• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بجٹ ہر سال آتا ہے اور اس پر تبصرے ہوتے ہیں۔ اس سال بھی قومی بجٹ 2013-14ء کا اعلان ہوا، میں نے مختلف ٹی وی چینل پر اس پر تبصرہ اور پینل ڈسکشنز میں حصہ لیا اور روایت کے مطابق آج کا کالم بھی قومی بجٹ پر لکھ رہا ہوں۔ اس سال بجٹ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہ نومنتخب حکومت کا پہلا بجٹ ہے جس میں انہوں نے اپنے انتخابی منشور کے اہم نکات کو شامل کرنا تھا لیکن وزیر خزانہ کو حلف اٹھانے کے بعد بجٹ کی سفارشات کو حتمی شکل دینے کیلئے بمشکل 2 سے 3 دن ہی ملے۔ دراصل حالیہ بجٹ بیورو کریسی اور ایف بی آر کا تیار کردہ ہے جس میں ایف بی آر کے زیادہ سے زیادہ ریونیو وصول کرنے کے اقدامات نظر آتے ہیں جبکہ صنعتی سیکٹر نے بجٹ کو صنعت دشمن بجٹ قرار دیتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بجٹ میں سیلز ٹیکس کو 16% سے 17% بڑھانے، مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 6% سے بڑھاکر 9% کرنے، درآمدی کینولا بیج پر 400 روپے فی میٹرک ٹن ڈیوٹی، موٹر وہیکلز ٹیکسز اور مختلف قسم کے بلاواسطہ ٹیکسز لگانے سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ آباد کے چیئرمین کے مطابق بجٹ کے بعد بلڈنگ میٹریل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے تعمیراتی لاگت میں 20% اضافہ متوقع ہے۔ سیمنٹ کی فی بوری قیمت میں پہلے ہی 30 سے 35 روپے اور اسٹیل کی قیمت میں 3000 روپے فی ٹن اضافہ ہوچکا ہے۔ بزنس کمیونٹی کا کہنا تھا کہ حکومت نے موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکس نہ عائد کرنے کا اعلان کیا تھا اور اضافی ٹیکسوں کی وصولی کیلئے نئے ٹیکس دہندگان جو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہیں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی پالیسی پر عملدرآمد کرنے کا اعادہ کیا تھا لیکن بجٹ میں موجودہ ٹیکس ادا کرنے والوں پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔ ملکی جی ڈی پی گروتھ جو بطور وزیر خزانہ گزشتہ کئی سالوں سے جمود کا شکار ہے کو بڑھانے کیلئے اس بجٹ میں کوئی ایسی پالیسی اور مراعات کا اعلان نہیں کیا گیا جس سے سرمایہ کار نئی سرمایہ کاری کی طرف راغب ہوں اورملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں۔ وزیر خزانہ کے 503/ارب روپے کے گردشی قرضوں کو 60 دن میں ختم کرنے کے حکومتی اعلان ایک خوش آئند بات ہے لیکن گردشی قرضوں کی ادائیگی کس طرح کی جائے گی یہ وضاحت طلب ہے۔
بجٹ میں وزیر خزانہ نے پاکستان کے بلند ترین بجٹ خسارے8.8% کا اعلان کیا ہے لیکن بجٹ اعلان کرتے وقت درحقیقت بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7.5%ہے ۔ میرا خیال ہے کہ حکومت رواں مالی سال کے اختتام 30 جون تک مزید 200/ارب روپے کے قرضے بینکوں سے ٹریژری بلز اور ٹی ایف سی کے ذریعے سرکولر ڈیٹ میں کمی کرے گی جس کے بعد بجٹ خسارہ 8.8% تک ہوجائے گا۔ آئندہ سال بجٹ خسارے کا ہدف 6.3% رکھا گیا ہے جس کو حاصل کرنے سے حکومت کو بجٹ خسارے میں 2.5% کے بجائے دراصل 1.3% کمی کرنی ہوگی لیکن حکومت کے بینکوں سے مزید قرضے لینے سے نجی شعبے کیلئے بینکوں سے قرضے دستیاب نہیں ہوں گے جس سے ملکی گروتھ متاثر ہوگی۔ یاد رہے کہ پاکستان کی موجودہ قرضوں اور جی ڈی پی کی شرح اپنی حد 60% سے بڑھ کر 63% تک پہنچ گئی ہے جو زیادہ سے زیادہ قرضے لینے کی حد کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ بجٹ میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی کسٹم ڈیوٹی ، سیکرٹ فنڈکے خاتمے، کفایت شعاری اور صوابدیدی اختیارات ختم کرنے جیسے اقدامات قابل تحسین ہیں بشرطیکہ ان پر صحیح معنوں میں عمل کیا جائے۔
فنانس بل (بجٹ 2013ء) میں ایک ملین روپے سے زیادہ رکھنے والے کھاتے داروں کے اکاؤنٹس کے بارے میں ٹیکس حکام کو اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت معلومات فراہم کرنا بینکنگ رازداری ایکٹ کے خلاف ہے۔ میں نے ہمیشہ ایف بی آر کی ان کاوشوں کی حمایت کی ہے جن کے تحت نئے ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا لیکن ٹیکس حکام کو ملنے والے نئے اختیارات جن کے تحت وہ بینکوں کے کھاتے داروں کے اکاؤنٹس کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کرسکتے ہیں جس کے غلط استعمال سے کھاتے داروں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس موضوع پر فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے بینکنگ، کریڈٹ اور فنانس کے چیئرمین کی حیثیت سے حال ہی میں فیڈریشن ہاؤس میں میری بزنس کمیونٹی سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ٹیکس حکام کو ملنے والے نئے اختیارات کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے ایسا میکنزم اختیار کیا جائے جس کے تحت ٹیکس حکام ٹھوس شواہد کی بنیاد پر عدالت سے کھاتے داروں کے اکاؤنٹ تک رسائی کے آرڈر لے کر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے مطلوبہ معلومات حاصل کرسکیں بصورت دیگر اس بات کے خدشات ہیں کہ کھاتے دار اپنے پاکستانی بینکوں میں جمع رقوم باہر منتقل کردیں گے جس سے ملک سے ”کیپٹل کی بڑی منتقلی“ ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں، میں جلد ہی گورنر اسٹیٹ بینک اور تمام کمرشل بینکوں کے صدور کے ساتھ فیڈریشن میں ایک اہم میٹنگ کرنے والا ہوں جس میں بینکوں کے کھاتے داروں کے مفادات کے تحفظ اور ٹیکس حکام کو دیئے جانے والے اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنے کیلئے احتیاطی اقدامات کی تجاویز پیش کی جائیں گی۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناظر میں امید کی جارہی تھی کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے گا لیکن ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تاہم صوبائی حکومتوں نے اپنے بجٹوں میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10% سے 15% اضافے کا اعلان کیا۔ ٹرن اوور ٹیکس ایک بلاواسطہ ٹیکس ہے جس کی رو سے اگر کمپنی منافع نہ بھی کمائے تو اس کی سالانہ سیلز پر پہلے 0.5% ٹیکس جس کو اب 100% بڑھاکر 1% کردیا گیا ہے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے بلاواسطہ (Indirect)ٹیکسز دنیا میں ناکام رہے ہیں اور اب دنیا میں بالواسطہ (Direct) ٹیکسز ہی رائج ہیں۔ بجٹ میں بجلی کی قیمتوں میں دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کے بارے میں بھی اعلان ہوا ہے۔ پہلے مرحلے میں آئندہ ماہ سے بجلی کی قیمت میں 2.50 روپے فی یونٹ کا اضافہ کیا جائے گا جس سے 100/ارب روپے کے سرکولر ڈیٹ میں کمی آئے گی لیکن مجموعی طور پر بجلی کی قیمت میں بتدریج 6 روپے فی یونٹ کا اضافہ کیا جائے گا۔ حکومت کا خیال ہے کہ 300 یونٹ تک استعمال کرنے والے لوگوں پر بجلی کی قیمت میں اضافے کا اطلاق نہ ہو۔ اس سال ریونیو کی وصولی میں 350/ارب روپے کی کمی آئی ہے لیکن مستقبل میں جی ڈی میں ٹیکسوں کی شرح کو 9% سے بڑھاکر 15% تک کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ آئندہ سال کا ریونیو بجٹ 3420/ارب روپے رکھا گیا ہے جو اس سال کے بجٹ کے مقابلے میں 21% زیادہ ہے جسے ایف بی آر کیلئے حاصل کرنا میرے نزدیک ایک بڑا چیلنج ہے۔ موجودہ بجٹ میں ملک میں نیشنل سیونگز اور سرمایہ کاری کی جی ڈی پی میں شرح 13%اور 14% بتائی گئی ہے جسے آنے والے وقت میں بڑھاکر 20% تک لانا ہوگا۔
اسپیشل اکنامک زونز میں ٹیکس کی چھوٹ 5 سال سے بڑھاکر10 سال کردی گئی ہے۔ ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگوں کے سب سے بڑے ٹارگیٹڈ سبسڈی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروجیکٹس (PSDP) کی مد میں1155/ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں 225/ارب روپے انرجی سیکٹر میں سرمایہ کاری کیلئے مختص ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ نیلم، جہلم، بھاشا، تربیلا جیسے ڈیمز کے ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کے علاوہ تھرکول گیسیفکیشن اور گدو پاور کے منصوبوں سے 3100 میگاواٹ اضافی سستی بجلی حاصل کی جائے گی جس سے ہمارا انرجی مکس بہتر ہوگا اور ہماری بجلی کی فی یونٹ اوسط قیمت میں کمی آئے گی۔ موٹر ویزپر 63/ارب روپے اور ریلوے پر31/ارب روپے اصلاحات کیلئے خرچ کئے جائیں گے۔ کالم کے اختتام پر میں حکومت پر زور دوں گا کہ وہ ایگریکلچرل اور سروس سیکٹرز جن کا ہمارے ملکی معیشت میں اہم کردار ہے سے ٹیکسوں کی وصولی یقینی بنائے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ ان کی وصولی صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کافی نہیں۔ ہمیں صوبوں میں ان ٹیکسوں کی موثر وصولی کیلئے انفرااسٹرکچر، مشینری اور کرپشن سے پاک اداروں کو فعال بنانا ہوگا تاکہ ان 2 اہم سیکٹرز کے منافع سے بھی جائز ٹیکس وصول کیا جاسکے جو عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ ہے۔
تازہ ترین