• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اس وقت مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ اگر بات صرف معاشی پسماندگی کی ہو تو روکھی سوکھی کھا کر گزارا کیا جا سکتا ہے مگر امن و امان اور غیر ملکی مداخلت کے حوالے سے پاکستان میں جو کھچڑی پک رہی ہے اس کے نتائج بہت خطرناک ہیں۔ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ عدم تحفظ ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں مجموعی طور پر پنجاب ہر حوالے سے بہتری کی طرف گامزن رہا اور اس کامیابی کا سہرا شہباز شریف اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔ زندگی کے ہر طبقہٴ فکر سے تعلق رکھنے والا انسان ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھنے کے لئے کسی نہ کسی نصب العین کا تعین کرتا ہے اور مقصد کے حصول کے لئے وقت اور حالات کو اپنے جذبے اور جنون کے تابع کر کے نتائج حاصل کرتا ہے۔ اس کی خواب دیکھتی آنکھوں کے سامنے اپنے شعبے کے حوالے سے کوئی نہ کوئی آئیڈیل شخصیت ضرور جھلملاتی رہتی ہے جس کے افکار اور طریقہٴ کار کی کسی حد تک پیروی کر کے وہ اس کے مقابل یا اس سے آگے بڑھنے کی تگ و دو کرتا ہے۔ کچھ لوگ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں کہ وہ اپنے، خدمت ِ خلق اور جذبے کی قوت سے محدود مدت میں ایسے اہداف حاصل کر لیتے ہیں جو انہیں توقیر اور منفرد مقام عطا کرتے ہیں۔ شہباز شریف صاحب بھی ایسی ہی شخصیت کا نام ہے جن میں تعمیر وطن اور خدمت ِ خلق کا جذبہ ایسے جنون کی صورت اختیار کر چکا ہے جہاں کسی سمجھوتے، ناکامی اور سستی کا کوئی عمل دخل باقی نہیں رہتا۔ گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کو شہباز شریف کی شبانہ روز کاوشوں سے جوڑا گیا بلکہ ابھی تک شہباز شریف صاحب مختلف سیاسی جماعتوں کے مفکرین اور عہدیداروں میں اپنی کارکردگی کے حوالے سے زیرِ بحث ہیں۔ پی پی پی کے کئی رہنماؤں کے اس طرح کے بیانات پڑھنے اور سننے کو ملے کہ اگر ہمارے پاس بھی ایک شہباز شریف ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔ دوستوں، دانشوروں، سیاسی مخالفوں، میڈیا اور عالمی تجزیہ کاروں سے سند ِ تحسین حاصل کرنے والے شہباز شریف کا حقیقی سفر بطور وزیر اعلیٰ پنجاب1997ء سے شروع ہوتا ہے۔ یہ دور اگرچہ ادھورا رہ گیا تھا اور پھر یہ رعایت بھی حاصل تھی کہ مرکز میں نواز شریف صاحب وزیراعظم تھے۔ اس کے باوجود اس دور میں بھی شہباز شریف نے جو کام کئے وہ نہ صرف عام روٹین سے ہٹ کر تھے بلکہ دوررس نتائج کے حامل تھے مثلاً جعلی زرعی ادویات کا سدباب، گھوسٹ اسکولوں کی نشاندہی اور امتحانی مراکز میں نقل مافیا کا خاتمہ وغیرہ وغیرہ لیکن شہباز شریف کا اصل امتحان گزشتہ پانچ سالہ دور تھا جب مرکز میں کوئی مہربان سایہ موجود نہیں تھا بلکہ قدم قدم پر رکاوٹیں، الزام تراشی اور عدم تعاون کا سامنا تھا مگر اس ناموافق ماحول میں بھی انہوں نے نہایت ثابت قدمی سے بہت سے ناممکنات کو اپنی شبانہ روز محنت، لگن اور تدبر سے ممکن بنایا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس تمام دور میں بجلی کے بحران نے پنجاب کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔ تقریباً نصف دورِ حکومت گزرنے کے بعد وفاقی حکومت نے جب اٹھارہویں ترمیم منظور کر کے صوبوں کو کچھ اختیارات تفویض کئے تو بجلی کی فراہمی بھی صوبائی معاملہ بن گئی لیکن اس میں جو مزید قانون سازی کی ضرورت تھی اس پر توجہ نہ دی گئی مثلاً یہ کہ تقسیم کا اختیار مرکز کے پاس تھا اور پھر غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدہ بھی مرکزی سطح پر ہی ہوتا تھا لہٰذا اگر اس عرصے میں کوئی صوبہ بجلی بنا بھی لیتا تو ضروری نہیں کہ مرکز اسے اسی صوبے کو استعمال میں لانے کی اجازت بھی دیتا۔ ان وجوہات کے باعث یہ واحد بڑا اور اہم منصوبہ تھا جسے شہباز شریف صاحب مرکز کے عدم تعاون کے باعث شروع نہ کر سکے اور اسی کو بنیاد بنا کر الیکشن کے دنوں میں ان پر بھرپور تنقید بھی کی گئی مگر فیصلہ کرنے والوں کا وژن دیکھئے کہ وہ اس قسم کی ہر قانون سازی سے بے خبر تھے، انہیں مرکز اور صوبے کے اختیارات اور ان کے درمیان سرد مہری کے سبب اس منصوبے میں تاخیر کا بھی علم نہیں تھا مگر وہ شہباز شریف کی ذات پر اس قدر اعتماد کرتے تھے اور انہوں نے اس یقین پر مہر ثبت کی کہ جب شہباز شریف عوامی فلاح کے بے شمار منصوبے ریکارڈ مدت میں مکمل کر سکتا ہے تو اگر بجلی اس کے اختیار میں ہوتی تو وہ اس کے حوالے سے سب سے پہلے لائحہ عمل ترتیب دیتا اور ریکارڈ مدت میں اسے مکمل کر کے اپنے صوبے کے لوگوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتا۔
اپنے سابقہ دورِ حکومت میں شہباز شریف صاحب نے صرف ترقیاتی منصوبوں پر توجہ نہیں دی بلکہ صوبے کے تمام امور کے حوالے سے صحت مند کلچر کو متعارف کرایا ہے۔ آج جب وہ تیسری بار وزیر اعلیٰ منتخب ہو چکے ہیں تو ان کا مقابلہ اور موازنہ خود ان کی اپنی ذات سے ہی ہے یعنی ان کا گزشتہ پانچ سالہ دور ہی ان کے مدمقابل ہے۔ انہوں نے اپنی ہی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا ہے۔ شہباز شریف کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ انہوں نے نیک نیتی، حرکت، جنون اور دیانتداری صرف اپنے تک محدود نہیں رکھی بلکہ اپنے سیاسی رفقائے کار اور بیوروکریٹس میں بھی منتقل کی اور یوں ایک ایسی ٹیم وجود میں آ گئی جن کا مشن سانجھا اور نیت میں اخلاص تھا۔ انہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں دن اور رات کی تفریق ختم کر کے طویل المیعاد منصوبوں کو محدود مدت میں مکمل ہونے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ آج پاکستان کا جو حال ہے اس میں ہر شخص کے دل میں شہباز شریف جیسا جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے پھر ہی ان چیلنجز کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ وہ اپنے اس دورِ حکومت میں وقت کے بڑے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے ایک شاندار مثال بنا کر دیگر صوبوں کے لوگوں اور رہنماؤں میں بھی کام اور خدمت کی تحریک پیدا کریں گے۔ اگر وہ پہلے پچیس گیندوں پر سنچری کر کے سر فہرست ہیں تو اب سترہ گیندوں پر چھکے لگا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کر سکتے ہیں۔
پاکستان وسائل کے حوالے سے مالا مال ہے اور ہمارے لوگ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مسائل کی حاکمیت سمجھ نہیں آتی۔ حکومتیں مسائل سے گبھراتی نہیں بلکہ ان کا حل تلاش کرتی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ موجودہ حکومت بھی عام لوگوں کی زندگی میں ٹیکس کے نام پر مزید مشکلات پیدا کرنے کے بجائے اپنے وسائل کو استعمال میں لانے کی تگ و دو کرے گی۔ اس وقت جب وسائل کے ساتھ ساتھ اپنے احساس، نیک نیتی اور تعمیر وطن کے جذبے کو متحرک کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے تو آئیے ہم بھی اس عمل میں اپنا حصہ ڈالیں۔
تازہ ترین