• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کے عام انتخابات جہاں کئی دوسرے حوالوں سے یاد رکھے جائیں گے وہاں ایک اہم حوالہ یہ بھی ہے کہ ملک میں پہلی بار الیکشن میں حصہ لینے والی کسی بھی قابل ذکر چھوٹی یا بڑی سیاسی پارٹی نے جموں و کشمیر کے دیرینہ تنازعے اور پونے دو کروڑ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو اپنی انتخابی مہم کا موضوع نہیں بنایا۔ ان جماعتوں میں اُس پارٹی کی باقیات بھی شامل ہیں جس کے عظیم قائد نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا جس پارٹی کے سیماب صفت بانی نے یہ نعرہ مستانہ لگایا تھا کہ کشمیریوں کی آزادی کیلئے ہم ہزار سال تک لڑتے رہیں گے، اس نے بھی مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی جو پارٹی نیا پاکستان بنانا چاہتی ہے اس نے بھی ’پرانے پاکستان‘ کے اس پرانے مسئلے کو چھیڑنا مناسب نہ سمجھا حتیٰ کہ جس جماعت کے سربراہ قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ تھے اسے بھی اس موقع پر محکوم و مجبور کشمیری عوام کی یاد نہیں آئی۔ انتخابی مہم میں ہر اس مسئلے کو اچھالا گیا جو ووٹوں کیلئے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا اچھا ذریعہ بن سکتا تھا اس سلسلے میں مخالفین کی کمزوریوں، نالائقیوں اور نااہلیوں کے پردے بھی چاک کئے گئے اور ان کی کردارکشی سے بھی گریز نہیں کیا گیا مگر قومی سلامتی کے حوالے سے جموں وکشمیر کے حساس ترین مسئلے پر لب کشائی سے گریز کیا گیا جو ہمیشہ سے اس ملک کی خارجہ پالیسی اور قومی سیاست کا بنیادی جزو رہا ہے اور جس کیلئے اس غیرت مند قوم نے ہزاروں نہیں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں۔ ایک وقت تھا جب پاکستان کے حکمرانوں اور سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کی تقریریں اور بیانات جموں وکشمیر کے ذکر سے شروع ہوتے اور اسی پر ختم ہوتے تھے پھر اندرونی کمزوریاں اور بین الاقوامی مصلحتیں قومی و ملی مفادات پر غالب آنے لگیں اور تقریروں اور خطابات کے علاوہ ہمارے رہبروں کے عمل میں بھی وہ جوش و ولولہ باقی نہ رہا جو عوام کے دلوں کو گرماتا اور عالمی رائے عامہ کو کشمیریوں کے حق میں جگائے رکھتا تھا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے بھی جن کے متعلق عام تاثر یہ ہے کہ وہ کشمیر سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں اس مسئلے کا کوئی ذکر نہیں کیا اگر وہ دو چار جملوں میں رسمی طور پر ہی کہہ دیتے کہ ہم جموں وکشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کی حمایت جاری رکھیں گے تو نہ صرف پاکستانی قوم کے حقیقی جذبات کی ترجمانی ہو جاتی بلکہ نام نہاد کنٹرول لائن کے دونوں جانب آزادی کے متوالوں کو بڑا حوصلہ ملتا۔وزیر اعظم آزاد کشمیر گئے  نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ کا معائنہ کیا۔ بریفنگ لی اور میڈیا سے بھی بات چیت کی۔ اس موقع پربھی انہوں نے ”خاموش ڈپلومیسی‘  پیش نظر رکھی اور کشمیر پر کچھ نہ بولے۔
پاکستان بلاشبہ کشمیری عوام کو ان کا پیدائشی حق دلانے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا بنیادی فریق ہے اور کشمیریوں کی حمایت پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے منشور کا جزو لاینفک ہے مگر پچھلے کئی چند سال سے مختلف سطحوں پر جو سرکاری اور سیاسی طرز عمل سامنے آ رہا ہے اس سے یوں لگتا ہے جیسے اس مسئلے کو بتدریج لپیٹا جا رہا ہے اور غیرمحسوس طریقے سے قوم کی توجہ اس سے ہٹائی جا رہی ہے گویا ذوالفقار علی بھٹو، ایوب خان سے علیحدگی کے بعد جو کہتے تھے کہ شملہ معاہدہ کشمیر پر سودے بازی کا سمجھوتہ ہے وہی سچ تھا اور کنٹرول لائن بنائی ہی اس لئے گئی تھی کہ جو علاقہ تمہارے کنٹرول میں ہے وہ تمہارا اور جو ہمارے پاس ہے وہ ہمارا، وقت گزرنے کے ساتھ جب لوگ تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے تو پہاڑوں، جنگلوں، وادیوں، برف زاروں  پُرپیچ گھاٹیوں، سنگلاخ ڈھلوانوں، دریاؤں، ندی نالوں کے ٹیڑھے میڑھے راستوں یا آبشاروں، جھیلوں اور چشموں کے آس پاس گزرنے والی پگڈنڈیوں کو نقشوں میں سیدھا کر کے یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے’ پُرامن‘ طور پر حل کر لیا جائے گا۔ اللہ کرے یہ تاثر سراسر غلط ہو لیکن اگر ایسا غضب ہو گیا تو یہ عظیم کشمیری قوم کی عظیم مملکت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہو گا۔ تقریباََ 85 ہزار مربع میل رقبے پر محیط ریاست جموں وکشمیر تاریخ کے مختلف ادوار میں ایک جغرافیائی اکائی میں منسلک آزاد اور خودمختار مملکت رہی ہے، اس کی سرحدیں پھیلتی اور سکڑتی بھی رہی ہیں مگر ایک وحدت کے طور پر اس کا تشخص کبھی پامال نہیں ہوا۔ 1947 میں ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں بھی اس کی یہی پوزیشن تھی۔ ایک جارح قوت کے طور پر انگریزوں کا غلبہ ضرور تھا مگر جموں وکشمیر کو داخلی خودمختاری حاصل تھی۔ موجودہ کنٹرول لائن کی بنیاد پر اس کی تقسیم کا مطلب یہ ہو گا کہ بطور ریاست اس کا وجود ختم ہو گیا اور ایک قوم نابود ہو گئی۔ وادی کشمیر، لداخ اور جموں کا 50513 مربع میل علاقہ بھارت اور آزادکشمیر، گلگت اور بلتستان کا 33958 مربع میل رقبہ پاکستان میں ضم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ اقصائے چین اور جنوب مشرقی لداخ کے 9171 مربع میل علاقے پر چین کا قبضہ مستحکم ہو جائے گا۔ 1963 میں پاکستان اور چین کے درمیان ایک معاہدہ کے تحت طے پایا تھا کہ چین مسئلہ کشمیر حل ہونے پر اس علاقے کے سلسلے میں خطے کی بااختیار حکومت سے پھر بات کرے گا، اس کا مطلب یہ لیا جاتا رہا کہ رائے شماری کے نتیجے میں جب جموں وکشمیر کا پاکستان سے الحاق ہو جائے گا تو چین یہ علاقہ پاکستان کے حوالے کر دے گا مگر تقسیم کشمیر کی صورت میں چین شاید ہی اس علاقے سے دستبردار ہو یہ علاقہ اس نے 1962 کی جنگ میں بھارت سے چھینا تھا جب پاکستان کا اس پر اختیار ہی قائم نہیں ہو گا تو وہ اسے ہمارے حوالے کیوں کرے گا؟ جموں وکشمیر کے تنازعے کا جو بھی حل ہو، کشمیری عوام یہی چاہیں گے کہ ریاست کی وحدت برقرار رہے۔ بھارت سے تو ریاست کا کوئی تعلق بنتا ہی نہیں ایک حل خودمختار کشمیر بھی ہے۔ کشمیریوں کی نمائندہ سیاسی جماعت کل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے ایک موقع پر اس کے حق میں قرارداد منظور کی تھی مگر جب پتہ چلا کہ مہاراجہ جو پہلے خودمختار کشمیر کا حامی تھا بھارت سے الحاق کا اعلان کرنے والا ہے تو اسے منسوخ کر دیا اور پاکستان سے الحاق کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام نے اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں اگر حکمران اس سے روگردانی کرتے ہیں تو پھر تاریخ اپنا رُخ خود متعین کرے گی۔کشمیریوں کی ہزاروں سال پرانی تاریخ نے جنت ارضی کی اس قوم کو کئی بار مایوسیوں اور نامرادیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلا اور کئی بار باہر نکالا ہے۔ تاریخ اب بھی اپنے آپ کو دہرائے گی۔
تازہ ترین