ملک سیاسی ، اخلاقی اور معاشی گراوٹ کا شکار ہے، کہیں سے بھی کوئی فرحت آمیز خبر آنے کو نہیں دے رہی ہے ، حکومت کی جانب سے ہر ذریعہ ابلاغ پر بلنگ بانگ دعوے مضبوط حکومت کے کئے جارہے ہیں جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں، ماہرین معاشیات کے مطابق دو سال پانچ ماہ یعنی جولائی 2018 سے دسمبر 2020 تک حکومت پاکستان کے لئے گئے قرضوں میں ساڑھے 12 کھرب روپوں کا اضافہ ہوا ہے جو ساڑھے 12 ہزار ارب روپے بنتے ہیں، معمولی سی ضرب دیں تو پانچ سالوں میں یہ قرض 25 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائیگا جو کہ گزشتہ ستر سالہ قرضوں کے برابر ہوگا، ن لیگ کے پانچ سالہ دور میں کل دس ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا گیا تھا جس سے میٹرو بس منصوبے، مو ٹر ویز ، سی پیک ، اور وافر بجلی کی پیداوار کا انتظام کیا گیا ورنہ آج ملک اندھیروں میں ڈوب چکا ہوتا اور معاشی پیداوار کی شرح کھائیوں کی نذر ہوچکی ہوتی ۔
حکومتی زعما مختلف پلیٹ فارمز پر مختلف بیانات دیکر عوام کو مزید کنفیوژن میں مبتلا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن عوام اسے حکومتی نااہلی قرار دے رہے ہیں،ایک طرف وزیر اعظم دعویٰ کررہے ہیں کہ انھیں تباہ حال معیشت ورثے میں ملی جبکہ دوسری طرف انھی کے وزیر خزانہ کا فرمان ہے کہ نواز دور کی جی ڈی پی تک پہنچنا انکا ٹارگٹ ہے، تیسر ی جانب تحریک انصاف کے رکن بھی معترف ہیں کہ اسی ایف بی آر سے انھوں نے دوگنا ٹیکس جمع کئے۔
ایک طرف وزیر منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات کا دعویٰ ہے کہ معاشی شرح نمو کا تخمینہ چار اعشاریہ آٹھ فیصد ہے،معاشی ماہرین کا کہنا ہے ڈالر کی قیمت گرنے کے بعد بھی درآمدی اشیاء کی قیمتیں کم نہ ہونے سے حکومتی استعداد اور توجہ ظاہر ہوتی ہے کہ وہ کتنے سنجیدہ ہیں، حکومت نمائندے محض لفاظی اور اعداد و شمار کو گورکھ دھندہ چلانے میں مصروف ہیں، آدھا دور حکومت انھوں نے پچھلی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں پر اپنی تختیاں لگا کر صرف کیا اور باقی بھی ایسے ہی گزر جائیگا،تین سال گزر گئے مہنگائی کم کرنے کا دعویٰ پورا نہ ہوسکا۔
شمالی لاہور سے منتخب رکن اسمبلی غزالی سلیم بٹ کا کہنا ہے نالائق اور نااہل بزدار حکومت سے ابھی تک ایک موریہ پل کا معمولی سا منصوبہ مکمل نہ ہوسکا یہ کیا بڑے بڑے منصوبے مکمل کریں گے،پنجاب حکومت تو صرف اعلانات اور میڈیا ٹرولنگ کے سہارے چل رہی ہے،ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان گلا پھاڑ پھاڑ کر صبح دوپہر شام شریف خاندان یہ ،شریف خاندان وہ کی گردان رہی ہے، جیسے ہی اسکی نوکری کے ایام پورے ہوں گے تو یہ ایسے غائب ہوجائیگی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
عوام میں پھیلی شدید بے چینی کے بعد نیا بیانیہ جنم لے چکا ہے کہ اپوزیشن پر کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کیلئے نیب ، ایف آئی اے ، گرفتاریاں اور جیل ہیں جبکہ حکومتی ارکان کی کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کبھی وزیر اعظم خود کرتے ہیں، کبھی بیرسٹر علی ظفر کو لگا دیا جاتا ہے ، جس سے ثابت ہورہا ہے کہ ریاست مدینہ ایک جھوٹا نعرہ تھا اور اس نعرے کو لگانے والے مضموم مقاصد کی تکمیل میں مصروف عمل ہیں ، شہزاد اکبر کی تحقیقات کس قدر مصدقہ ہیں عدالتوں سے خوب ثابت ہورہا ہے، جہانگیر ترین کی کرپشن کی تحقیقات بارے آخر کار وہی ہوا جس کا پہلے سے ہی اندازہ لگایا جاچکا تھا، علی ظفر رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین دودھ کے دھلے ہیں، معصوم جہانگیر ترین کے خلاف عائد کئے گئے تمام تر الزامات لغو اور بے بنیاد ہیں ۔
عوام کا یہ کہنا ہے کہ مبینہ ریاست مدینہ کے ایماندار والی ترین کے جائز مطالبے ضرور مان لیں گےیعنی ایف آئی اے کی تفتیش ہلکی پھلکی ہوجائیگی، کہ کبھی ایف آئی اے والے ترین کے دفتر جاکر سوالوں کے تحریری جواب لے آیا کریں گے،جس کے انعام میں یوٹیلیٹی سٹورز ترین کی ملوں سے ترین کے نرخوں پر چینی بھی خریدلے گا،ترین کا نام تو بالکل بھی ای سی ایل پر نہیں ڈالا جائیگا، باقی رہا سوال ترین کی گرفتار ی کا تو دلی دور است ۔جس سوشل میڈیا کے کندھوں پر سوار ہوکر موجودہ حکومت نے تبدیلی کا بیانیہ گڑھا وہ چکنا چور ہوچکا ہے، تین سالوں سوشل میڈیا ٹرولنگ کا ہدف نواز شریف سے بدل کر وزیر اعظم اور انکی ناکام پالیسیوں کی جانب مڑ چکا ہے، جس سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک انصاف نے ن لیگ کو بدنام کیا اور ایسے ایسے الزامات عائد کئےجو کسی عدالت میں ثابت نہ ہوسکے۔
خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کے خلاف پرائیویٹ زمین کے مقدمے بنائے گئے اور پابند سلاسل کرکے انھیں زبان بندی کاسبق سکھایا گیا،رانا ثنا اللہ کے خلاف ہیروئین کا کیس بنا کر اللہ کو جان دینے کے دعوے دار عدالت میں کوئی ثبوت نہ پیش کرسکے، دبائو میں میاں نواز شریف کو سزا سنانے والا جج ارشد بھی مشکوک حالات میں دنیا سے سدھا رگیا،کیپٹن صفدرکے خلاف نیب نے آمدن سے زائد اثاثوں کی انکوائری بند کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں ، عدالت سے انھیں ریلیف مل جائیگا ، بالکل ا سی طرح خواجہ آصف کو بھی عدالت سے ریلیف ملنے ک امکان ہے۔
یہاں عوام یہ سوال کررہے ہیں کہ حفیظ شیخ کو مہنگائی کی وجہ سے نکالا گیا جبکہ یہ دعویٰ کس نے کیا تھا کہ میں مہنگائی کے عوامل کی خود نگرانی کروں گا؟ کیا حفیظ شیخ اتنا ہی آزاد تھا کہ اپنی مرضی سے پالیسیاں بناتا رہا ؟ اگر وہ اپنے فیصلوں میں اتنا آزاد تھا تو باقی ادارے کس کھیت کی مولی تھے؟ادویات سیکنڈل والا عامر کیانی کس کھڈ میں جاکر چھپ گیا ہے ؟جہاں تک کوئی اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا ہے؟
کے الیکٹرک سیکنڈل سے برآمد ہونے والے عارف نقوی کو کس کے ایما پر قانون کی دست برد سے بچا کر رکھا گیا ہے؟آٹے سیکنڈل والا خسرو بختیار سے استعفیٰ تخت چھننے کے خوف سے ہی طلب نہیں کیا گیا ناں؟ اگر وہ زلفی بخاری ہوتا تو کب کا مستعفی ہوکر اپنے اصلی ٹھکانے روانہ ہوچکا ہوتا، پٹرول سے بابر ندیم کے کیا کہنے لگتا ہے اس کی کلائیوں کے سائز کی ہتھکڑی ہی نہیں بنی ،تیسرا یوم تکبیر آیا اور حسب معمول گزر بھی گیا لیکن اس بار بھی مودی کے یاروں نے ایٹمی دھماکوں کی خوشی میں جشن منایا لیکن غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والے حب الوطنی کے ٹھیکیداروں پر موت کا سناٹا چھایا رہا، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے پاکستان کا ایٹم بم پاکستان کا نہیں بلکہ انڈیا کا ہے اس لئے حکومتی سطح پر اسکی یاد میں شاندار اور جاندار تقریب منعقد نہ کی گئی ۔