• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ضابطہ دیوانی ترمیمی آرڈیننس کیخلاف تفصیلی فیصلہ جاری

لاہور ہائی کورٹ نے ضابطہ دیوانی ترمیمی آرڈیننس کے خلاف تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا، عدالتِ عالیہ نے ضابطہ دیوانی میں ترمیم کا آرڈیننس غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیا تھا۔

عدالتِ عالیہ کے جسٹس شاہد کریم نے پنجاب بار کونسل کی درخواست پر تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضابطہ دیوانی کے ترمیمی آرڈیننس نے سائلین کے حقوق کا گلا گھونٹ دیا، ضابطہ دیوانی میں ترمیم کیلئے لاہور ہائی کورٹ سے بھی رائے نہیں لی گئی۔

عدالتِ عالیہ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاق یا وزیرِ اعظم کی قانون سازی کیلئے ہدایات دینا صوبے کے اختیارات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے، وزیرِ اعظم کا صوبے کو قانون سازی کیلئے ہدایت کرنا نا صرف غیر قانونی بلکہ اختیار کا آمرانہ استعمال بھی ہے۔


فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم کی ہدایات کو بلا عذر تسلیم کرنا پنجاب کی غلامی کو ظاہر کرتا ہے، پنجاب کی گہری غلامی آئین میں صوبوں کی خود مختاری کے تصور کے خلاف ہے، وزیرِ اعظم کی پنجاب کو قانون سازی کیلئے دی گئی ہدایات غیر قانونی ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ پنجاب کا وفاقی حکومت کی ہدایات پر عمل کرنا بھی صوبے کی خود مختاری کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے، پنجاب نے وفاق کے حکم پر عمل کر کے ناصرف صوبائی اختیار ترک کیا بلکہ حقوق پر بھی سمجھوتہ کیا۔

جسٹس شاہد کریم نے فیصلے میں کہا ہے کہ ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ جس ملک کا آئین تحریری ہو اس کا مطلب ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو، قانون ساز کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتے کہ مخصوص فرد اس سے استثنیٰ حاصل کر لے، پاکستان میں تمام مجاز حکام کو قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضابطہ دیوانی ترمیمی آرڈیننس نے قانون کے استحکام کو بڑے خطرے سے دو چار کیا، آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار پتھر پر لکیر کی مانند نہیں بلکہ ایگزیکٹو آرڈر کو ریت پر الفاظ لکھنے کے مترادف ہے، ریکارڈ سے ظاہر ہوا کہ ترمیمی آرڈیننس کا ڈرافٹ بھی وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کو دیا۔

عدالت نے تحریری تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ ترمیم سے قبل پنجاب حکومت نے ڈرافٹ پر از خود کوئی غور و خوض نہیں کیا تھا، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ترمیمی آرڈیننس کی سمری کی دستاویزات کو ہم آہنگ نہ کر سکے، ترمیمی آرڈیننس ایک غیر مضبوط طریقے سے تشکیل دیا گیا۔

فیصلے میں بتایا گیا ہےکہ ضابطہ دیوانی میں ترامیم کا آرڈیننس لانے کیلئے ایک ہفتے میں تمام کارروائی مکمل کی گئی، آئین میں وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں کو چلانے کیلئے اختیارات کے دائرہ کار بھی وضع کیئے گئے ہیں، آئینی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے وفاق صوبوں کے معاملات میں تجاوز نہیں کر سکتا۔

عدالتِ عالیہ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ محکمہ قانون و انصاف اور پارلیمانی امور نے وزیرِ اعظم کی ہدایت پر عمل کیا اور ڈاک خانے کا کردار ادا کیا، محکمہ قانون و انصاف اور پارلیمانی امور نے ضابطہ دیوانی ترمیمی آرڈیننس کے مسودے پر غورو خوض ہی نہیں کیا، گورنر صرف اسمبلی کے سیشن کی عدم دستیابی یا انتہائی ناگزیر حالات میں آرڈیننس جاری کر سکتا ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ضابطہ دیوانی میں ترامیم کا آرڈیننس جاری کرنے کی سمری سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیرِ اعظم کی خواہش پر آرڈیننس جاری کیا گیا، وزیرِ اعظم کی غربت سیکٹر سے متعلق میٹنگ میں خاص طور پر پنجاب میں نئی قانون سازی کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔

جسٹس شاہد کریم نے اپنے تفصیلی فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ رولز آف بزنس کے تحت قانون سازی کیلئے چیف سیکریٹری کا کردار بھی اہم ہوتا ہے، عدالت میں ایسی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں جن سے ثابت ہو کہ چیف سیکریٹری نے رولز آف بزنس کے تحت ذمے داریاں ادا کیں۔

تازہ ترین