سندھ میں گٹکا،مین پوری اور پان پراگ کے علاوہ نشہ آور ماوہ کے استعمال سے نوجوان نسل کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوکر آہستہ آہستہ موت کے منہ میں جارہی ہے۔ اس کی روک تھام کے لئے قانون میں ترمیم اور نئی دفعات لاگو ہونے کے بعد بھی اس لئے موثر ثابت نہیں ہورہی ہیں کہ قانون کے رکھوالوں کی جن کو اس کی روک تھام کرنی ہے اس زہر کے اسمگلروں کے ساتھ مک مکا ہونے کے نتیجے میں کھلے عام اس زہر کی فروخت جاری ہے۔
میں گزشتہ روز میونسپل گراؤنڈ میں ایک جنازہ کی نماز میں شریک تھا جنازہ نماز میں زندگی کے تمام شعبوں کے افراد سیکڑوں کی تعداد میں شریک تھے۔ یہ جنازہ تین بچوں کے باپ جو خود اپنے والدین کا اکلوتا اور لاڈلا بیٹا اور حافظ قرآن احمد علی قریشی کا تھا جو گٹکا کھانے سے منہ کے کینسر میں مبتلا ہوکر زندگی کی بازی ہار کر راہی عدم کو روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم شہر میں کیمیکل کی آمیزش سے نشہ آور گٹکا کے زہر کھانے سے واقع ہونے والی یہ پہلی موت نہیں تھی بلکہ ایک ماہ میں اس طرح کی ہر دوسرے روز ہونے والی اموات کی تعداد دس سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس سلسلے میں حافظ احمد علی مرحوم کے سسر محمد ارشد قریشی ایڈووکیٹ، سینئر نائب صدر پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن نے جنگ کو بتایا کہ ان کا داماد، جو بھتیجا بھی تھا، کی موت کا سبب منہ کا کینسر بنا۔
انہوں نے کہا کہ حافظ احمد علی کو گٹکا زیڈ 21 کی لت دوستوں سے لگی اور جب انہیں کراچی کے نجی اسپتال میں داخل کیا گیا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ گٹکا، مین پوری اور ماوہ کے استعمال سے اندرون سندھ سے بڑی تعداد میں منہ کے کینسر میں مبتلا مریض جن میں اکژیت نوجوانوں کی ہے لائی جارہی ہے۔ اس بارے میں حالیہ شکارپور تبادلہ ہونے والے ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے جنگ کو بتایا تھا کہ گٹکا،مین پوری ،پان پراگ اور نشہ آور ماوہ کی لت نے نوجوان نسل کو کینسر زدہ کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور حکومتی مشینری کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی اور علمائے کرام نے اس کے خاتمہ کی مشترکہ جدوجہد نہ کی تو ہماری نوجوان نسل پر بھیانک اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز کو اس کا پابند کیا تھا کہ ان کی حدود میں یہ قبیح کاروبار نہیں ہونے دیں گے۔
تاہم، وہ دیگر اضلاع سے آنے والے اس زہر کو مکمل طور پر روکنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے اس زہر کو فروخت اور اسمگل کرنے والوں کے خلاف اب 9 سی کی دفعات لاگو کرنا ناگزیر ہوگیا ہے جس میں جرم ثابت ہونے پر سزائے موت یاعمر قید اور بھاری جرمانہ کی سزا شامل ہے۔
انڈین گٹکا جس کانام Z21 اور اس کی پیکنگ انڈیا میں کی جاتی ہے، اسے افغانستان لاکر قندھار اور آخری چیک پوسٹ اسپین بولدک کے بعد چمن،کوئٹہ اور وہاں سے کھیپ کی شکل میں نواب شاہ جبکہ دوسری کھیپ کراچی حیدر آباد اور تیسری کھیپ ملتان روانہ کردی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایک ٹرک گٹکا پان پراگ اور زیڈ 21 کی اسمگلنگ پر لاکھوں روپیہ کی رشوت کی خبریں بھی گردش کرتی رہتی ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زیڈ 21گٹکے کی ایک پڑیا جو کہ شروع میں پانچ روپیہ میں بکتی تھی اب اس کی قیمت بیس روپیہ تک پہچ گئی ہے۔ اس بارے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت پاکستان کی نوجوان نسل کو کینسر کے مرض میں مبتلا کرنے کے لئے سستے داموں اس زہر کو بیچا گیا۔ جب ہمارے نوجوان اس کے عادی بن گئے تو اب ان کی جیب پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اعلی پولیس آفیسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اب سندھ میں منشیات کے اسمگلر ہیروئن ،چرس شراب کی اسمگلنگ کا دھندہ کم کرکے گٹکا، مین پوری کے کاروبار سے منسلک ہوگئے ہیں، جبکہ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے تمام اضلاع کے اعلی پولیس افسران کی چشم پوشی جو کہ مبینہ طور پر بے سبب نہیں ہے، اس خوفناک زہر کے پھیلاؤ کا باعث بن رہی ہے۔ جہاں تک گٹکے کے زہریلے اثرات کا تعلق ہے تو اس بارے میں خود ہندوستان کے صوبہ کیرالہ کے وزیر اعلی لالو پرساد یادیو کے بارے میں اخبارات اور ٹیلی ویژن پر یہ بات مشہور ہوئی تھی کہ دورہ لاہور کے موقع پر رات کو انہیں پان کی طلب ہوئی تو رات گئے پان تو نہیں ملا لیکن لانے والے نے سوچا کہ پان پراگ جو کہ انہی کے ملک کی ہے، لے جائی جائے۔ میزبانی کے فرائض انجام دینے والے افسر کو اس وقت شدید مایوسی اور شرمندگی ہوئی جب لالو جی نے پان پراگ کے پیکٹ دیکھ کر کہا کہ انڈیا میں کینسر پھیلانے کے بعد یہ زہر اب پاکستان میں بھی پہنچ گیا ہے۔
اس زہر کے استعمال سے کس طرح گھر اجڑ رہے ہیں اس کی گواہی خود نورین کینسر اسپتال کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر قراۃ العین جعفری نے یوں دی کہ ان کے اسپتال کی او پی ڈی میں جسم کے مختلف اعضاء کے مقابلے میں منہ کے کینسر کے مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پان پراگ ،گٹکا اور زیڈ 21 اور نشہ آور ماوہ کی حشرسامانیاں منہ کےکینسر کی شکل میں سامنے آرہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اور اسٹاف کا کلیجہ اس وقت منہ کو آتا ہے جب کینسر زدہ نوجوانوں کی بیویاں، خوبصورت گڑیا اور گڈے جیسے بچوں کا واسطہ دے کر اپنے سہاگ کو بچانے کے لئے ڈاکٹروں اور طبی عملے کو واسطے دے کر بچوں کی طرح بلک بلک کررورہی ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر قراۃالعین یہ کیفیت بتاتے ہوئے آبدیدہ تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ منہ کے کینسر کا سب سے خوفناک مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب کینسر کو بڑھنے سے روکنے کے لئے الیکٹرک شاک لگائے جاتے ہیں جبکہ جسم کے دیگر حصوں کے گوشت کو اس کینسر زدہ حصہ پر لگادیاجاتا ہے۔
تاہم ان کی یہ کوشش بھی اکثر رائیگاں جاتی ہے اور مریض پھر بھی صحتیاب نہیں ہوتا اور موت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماں باپ کے ساتھ ساتھ دوستوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو اس زہر سے بچانے کے لئے کردار ادا کریں۔ ضلع شہید بینظیر آباد میں گٹکا ،مین پوری ،پان پراگ کی پڑیا اب یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کی مٹھی اور پرس میں بھی نظر آتی ہے۔
اس سلسلے میں جہاں تک اس کی فروخت کا تعلق ہے تو ضلع شہید بے نظیر آباد کے بڑے شہروں سکرنڈ ،قاضی احمد ،دولت پور ،دوڑ ،بوچھیری ،جام صاحب کے علاوہ نواب شاہ شہر کے گنجان آباد محلوں جن میں سانگھڑ روڈ پر واقع بلوچ پاڑہ ،تاج کالونی،عظیم کالونی ،غلام رسول شاہ کالونی ،منوآباد ،غریب آباد ،مریم روڈ ، پیپلز میڈیکل اسپتال میں قائم ہوٹلوں اور دوکانوں سے بھی فروخت اور ہول سیل میں ٹرکوں وین اور ایمبولینس کے ذریعہ بھی سپلائی کی جاتی ہے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مضر صحت بلکہ موت کے منہ میں لے جانے والے زہر کے خریداروں کو تو اس کی فروخت کے ٹھکانوں کا پتہ ہے لیکن بے چاری پولیس ناواقف ہے۔ اسی لئے وہ پان کے کیبن یا کسی کار سے سو دوسو پڑیاں برآمد دکھاکر ریکارڈ کی درستی کرتی ہے۔
اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر سماجی رہنما صفر علی اعوان نے جنگ کو بتایا کہ گٹکا مین پوری ،پان پراگ، نشہ آور ماوہ کے عادی افراد جن میں نوجوانوں کی اکثریت ہے، اس کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ نہ ملنے پر اسی طرح تڑپنا شروع ہوجاتے ہیں جس طرح چرس ہیروین اور شراب کے عادی تڑپتے ہیں۔ انہوں کہا کہ روزانہ چار پانچ سو روپیہ کا پان پراگ گٹکا کھانے والے پیسے نہ ہونے پر چوریاں کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگی بنیادوں پر اس زہر کے خاتمہ کے لئے کوششیں کی جائیں ورنہ اندیشہ ہے کہ ہماری آئندہ نسل کینسر ذدہ ہوکر مفلوج ہوکر معاشرے پر بوجھ بن کر نہ رہ جائے۔
تاہم اب ضلع شہید بے نظیر آباد میں نئے پولیس افسران جن میں ایس ایس پی کیپٹن ریٹائرڈ امیر سعود مگسی اور ڈی آئی جی عرفان بلوچ شامل ہیں تعینات ہوئے ہیں اور بجا طور یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ گٹکا ،مین پوری ۔پان پراگ اور نشہ آور ماوہ کے ساتھ ہیروئن ، چرس کپی شراب ،آئس شیشہ ودیگر منشیات کے اڈوں کا قلع قمع کرنے میں اپناکردار ادا کریں گے۔