• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زرداری، مشرف اور ترین کو چھوڑ کر اپوزیشن صرف نواز شریف کیخلاف ہوگئی

اسلام آباد (انصار عباسی) اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تیار کیے جانے والے شرائطِ کار (ٹرمس آف ریفرنس) میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے پورے خاندان کا تو احاطہ کیا گیا ہے لیکن آف شور کمپنیاں اور بیرون ملک دولت ہونے کے باوجود بڑی ہی چالاکی کے ساتھ سابق صدر آصف علی زرداری، سابق آمر جنرل پرویز مشرف اور ان کے دو قریبی لیکن سابق ساتھیوں جہانگیر ترین اور گجرات کے چوہدریوں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف، جہانگیر ترین، گجرات کے چوہدری اور ان جیسے دیگر لاتعداد افراد کے پاس بیرون ممالک میں دولت بھی ہے اور آف شور کمپنیاں بھی لیکن ان سب کو اپوزیشن کی شرائطِ کار سے باہر رکھا گیا ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے نام پاناما لیکس میں موجود نہیں ہیں۔ پاناما لیکس میں سابق صدر آصف علی زرداری کی اہلیہ بینظیر بھٹو کا نام شامل ہے لیکن اپوزیشن کی طے کردہ شرائطِ کار کچھ اس طرح بنائی گئی ہیں کہ صرف شریف خاندان سے ہی پوچھا جانا ہے کہ ان کی غیر ملکی دولت کے ذرائع کیا ہیں۔ شرائطِ کار کے مطابق، بینظیر بھٹو اور ان کے بچوں سے کوئی سوال نہیں پوچھا جا سکتا لیکن وزیراعظم نواز شریف کے معاملے میں وہ خود، ان کے والدین، اہلیہ، بیٹوں اور بیٹیوں حتیٰ کہ پوتوں اور نواسوں کو بھی شریف خاندان کی تشریح میں شامل کیا گیا ہے۔ پاناما پیپرز میں وزیراعظم نواز شریف کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کا نام شامل ہے۔ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور رحمٰن ملک کا نام بھی پاناما پیپرز میں شامل ہے۔ چونکہ اپوزیشن کی طے کردہ شرائِط کار میں آف شور کمپنیوں کی تحقیقات صرف پاناما پیپرز کی حد تک ہی محدود کی گئی ہے، پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کا نام پاناما پیپرز میں شامل نہیں اسلئے ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا جا سکے گا حالانکہ انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ ان کے بچوں نے آف شور کمپنی کے ذر یعے لندن کی ایک پراپرٹی حاصل کر رکھی ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک اور لیڈر علیم خان اپوزیشن جماعتوں کی شرائط کار سے نہیں بچ سکیں گے کیونکہ ان کا نام پاناما لیکس میں شامل ہے۔ پاناما لیکس جاری کرنے والی تحقیقاتی صحافیوں کی تنظیم (آئی سی آئی جے) نے ماضی میں خبر شایع کی تھی کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی آف شور کمپنی اولیو گروو ایسیٹس لمیٹڈ کے مالک ہیں۔ یہ کمپنی 2006ء میں برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹر کرائی گئی تھی۔ تاہم، یہ با اثر سیاسی خاندان بھی اپوزیشن کی شرائطِ کار کے دائرے میں آنے سے بچ گیا اور وجہ صرف یہ ہے کہ مونس الٰہی کی آف شور کمپنی کا ذکر پاناما لیکس میں نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو پہلے ہی قانون سے بالاتر شخص سمجھا جاتا ہے۔ ان کے پاس بھی بیرون ملک میں دولت ہے جس کا ذکر انہوں نے انکم ٹیس ریٹرنز میں نہیں کیا لیکن اپوزیشن کی شرائط کار کے مطابق ان سے بھی غیر ملکی دولت کے متعلق کچھ نہیں پوچھا جا سکتا۔ مبینہ طور پر جنرل مشرف کے پاس بیرون ممالک میں جائیدادیں ہیں اور بینک اکائونٹس بھی ہیں لیکن آف شور کمپنی کی ملکیت کے حوالے سے ان کے متعلق کوئی معلومات نہیں ہیں۔ حکومت کی مقرر کردہ شرائِط کار میں جن امور کے حوالے سے تحقیقات کرائی جا رہی ہے وہ یہ ہیں: 1) آف شور کمپنیاں، غیر ملکی دولت، پاناما لیکس میں جن پاکستانیوں کے نام بتائے گئے ہیں ان سمیت تمام پاکستانیوں کے غیر ملکی اکائونٹس۔ 2) کسی بھی سرکاری عہدیدار یا اس کے خاندان کے رکن کی جانب سے بینک کے قرضوں کے معاملے میں ڈیفالٹ کرنا یا پھر انہیں معاف کرایا جانا۔ 3) کرپشن، کمیشنوں یا رشوتوں کے ذریعے حاصل کیا گیا پیسہ اور دولت کی پاکستان سے باہر منتقلی۔ اپوزیشن کی جانب سے  طے کی جانے والی شرائِط کار میں تمام غلط اقدامات اور کرپشن کا ذکر نکال دیا گیا ہے اور صرف پاناما لیکس کے انکشافات کو شامل کیا گیا ہے۔ اپوزیشن کی شرائِط کار میں جوڈیشل کمیشن کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی تحقیقات وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان سے شروع کرے اور اپنا کام تین سے چار ماہ میں مکمل کر لے۔ شرائط کار میں کہا گیا ہے کہ بعد میں پاناما لیکس میں جن افراد کا نام شامل ہے؛ ان کے خلاف بھی تحقیقات کی جا سکتی ہیں۔ اپوزیشن کی شرائط کار کے مطابق وزیراعظم اور ان کے خاندان کے معاملے میں تحقیقات مکمل ہوتے ہی رپورٹ حکومت کو جمع کرائی جائے گی جبکہ دیگر کے معاملے میں تحقیقات ایک سال میں مکمل کی جائے۔ تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کا معاملہ ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے پر توجہ مرکوز رکھنے کے باوجود، اپوزیشن نے پاناما لیکس کے شامل ناموں کے سوا باقی افراد کی کرپشن، رشوتوں، ڈیفالٹ، قرضے معاف کرانے کے معاملے اور آف شور جائیداد اور کمپنیوں کی تحقیقات کا معاملہ شرائطِ کار میں شامل کیوں نہیں کیا۔ پاناما لیکس میں وزیراعظم کے تین بچوں کے نام آف شور کمپنیوں کے مالک کے طور پر شامل ہیں لیکن اپوزیشن نے اپنی شرائط کار میں ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے تشریح کا مطالبہ کیا ہے کہ ’’مدعا علیہ کا مطلب پاناما پیپرز میں بتایا جانے والا پاکستانی شہری بشمول وزیراعظم۔‘‘ شرائطِ کار میں مزید وضاحت کی گئی ہے کہ ’’وزیراعظم کا مطلب میاں محمد نواز شریف سمجھا جائے۔‘‘
تازہ ترین