سندھ کی سیاست گرچہ پی پی پی کی گرد گھومتی ہے تاہم شہری علاقوں خصوصتاً کراچی کی سیاست میں بڑااسٹیک رکھنے والی جماعتیں پی پی پی کی اپوزیشن میں شامل ہوتی ہیںچاہے وہ جماعتیں اسمبلی کے اندر ہو یا اسمبلی کے باہر سندھ کے مسائل اجاگر کرنے پرپی پی پی کو سندھ کارڈ کاطعنہ ملتاہے تو ایم کیو ایم، مہاجرقومی موومنٹ، پاک سرزمین پارٹی کو مہاجرکارڈ کا طعنہ دیاجاتا ہے گزشتہ ہفتے سندھ کی تقریباً تمام قوم پرست جماعتوں نے ایک معروف بزنس مین کے پروجیکٹ پر سندھ کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی دھرنا دیا۔
جس سے سپرہائی وے پر ٹریفک کئی گھنٹوں معطل رہا ان رہنماؤں کی جماعتیں سندھ ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے احتجاج کررہی تھیں اسی دوران بعض عناصر نے اس احتجاج کو پرتشدد بنادیا ۔رہائشی پروجیکٹ کی عمارتوں سمت گاڑیوں کو آگ لگائی جس پر ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں رکن صوبائی اسمبلی خواجہ اظہارالحسن نے پریس کانفرنس میںچیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے مطالبہ کیا کہ آئی جی سندھ اور چیف سیکریٹری سندھ کو صوبہ بدرکیا جائے، واقعے میں ملوث افراد کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات درج کئے جائیں ۔
وفاقی وزیر امین الحق نے کہاکہ مذکورہ پروجیکٹ پر لشکرکشی کی گئی ہے ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔جاوید حنیف نے کہاکہ جو کچھ ہوا وہ قصبہ ، علی گڑھ، حیدرآباد مارکیٹ اور 27 دسمبر 2007 کے واقعات کا تسلسل ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد نے ہنگامی پریس کانفرنس میں کہاکہ مجھے نہیں معلوم کہ قوم پرستوں کی کتنی زمین کا کلیم ہے۔اگر قبضہ کیا گیا تھا تو سندھ حکومت کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کیا گیا۔
جو لوگ وہاں سے گزر رہے تھے ان کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ملک مخالف نعرے لگائے گئے۔آفاق احمد نے کہا کہ جو کچھ ہوا سندھ حکومت کی مرضی سے ہواہے۔آج مہاجر قوم فیصلہ کرے کہ کے الیکٹرک بھاری بل دے اور آپ ان کے خلاف احتجاج نہیں کر سکیں۔سپر ہائی وے پر لوگوں کی مادری زبان پوچھ کر تشدد کیا گیا۔اس واقعہ پر مہاجر قوم سوچے۔آفاق احمد نے کہا کہ اب یہ سوچنا ہے کہ ایک شخص کی غلطی پر سب کو نشانہ بنایا گیا۔اب فیصلہ کرنا ہے کہ اسی طرح ظلم پر خاموش رہنا ہے؟۔خود کو تقسیم کرکے رہنا ہے؟ پاک سرزمین پارٹی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ کئی روزبیشتر احتجاجی مظاہرے کے بارے میں معلومات ہونے کے باوجود کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ احتجاجی مظاہرے کے شرکاء کو پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی۔ آج کے افسوسناک واقعے نے ثابت کردیا کہ جیئے سندھ تنظیم پیپلز پارٹی کا ملٹری ونگ ہے۔ امن و امان کو بگاڑنے اور حالات کو سنبھالنے میں ناکامی پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی مجرمانہ نااہلی کا ثبوت ہے۔ عوام کو کئی گھنٹوں تک محصور اور دہشت زدہ کرنے میں پیپلز پارٹی کا کردار شرم ناک ہے۔پاک سر زمین پارٹی مطالبہ کرتی ہے کہ جمہوری احتجاج کے نام پر اربوں روپے کی نجی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کیخلاف ناصرف سخت ترین کارروائی کی جائے بلکہ مجرمانہ غفلت کی مرتکب سندھ حکومت جملہ نقصانات کا معاوضہ ادا کرے۔
جماعت اسلامی نے بھی ان واقعات کی مذمت کی ہے۔ان واقعات سے خدشہ ظاہرکیا جارہا ہے کہ کہیں سندھ کارڈ اور مہاجر کارڈ کے نام پر ایک بار پھر سندھ میں لسانی جھگڑوں کا سلسلہ شروع ناہوجائے ارباب اختیار اس ضمن میں کیا حکمت عملی بناتے ہیں ۔ ادھر تاجروں کے وفد سے ملاقات کے بعد ایم کیوایم کے کنوینرخالدمقبول صدیقی اور عامرخان نے کہا کہ شہرکراچی کو ڈاکوؤں، لیٹروں ، رشوت خوروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، شہر کو پیپلز پارٹی کی متعصب اور ظالمانہ حکومت کے حوالے کردیا گیا ، تاجربرادری نے مطالبات سامنے رکھے ہیں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ان کے ساتھ ہے اس میں گورنر راج کا بھی مطالبہ سامنے آیا ہے میرا وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف سے سوال ہے کہ گورنرراج کے نفاذ کا اختیار آئین میں کیوں درج ہے اور یہ کب استعمال ہوگا، اگر کسی ملک کو تباہ کرنا ہوتو اس کے لیے پیپلزپارٹی جیسی بدعنوان اور متعصب حکومت ہی کافی ہے۔ یہ واقعات اور بیانات سندھ کے شہری اور دیہی عوام کے درمیان فاصلے بڑھارہے ہیں۔
ادھر پانی کے مسئلے پر سندھ حکومت تاحال مطمئن نہیں۔ پی پی پی سندھ کے صدر نثارکھوڑو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہاکہ سندھ کے ساتھ وفاق زیادتی کررہا ہے۔ ارسا چیئرمین کو ہٹا کر سندھ سے ارسا چیئرمین تعینات کیا جائے گڈوبیراج کا دورہ کرتے ہوئے صوبائی وزیر آبپاشی سہیل انور سیال نے کہاکہ ارسا نے ایک ہفتے کےدورن سندھ کا 37فیصد پانی کم کردیا ہےجبکہ پانی کی قلت کے خلاف لاڑکانہ، بدین اور ٹنڈومحمدخان میں پی پی پی نے احتجاجی مظاہرے کئے۔ دوسری طرف کراچی میں قلت آب پر اپوزیشن سندھ حکومت کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔
پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے پارٹی ذمہ داروں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پی پی پی حکومت نے سندھ کو کربلابنادیا ہے۔ پی پی کی متعصب حکومت سندھ کے 50 فیصد آبادی والے شہر کو صرف 540 گیلن پانی فراہم کرتی ہے۔ جبکہ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے احتجاج کرتے ہوئے کراچی کو "پانی دو پانی ــ"کے نعرے لگائے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرحلیم عادل شیخ نے کہاکہ پورے سندھ میں پانی کا ایشو ہے۔
مگر کراچی کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں دوسری جانب سندھ کابینہ نے سرکاری ملازمین کے جلد ریٹائرمنٹ پر پابندی عائد کرتے ہوئے تجویز دی ہے اورریٹائرمنٹ لینے کے لیے 25 سال کی سروس اور 55 سال کی عمرمقرر کی ہے جبکہ پینشن اصلاحات منظور کرتے ہوئے پینشن فیملی ارکان تک محدود کرنے اور آخری تنخواہ کے بجائے تین سال کی اوسط تنخواہ کے حساب سے لگانے کا کہا ہے وزیراعلیٰ سندھ کا موقف ہے کہ اس سے واجبات کا بوجھ کم ہوگا۔