وطن عزیز کے سیاسی ماحول میں دن بدن تیزی اور تلخی کے بڑھتے ہوئے مناظر دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالہ سے اپنے اپنے پتے کھیلنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ سیاسی اور معاشی محاذوں پر بدانتظامی اور نااہلی کے ہاتھوں پے درپے ناکامیوں کے بعد حکومتی ایوانوں میں بدحواسی اور بے چارگی محسوس کی جا رہی ہے بعض حلقوں نے تو یہاں تک نشاندہی کر دی ہے کہ داخلی سطح پر حکومت اور ’’مقتدر قوتوں‘‘ کے درمیان خلیج بھی وسیع ہوتی جا رہی ہے ۔کابینہ میں شامل بیشتر وزراء مسلسل بداعتمادی کے بخاری میں مبتلا نظر آ رہے ہیں ۔
’’کپتان‘‘ کی توصیف میں قصیدے پیش کرنے و الے بھی نہ صرف نالاں دکھائی دے رہے ہیں بلکہ ان کے بلند بانگ دعوئوں اور قوم سے کئے گئے وعدوں کا واشگاف طور پر تمسخر اڑانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں کئی ’’سازشی تھیوریاں‘‘ اور کئی نئے کرداروں کے حوالے سے کہانیاں گردش کر رہی ہیں ۔قومی حکومت کی سرگوشیوں نےتو حکومتی ایوانوں میں کھلبلی مچا رکھی ہے ۔نئے وزیر خزانہ شوکت ترین کی طرف سے پیش کئے جانے والے خدشات اور تحفظات نے بھی آنے والے بجٹ کے حوالہ سے ایک نئے طوفان کے پیش خیمہ کی علامتوں کو واضح کر دیا ہے ۔مہنگائی، بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی صورتحال نے عوام کی زندگی کو کئی نئی آزمائشوں میں مبتلا کر رکھا ہے ۔معاشی زبوں حالی سے تو حکومت کی بنیادوں میں بھی زلزلوں کے جھٹکے محسوس کئے جا رہے ہیں۔
وزارت خزانہ میں بار بار وزیروں کے بدلنے سے ایسے ایسے تجربات کئے گئے کہ عوام کے لئے مہنگائی کو برداشت کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا اور ایک دفعہ تو ایک ’’نابالغ وزیر‘‘ کے ذریعے چند روز کے لئے ’’جعلی اعدادوشمار‘‘ کے سہارے معیشت کی مضبوطی کی بھی نوید سنائی گئی۔یار لوگوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ وزیر نے ایک دوسرے نابالغ وفاقی وزیر سے زیادہ نمبر بڑھانے کے لئے خوشآمد کے ذریعے ’’کپتان‘‘ کو شیشہ میں اتارنے کی کوشش کی تھی جو بعدازاں تجربہ کار بین الاقوامی معاشی ماہرین کے انکشاف کے بعد وزارت سے ہٹانے کی صورت میں سامنے آئی تھی۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کابینہ کے بیشتر وزراء اپنی غلطیوں کو تجربہ کا نام دینے کی تاریخ مرتب کر رہے ہیں سب سے بڑا المیہ ہے کہ ’’ریاست مدینہ ‘‘ کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے عیدالفطر کے چاند کو بھی ’’متنازعہ‘‘ بنا دیا۔معرکہ مذہب وسائنس کو دہراتے ہوئے اپنی حکومت کا علماء اور عوام کے ہاتھوں ’’تماشا‘‘ بنا دیا ۔سفارتی سطح پر یہ محسوس کیا گیا کہ اپنے ہی سفارتکاروں پر تنقید کے دروازے کھول کر پہلے اپنی ہرزہ سرائی کی اور پھر ’’یوٹرن‘‘ لیتے ہوئے جگ ہنسائی کا موقع فراہم کیا۔
سعودی عرب کے ’’ریموٹ کنٹرول‘‘ دورے کے بعد تو یہ بات واضح ہو گئی کہ کپتان سمیت وزیر خارجہ دونوں سفارتی محاذ پر نہ صرف بے اختیار ہیں بلکہ مجبوروں پر ’’مختاری‘‘ کی تہمت لگانے والا معاملہ ہے ۔وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں یہ بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ میاں شہباز شریف کو عدالت عالیہ کے احکامات کے باوجود حکومت کی طرف سے ایئرپورٹ پر لندن جانے سے روکنے کے بلاجواز اقدامات سے نہ صرف توہین عدالت کا ارتکاب کیا گیا ہے بلکہ اس سے حالات کے مزید بگڑنے کا بھی اندیشہ ہے۔
سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ رہائی کے بعد میاں شہباز شریف کے متحرک ہونے اور پارٹی کو فعال کرنے کے علاوہ سیاسی رابطوں کے بڑھتے ہوئے معاملات کو دیکھ کر کپتان اور ان کی ٹیم نہ صرف گھبراہٹ کا شکار ہو گئی ہے بلکہ بدحواسی کی کیفیت میں انہیں ’’مقتدر قوتوں‘‘ کی نظر میں اپنا حقیقی ’’متبادل‘‘ کے طور پر محسوس کر رہی ہے۔
حالانکہ سب کو اچھی طرح علم ہے کہ وہ ہر سیاسی مرحلے میں داخل ہونے سے قبل اپنے بڑے بھائی اور قائد میاں نوازشریف سے رہنمائی لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اپنے بھائی میاں نواز شریف سے ان کی والہانہ عقیدت کا یہ عالم ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ کو کئی بار ٹھکرا چکے ہیں قیدوبند کےمشکل ترین ایام میں بھی انہوں نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اور ان کا بیٹا حمزہ شہباز شریف اپنے قائد میاں نواز شریف کی خاطر ہر آزمائش کو قبول کرنے کےلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت میں رمضان المبارک کے دوران بھی حکومت کی طرف سے ’’رمضان بازاروں‘‘ کو لگانے کے باوجود عوام آٹے اور چینی کی خاطر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے پر مجبور دکھائی دیئے ۔سیاسی محاذ پر یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ رہائی کے بعد میاں شہباز شریف سیاست کے میدان میں ہر طرف دکھائی دے رہے ہیں کبھی وہ پی ڈی ایم کی جماعتوں سے رابطوں کی بحالی کےلئے ہمہ وقت کوشاں نظر آ رہے ہیں پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں سے مسلسل رابطوں میں رہتے ہیں۔
مفاہمت کا مزاج رکھنے والے میاں شہباز شریف پارٹی میں مزاحمت کا کردار ادا کرنے والوں کے ساتھ بھی کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور اپنی سیاسی اور سفارتی محاذ پر سرگرمیوں سے حکومت کے کارپروار ان کو بھی ’’ٹف ٹائم‘‘ دینے میں اپنے جوہر دکھا رہے ہیں ۔اسیری کے بعد رہائی کے مرحلے کو طے کرکے مختصر وقت کے دوران میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ثابت کیا ہے کہ سیاست میں ’’بیانیہ‘‘ اور کارکردگی کی اہمیت ایک جیسی ہوتی ہے ۔
عوام ’’بیانیہ‘‘ پر ووٹ دیتے ہیں اور کارکردگی آپ کے ’’بیانیے‘‘ کو زندہ رکھتی ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل ناراض قیادت سے بھی میاں شہباز شریف رابطے بحال کر رہے ہیں اور اپوزیشن کو ایک بار پھر جاندار انداز میں متحرک کرنے کے لئے اہم کردار ادا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت ان کی سیاسی منصوبہ بندی کی راہ میں نہ صرف رکاوٹیں ڈال رہی ہے بلکہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔
دوسری طرف حکومت نے عدالت عالیہ کی طرف سے میاں شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت کے احکامات پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اب دیکھتے ہیں کہ قانونی محاذ پر کیا نتیجہ آتا ہے؟