباری اداروں پر الزامات عائد کیے گئے ہیں جن کیلئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے ملی بھگت سے زمین کے کرایے کی وصولی کیلئے گٹھ جوڑ کیا اور سب نے غیر قانونی الائمنٹ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور غیر قانونی طور پر زمین حاصل کرکے ادائیگیاں وصولی کی کوشش کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ لوگ سابق کمشنر کے بے نامی دار ہیں۔ جان بوجھ کر ممکنہ طور پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے والے نیسپاک اور میسرز زیرک کے متعلقہ افسران بتائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں دیگر ہائوسنگ سوسائٹیز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر ان ہائوسنگ سوسائٹیز میں بے نامی مفادات کا امکان زیادہ ہے اور انہوں نے غیر قانونی الائنمنٹ کیلئے حمایت کی ہوگی اور ممکن ہے کہ سابق کمشنر کے پیچھے یہی ہوں۔
تاہم، ہائوسنگ سوسائٹیز نے انکار کیا ہے کہ انہوں نے سابق کمشنر یا کسی دوسرے عہدیدار یا کمپنی کے ساتھ کوئی ملی بھگت کی ہے اور کہا ہے کہ آر آر آر کے قیام کا مقصد ٹریفک کے بہائو میں مدد دینا ہے اور راولپنڈی سٹی پر دبائو کم کرنا ہے۔
سوسائٹیز نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کر رہیں۔ توقیر شاہ کے حوالے سے رپورٹ میں قیاس آرائی کی گئی ہے کہ ماضی میں بے نامی مفادات کے قیام کے حوالے سے ان کے سابق کمشنر کے ساتھ تعلقات رہے ہیں اور نیسپاک پر مبینہ طور پر اثر رسوخ استعمال کیا گیا ہے۔ شاہ نے مبینہ طور پر کرایہ وصولی کی خواہش رکھی اور مفادات کا تضاد پیدا کیا جسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک با اثر سرکاری عہدیدار نے ممکنہ طور پر توقیر شاہ کیلئے سابق کمشنر اور ساتھ ہی نیسپاک پر اثر رسوخ استعمال کیا۔ دی نیوز نے پنجاب حکومت کے متعلقہ عہدیداروں کو اس معاملے پر سوالات بھیجے لیکن ان کا کوئی جواب نہیں ملا۔