• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اُسے جانا ہی تھا…ایسٹ انڈیا کمپنی کا وہ ایکٹ جو28 ستمبر 1931ء کے دن ، عبوری ٹیکس نظام کیلئے مقبوضہ برصغیر میں لاگو کیا گیا تھا سپریم کورٹ نے آخر کار اُسے اُڑا دیا۔ طویل وقفے کے بعد میں بھی اُس دن بنچ نمبر ایک میں موجود تھا جس میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اعجاز احمد چوہدری اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اقبال حمید الرحمن شامل تھے۔ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کا یہ تاریخ ساز فیصلہ اپنے پیچھے سوالیہ نشانوں کی ایک لمبی قطار چھوڑ گیا ہے۔ پہلا سوال یہ کہ وہ سارے ٹیکس جو بغیر کسی آئینی اتھارٹی اور قانونی جواز کے65سالوں تک ملک کی طاقتور بیوروکریسی اور اُس کی کمزور سیاسی کٹھ پتلیاں عوام کی جیب سے نکالتی رہیں وہ ٹیکس کون کون واپس کرے گا…؟ دوسرا سوال یہ کہ ایک آزاد ایٹمی ملک کے شہریوں کو افرنگی راج کے80 سالہ پرانے قانون کا غلام بنائے رکھنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی…؟ اور تیسرا سوال یہ کہ وہ سارے SROs (ایس آر اوز) جن کی مہربانی سے تھڑیئے قارون بن گئے اُن کے ذریعے کمایا گیا کھربوں سے بھی زیادہ کھایا پیا مال کون برآمد کرے گا…؟
جس ایوان سے فنانس بل پاس ہوتا ہے وہاں اگر مخلوق جاگ رہی ہوتی تو جو کام سپریم کورٹ سے ہوا وہ کام” بالا دست“ پارلیمینٹ پہلے کر سکتی تھی۔ عدالتِ عظمیٰ کا شارٹ آرڈر میرے سامنے ہے۔ جس کے پیرا گراف نمبر2 اور 3 میں سپریم کورٹ نے فرنگی راج کی اس یادگار کو1973 ء کے آئین کے آرٹیکل نمبر 77,24,9,3اور آرٹیکل نمبر 70 سے متصادم قرار دے دیا۔ جمہوری حکومت اس فیصلے پر فوری عملدرآمد کرے اور عوامی ٹیکس کو لُوٹ کا مال سمجھنے والوں کی جیبوں پر بھی ہاتھ ڈالے۔ اس ٹیکس کے اثرات پر بہت بات ہو چکی۔ صرف اتنا جان لیجئے کہ غریبوں کا وہ لنڈا بازار جو گرمی اور سردی میں انہیں ننگا ہونے سے بچاتا تھا وہاں ڈیڑھ سو فیصد تک مہنگائی نے ڈیرہ ڈال دیا ہے۔
کیا خوب یہ طرز حکومت ہے
سب آقا، بندہ کوئی نہیں
جو لُٹتا ہے،اب اس کا
تائید کنندہ کوئی نہیں
سپریم کورٹ کے21 جون کے فیصلے میں حکمران سیاست دانوں کے نام پیرا نمبر6 میں یہ پیغام بھی موجود ہے کہ ٹیکس صرف پارلیمینٹ لگاتی ہے۔ اقتدار کے جھمیلوں اور اختیار کے میلوں میں گم شدگان کے لئے توجہ دلاؤ نوٹس پر پارلیمینٹ کو عدالت عظمیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔
شکریئے کے ساتھ ایسے اور بھی فیصلے ہیں جن پر عملدرآمد ہونا ابھی باقی ہے۔ ایگزیکٹو کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کے بارے میں جنگ اور نیوز کے ایک رپورٹر نے بھی سب کی توجہ ڈنمارک میں پاکستان کی سفیر کو عہدے کی مدت میں دی گئی غیر قانونی توسیع کی طرف بھی مبذول کرائی ہے۔ اس بخت آور خاتون سفارت کار پر پچھلی حکومت بھی اتنی ہی مہربان تھی جتنی حالیہ حکومت ہے ۔ وزیرِ اعظم آفس نے پچھلے پانچ سالوں میں ہونے والی بھرتیوں کا ریکارڈ اور ڈیٹا مانگ کر اچھا کیا۔ کاش ملک کے سب سے بااختیار دفتر میں کوئی ایک شخص ایسا بھی موجود ہو جو وزیرِ اعظم کو یاد دلائے کہ نو سالہ ڈکٹیٹر شپ میں آئین کے قتل کے بعد ہونے والی بھرتیوں کا ریکارڈ کب منگوایا جائے…؟ ملازمتوں میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کے کھلے فیصلے سے دلیرانہ چشم پوشی ایک طرف ۔ دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ بھی عملدرآمد کے انتظار میں سوکھ رہا ہے جس کے ذریعے طاقتور اشرافیہ کو پنجاب کے پانچ سوکھتے دریاؤں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر پہلے ہی تاریخی تاخیر کا شکار ہو چکی ہے۔ اس عرصے میں مسلسل جنگوں کے گہر ے زخموں سے چور چور افغانستان نے دریائے کابل کا پانی بھی روکنے کا بندوبست کر لیا ہے۔ اہلِ خبر جانتے ہیں کہ ڈیموں کے اس سلسلے میں بھارت کے انجینئر شامل ہیں ۔ اِن کو پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی روکنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ ہم اُن سے بجلی منگوانا چاہتے ہیں اپنی دھرتی ماں کی پیاس نہیں بجھانا چاہتے۔ لاہور ہائی کورٹ نے دلیرانہ فیصلہ جاری کر کے ایک دیرینہ مسئلے کے حل کی راہ ہموار کر دی ہے۔ جب کہ پنجاب کے عوام نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے دونوں لیڈروں کو مینڈیٹ دے کر یہ بہانہ ختم کر دیا ہے کہ کالا باغ ڈیم پر اتفاقِ رائے کا انتظار ہے بلکہ مزید انتظار ہے۔ الیکشن مہم کے دوران پنجاب سے کامیاب ہونے والے سارے فریقوں نے بہنوں کے بجھے ہوئے چولہے جلانے اور بھائیوں کے رُکے ہوئے ہل بیل پھر چلانے کا جو اعلان کیا تھا اُس پر 2013ء میں ہی عملدرآمد ہونا چاہئے ورنہ لوگ پانی کے لئے ترسیں گے اور لیڈر ووٹوں کے لئے تڑپیں گے۔ انتخابات کے موسم میں عملی پروگرام سے زیادہ سبز باغ دکھائے جاتے ہیں مثلاً ہم ڈرون گرائیں گے… ہم کشکول توڑیں گے…ہم پاکستان کو پیرس بنائیں گے…ہم تھانیداری کلچر ختم کریں گے…ہم اخراجات کم کریں گے…ہم لوڈشیڈنگ کو فوراً بھگا دیں گے…ہم نوجوانوں کو نوکریاں اور روزگار دیں گے…ہم غیرت مند خارجہ پالیسی بنائیں گے…ہم آئی ایم ایف سے بھیک نہیں مانگیں گے… ہم آزاد عدلیہ کو مالی خود مختاری دیں گے…الیکشن کے بعد کا موڈ قوم خوب جانتی ہے۔ آج کل جس طرح کے فرمان جاری ہوتے ہیں اُس سے غریبوں کے سبز باغ کا تاج محل لرزتا دکھائی دیتا ہے۔
غریب شہر کو فرمانِ خسروی پہنچا
بتانِ حاضر و غائب کی داستاں نہ کہو
قلم کو روک کے رکھو کہ خیر اس میں ہے
گئے دنوں کے روایاتِ خوں چکاں نہ کہو
بیان و وعظ کا تحلیل و تجزیہ ہے فضول
یہ بات ٹھیک ہے لیکن اسے یہاں نہ کہو
یہاں کہنے والی بات یہ بھی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو فیصلے راہ متعین کرنے والے ہیں، پہلا فیصلہ چیف جسٹس محمد انور کاسی نے دیا جس کے ذریعے حقِ شفع کے مقدمات میں یکطرفہ کارروائی کے فیصلے کو اصولِ طلب کی نفی قرار دیا گیا۔ اس فیصلے نے جائیدادوں کے شفع میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور دھاندلی کا راستہ بند کر دیا ہے۔ دوسرا فیصلہ جسٹس شوکت صدیقی نے نان کسٹم گاڑیوں کی بابت جاری کیا جس کے اگلے روز یہ خبر آئی کہ ہزاروں نان کسٹم گاڑیاں باقاعدہ بُک ہو کر پاکستان آ رہی ہیں۔کالا باغ سے منہ موڑ کر سبز باغوں کی فرضی جنت میں جینے والی قوم کا مستقبل کیسا ہو سکتا ہے اس پر امریکہ کے فاتح صدر ابراہم لنکن نے گیٹس برگ کے جلسے میں یہ کہہ رکھا ہے” ہمارے اجداد نے اس براعظم میں ایک نئی قوم کو جنم دیا۔ یہ قوم آزادی کی فضا میں پیدا ہوئی اور اس کا نصب العین یہ تھا کہ تمام انسان بالحاظ، پیدائش برابر ہیں۔ اب ہم ایک خوفناک جنگ میں الجھے ہوئے ہیں اور آزمائش ہو رہی ہے کہ آیا یہ قوم یا ایسے ہی حالات میں جنم لینے والی اور ایسا ہی نصب العین رکھنے والی کوئی قوم زیادہ دیر تک قائم رہ سکتی ہے“۔
اس بارے میں فیصلہ امریکہ نے نہیں کرنا نہ اُسے کوئی مانے گا۔ سبز باغ سے نکلنا ہماری اپنی چوائس ہے۔
تازہ ترین