304قبل مسیح کی بات ہے جب ایک دولت مند اور اسٹوئسزم (Stoicism)کا بانی تاجر زینو، تجارت کی غرض سے بحری سفر کرتاہوا پیریا کے بحیرہ روم کی بندرگاہ پر اترا۔ طوفانی موجوں کی وجہ سے مشہور اس سمندر نے اپنی وجۂ شہرت کے عین مطابق زینو کےجہا ز کو پاش پاش کردیا، لیکن جب کسی نہ کسی طرح وہ ایتھنز پہنچا تو اس نے اپنے مشہور فلسفے اسٹوئسزم کو کھوج لیا تھا۔
آپ جب اسٹوئسزم کے معنی تلاش کریں گے تو اس کا اردو ترجمہ جبریت اور رواقیت نکلتاہے یعنی خود پر جبر کرنا چاہے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، آپ پر غم و اندو ہ کے پہاڑ ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑیں، آپ کے چہرے کے تاثرات اور احساسات سے یہ پتہ نہیں چلنا چاہئےکہ آپ کے اندرکتنی آندھیاں چل رہی ہیں۔ خصوصاً کاروباری افراد کو دیکھیں تو یہ فلسفہ ان پر صادق آتاہے، جو سیاست میں آنے والے اُتار چڑھاؤ کے باجود خود کو منظم رکھتے ہیں۔
آج کے دور میں اس کو فلسفہ کہا جائے یا نہیں لیکن اس فلسفے کے پیروکا ر موجود ہیں اور اس فلسفے پرآج کے امیروکبیر اور طاقتور لوگ عمل پیرا ہیں۔ اگرچہ دولت مند ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صرف مہنگی گاڑیاں چلاتے ہوں یا مہنگے کپڑے پہنتے ہوں۔ سرمایہ کار اور انٹرپرینیورٹِم فیرس نے ایک بار کہا تھا،’’اسٹوئک فلاسفی ایک سادہ اور وسیع پیمانے پر عمل پذیر قواعد کا مجموعہ ہے، جس سے کم کوششوں سے زیادہ منافع ملتا ہے‘‘۔
برک شائر ہیتھ وے کے سی ای او، وارن بفیٹ اپنی کفایت شعاری کی وجہ سے مشہور ہیں۔ وہ اپنا ناشتہ کبھی بھی 3.17ڈالر سے زیادہ کا نہیں کرتے اور ایسے ساد ہ سے گھر میں رہتے ہیں، جو انہوںنے 1958ء میں 31ہزار 500ڈالر میں خریدا تھا اور اس کی مالیت آج 2لاکھ60ہزار ڈالر ہے۔
فرنیچر اور ہوم اپلائنسز بنانے والی بین الاقوامی کمپنی کے بانی انگوار کمپرڈ 2005ء سے 2010ء کے دوران دنیا کے ٹاپ ٹین امیرترین شخصیات کی فہرست میں شامل تھے، اس وقت ان کی ذاتی دولت 28ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی۔ انگوار کمپرڈ 20سال تک 1993ء میں خریدی گئی Volvo 240 GLگاڑی چلاتے رہے۔ یہ گاڑی انہوںنے اپنی بیٹی کے کہنے پر تلف کی کیونکہ اس کا چلانا ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتاتھا۔
فیس بُک کے بانی مارک زوکر برگ ایک سیاہAcura TSX چلاتے ہیں، جس کی مالیت صرف 30ہزار ڈالر کے قریب ہے۔ مارک کا کہنا ہے کہ ان کی گاڑی مہنگی نہیں لیکن آرام دہ اور محفوظ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ دولت کی بہتات ہونے کے باوجود دنیا کے امیر ترین افراد اتنی کفایت شعاری کیوں دکھاتے ہیں؟ اس کا جواب ہے کہ یہ افراد باہر سے دنیا کی چکاچوند دیکھنے کے بجائے یہ دیکھتیں ہیں کہ وہ اندر سے کیسی ہے۔
نامور امریکی باسکٹ بال کھلاڑی لبرون جیمزکی خالص دولت گزشتہ سال تک تقریباً 450ملین ڈالر تھی۔ وہ مہنگی سروسز کو سبسکرائب کرنے کے بجائے مفت کا وائی فائی اور مفت میوزک سنانے والی سروسز استعمال کرتے ہیں۔ این بی اے پلیئر ٹیری برک ہر سال ملین ڈالرز کماتے ہیں لیکن اپنے لیے انہوں نے ماہانہ 5ہزار ڈالر کا خرچ مختص کر رکھاہے۔ وارن بفیٹ کی طرح جو ایک ہی گھر میں60سال سے قیام پذیر ہیں، جیمز اور برک نے بھی اپنے پائوں کبھی چادر سے آگے نہیں پھیلائے۔
دراصل ان امیر افراد کے خیالات واضح ہیں کہ انہیں کس چیز کی کتنی قدر کرنی چاہئے اور یہ اپنی ملکیت کو آزادی سے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً اگر مارک زوکر برگ کی گاڑی کو نقصان پہنچے تو انھیں ذرابھی افسوس نہیں ہوگا بلکہ اسٹوئیسزم کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اگر ان سے ان کی سای دولت بھی چھن جائے تو شاید زینو کی طرح ا ن کے ماتھے پر شکن تک نہیں آئے گی۔
امیزون کے بانی جیف بیزوس نے اپنی کمپنی میں کفایت شعاری کا ایک کلچر بنایا،کیوں ؟ وہ کہتے ہیں، ’’اگرآپ نے سخت بجٹ میں کام کرناہے تو ایک ایک پائی سوچ سمجھ کر خرچ کرنی ہوگی‘‘۔
شارک ٹینک کے کھرب پتی سرمایہ کار مارک کیوبن تو کفایت شعاری کے استاد گردانے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’’ اگر آپ یوٹیلیٹی بلز پر زیادہ اسٹریس لیں گے تو آپ کو اپنے اہداف پرتوجہ مرکوز رکھنا مشکل ترہوتا چلا جائے گا۔ آپ اپنے خرچے جتنے کم کریں گے، اتنے زیادہ آپ کو آپشنز ملتے چلے جائیں گے‘‘۔
یاد رکھیں، جس قدر خواہشات بڑھتی چلی جائیں گی تو ہم ان چیزوں پر، جو واقعی ہمارے لیے اہمیت رکھتی ہیں، اپنی توجہ اور کم کرتے چلے جائیں گے جیسے کہ خوشی، آزادی اور ایک اچھی زندگی۔
وارن بفیٹ اور مارک کیوبن جیسے کھرب پتیوں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ وہ اسی لیے کامیاب ہیں کہ ہر وقت سیکھنے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ منکسر المزاج اور باعلم رہنا، ان کی کامیابی کی کنجی ہے۔