• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین کی بجٹ تقریر کے اہم نکات


وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین قومی اسمبلی میں مالی سال 22-2021ء کا وفاقی بجٹ پیش کررہے ہیں۔

وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین کی بجٹ تقریر کے اہم نکات درج ذیل ہیں:۔

  • وفاقی بجٹ کا حجم 8 ہزار 487ارب روپے رکھا گیا ہے، 20 ارب کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اپریل 2021ء میں سرپلس کیا گیا۔
  • عمران خان کی قیادت میں معیشت کو کئی طوفانوں سے نکال کر ساحل تک لائے، احساس پروگرام کی نقد امداد میں اضافہ کیا، ہم استحکام سے معاشی نمو کی جانب گامزن ہوئے ہیں۔
  • حکومت ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں کامیاب ہوئی ہے، معاشی ترقی ہر شعبے میں ریکارڈ کی گئی ہے۔
  • کپاس کے علاوہ تمام فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔
  • سروسز شعبے میں نمایاں اضافہ ہوا، جس سے غربت میں کمی آئی۔
  • کورونا وائرس کی تیسری لہر میں بڑے پیمانے پر کاروبار کی بندش سے اعتراض کیا، ماضی میں حکومت کو اس طرح کے برے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
  • فی کس آمدنی میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے، کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے ماہانہ کی جارہی ہے، وفاقی سرکاری ملازمین کو 10 فیصد ایڈہاک ریلیف فراہم کیا جائے گا، تمام پنشنرز کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا، اردلی الاؤنس 14 ہزار روپے سے بڑھا کر ساڑھے 17 ہزار روپے کیا جارہا ہے۔
  • لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کے شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔
  • کورونا وائرس کی وباء کے باوجود فی کس آمدنی میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔
  • اس سال ایکسپورٹ میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔
  • ملک میں ٹیکسوں کی وصولی 4 ہزار ارب کی نفسیاتی حد عبور کر چکی ہے، ٹیکس وصولیوں میں 18 فیصد بہتری آئی ہے، ٹیکس ری فنڈ کی ادائیگی میں 75 فیصد اضافہ کیا ہے، اس سال ایکسپورٹ میں شاندار نمو دیکھنے میں آئی۔
  • ترسیلاتِ زر میں 25 فیصد ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، روپے کی قدر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
  • الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح میں 17 فیصد سے ایک فیصد تک کمی۔
  • کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2018ء میں ایک بہت برا چیلنج تھا اس پر قابو پالیا گیا ہے۔
  • اوورسیز پاکستانیوں نے کھاتوں میں بہتری لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
  • کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سرپلس ہو گیا ہے۔
  • بیرونِ ملک سے ترسیلات میں اضافہ عمران خان کی قیادت پر اعتماد ہے۔
  • ٹیلی مواصلات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں 17 فیصد سے 16 فیصد کمی کی تجویز ہے۔
  • بیرونِ ملک سے ترسیلات میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
  • گزشتہ سال کے مقابلے میں خام تیل کی قیمت میں 180 فیصد اضافہ ہوا۔
  • چینی کی قیمت میں بین الاقوامی سطح پر 56 فیصد اضافہ ہوا، ملکی سطح پر چینی کی قیمت میں 18 فیصد اضافہ ہوا۔
  • روزگار کے مواقع پیدا کریں گے، برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا۔
  • کنسٹرکشن انڈسٹری سے وابستہ صنعتوں کو فروغ ملا ہے۔
  • ہاؤسنگ اسکیموں کیلئے ٹیکسوں میں رعایت کا پیکیج وضع کیا گیا ہے۔
  • کم آمدنی والوں کیلئے گھروں کی تعمیر کیلئے 3 لاکھ کی سبسڈی دی جارہی ہے، بینکوں کو مکانات کی تعمیر کیلئے ایک سو ارب روپے قرض کی درخواست ملی ہے۔
  • مکانات کی تعمیر کیلئے 70 ارب روپے کی منظوری ہو چکی ہے، ادائیگی جاری ہے، اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ رہائشی مکانات کی کمی ہے، ہم تاریخ کا رخ موڑنا چاہتے ہیں۔
  • کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے لیے 739 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، وفاقی حکومت کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے لیے 98 ارب روپے دے گی، کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے لیے سرکاری و نجی شعبے کے اشتراک سے 509 ارب روپے شامل ہوں گے۔
  • داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے 2160 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے 8 اعشاریہ 5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، اس پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لیے 57 ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں۔
  • تین بڑے ڈیموں داسو، بھاشا اور مہمند کی تعمیر ہماری ترجیح ہوگی، دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 23 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، مہمند ڈیم کے لیے 6 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے لیے 14 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، آبی تحفظ کے لیے 91 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
  • احساس پروگرام کے تحت ایک درجن سے زائد پروگراموں کا آغاز کیا گیا ہے۔
  • زرعی شعبے کے لیے 12 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، ٹڈی دل اور فوڈ سیکیورٹی پراجیکٹ کے لیے 1 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
  • چاول، گندم، کپاس، گنے اور دالوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے 2 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، زیتون کی کاشت بڑھانے کے لیے 1 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
  • کسانوں کو 31سو ارب روپے آمدن ہوئی جو گزشتہ سال 23 سو ارب روپے تھی، گندم، گنے، چاول کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، اگلے سال زرعی شعبے کیلئے 12 ارب روپے مختص کیئے ہیں۔
  • ترقیاتی بجٹ کو 630 ارب سے بڑھا کر 900 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے، ترقیاتی بجٹ میں 40 فیصد سے زیادہ کا اضافہ کر رہے ہیں۔
  • اگلے دو سے تین سال میں 6 سے 7 فیصد گروتھ کے اقدامات کر رہے ہیں، اگلے مالی سال کے لیے معاشی ترقی کا ہدف 4 اعشاریہ 8 فیصد رکھا ہے۔
  • تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، طاقت ور گروپس کو ملنے والی ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ کیا جائے گا۔
    • مقامی تیار گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کر کے 12 اعشاریہ 5 فیصد کی جا رہی ہے۔
    • مقامی تیار گاڑیوں پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے، 850 سی سی گاڑیوں کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں چھوٹ اور سیلز ٹیکس میں کمی کی جا رہی ہے۔
    • پہلے سے بننے والی گاڑیوں اور نئے ماڈل بنانے والوں کو ایڈوانس کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دیا جا رہا ہے۔
    • زرعی آلات اور 850 سی سی گاڑیوں کی درآمد کو بھی ودہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دینے کی تجویز ہے۔
    • درآمد شدہ 850 سی سی تک کی گاڑیوں پر کسٹم اور ریگولیٹری ڈیوٹی پر چھوٹ دی جا رہی ہے۔
    • ایم ایل ون پیکیج تھری کا آغاز جولائی 2022ء میں ہو گا، ایم ایل ون منصوبہ 9 ارب 30 کروڑ ڈالر کی لاگت سے مکمل ہو گا۔
    • سندھ کے 14 سے زائد اضلاع کی ترقی کیلئے 444 ارب روپے سے 107 منصوبے مکمل ہوں گے۔
    • خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع کی ترقی کو حکومت خاص اہمیت دیتی ہے، نئے ضم شدہ اضلاع کی ترقی کیلئے 54 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
    • پھلوں کے رس پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔
    • جون 2022ء تک 10 کروڑ لوگوں کو ویکسینیٹ کرنے کا ٹارگٹ ہے، 1.1 بلین ڈالر ویکسین کی درآمد پر خرچ کیے جائیں گے۔
    • اگلے سال کا مالی خسارہ 6 اعشاریہ 3 فیصد ہونے کی توقع ہے، اس وقت بجٹ خسارہ 7 اعشاریہ 1 فیصد ہے۔
    • آئی ٹی زون کے لیے پلانٹ، مشینری، ساز و سامان اور خام مال پر ٹیکس چھوٹ کی تجویز ہے۔
    • زرعی اجناس کے گوداموں کو ٹیکس چھوٹ دینے کی تجویز ہے۔
    • ای کامرس کو سیلز ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کی تجویز ہے۔
    • تین منٹ سے زائد جاری رہنے والی موبائل فون کالز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی جارہی ہے، انٹرنیٹ ڈیٹا کے استعمال اور ایس ایم ایس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ کی جارہی ہے۔
    • وفاقی اخراجات 8497 روپے ہیں، اخراجات میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
    • چینی کو تھرڈ شیڈول میں شامل کرنے کی تجویز ہے۔
    • سیالکوٹ تا کھاریاں، سکھر تا حیدر آباد موٹر وے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔
    • پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔
    • انکم ٹیکس اتھارٹی کے صوابدیدی اختیارات میں کمی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
    • خیبر پختون خوا میں ضم ہونے والے فاٹا کے اضلاع کی ترقی کے لیے 54 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
    • بجلی کی ترسیل کے منصوبوں کے لیے 118 ارب روپے رکھے گئے ہیں، اسلام آباد اور لاہور میں بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کے لیے ساڑھے 7 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
    • ودہولڈنگ ٹیکس رجیم میں 40 فیصد کمی کی تجویز ہے۔
    • موبائل فونز پر موجودہ ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 12 اعشاریہ 5 سے کم کر کے 10فیصد کرنے کی تجویز ہے، موبائل سروسز پر ودہولڈنگ ٹیکس 8 فیصد تک بتدریج کم کیا جائے گا۔
    • 25 فیصد اضافی رقوم صوبوں کو فراہم کی جائیں گی۔
    • کیپٹل گین ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 12 اعشاریہ 5 فیصد کر دی جائے گی۔
    • کتابوں، رسالوں کی درآمدات کو ودہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دینے کی تجویز ہے۔
    • کامیاب پاکستان پروگرام کیلئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
    • اعلیٰ تعلیم کیلئے 66 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
    • آزاد جموں کشمیر کیلئے 60 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
    • نئی مردم شماری کیلئے وفاقی حکومت کی طرف سے 5 ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے۔
    • خصوصی اقتصادی زونز انٹر پرائزز کو کم از کم ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی۔
    • اسپیشل ٹیکنالوجی زون اتھارٹی، زون ڈیولپرز اور انٹرپرائزز کے لیے 10سالہ ٹیکس چھوٹ دینے کی تجویز ہے۔
    • کیپٹل گڈز کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ کی تجویز ہے۔
    • چھوٹے کاروبار کو سہولت دینے کے لیے سالانہ ٹرن اوور کی حد ایک کروڑ کی جا رہی ہے۔
    • ہم ٹیکس گزاروں کا بھی تحفظ کریں گے۔
    • سیلف اسیسمنٹ اسکیم کو اس کی اصل شکل میں بحال کریں گے۔
      • ٹیکس گزاروں کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
      • بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے ایک سال تک کسٹم ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے۔
      • مقامی تیار ہیوی موٹر سائیکل، ٹرک اور ٹریکٹر کی مخصوص اقسام پر ٹیکسوں کی کمی کی تجویز ہے۔
      • امیروں کو کہا جائے گا کہ اپنے حصے کا واجب الادا ٹیکس ادا کریں۔
      • ٹیکس نظام کو مزید سادہ بنانے کے لیے سادہ ٹیکس ریٹرن فارم اور نئے قوانین لا رہے ہیں۔
      • سیلز ٹیکس اور ایف ای ڈی میں اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
      • ملک میں خصوصی ٹیکنالوجی زونز قائم کیے جا رہے ہیں۔

اس سے قبل پیش کی گئی بجٹ دستاویز کے مطابق مالی سال 22-2021ء کےبجٹ کا حجم 8487 ارب روپے ، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5829 ارب روپے، نان ٹیکس ریوینیو کی وصولی کا ہدف 2080 ارب روپے، مجموعی ٹیکس اور نان ٹیکس ریوینیو کا ہدف7909 ارب روپے رکھا گیا ہے۔

دستاویز کے مطابق بینکنگ سیکٹر سے حکومت بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے 681 ارب روپے قرض لے گی، بینکنگ اور نان بینکنگ سیکٹر سے حکومت 1922 ارب روپے قرض حاصل کرے گی، وفاقی حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 7523 ارب روپے ہوگا۔

ملکی و غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی پر 3060 ارب روپے خرچ ہوں گے، حکومت مجموعی طور پر 1246 ارب روپے مالیت کے غیر ملکی قرضے لے گی، نئے مالی سال میں حکومت 2417 ارب روپے مالیت کے ملکی قرضے حاصل کرے گی، عالمی مالیاتی اداروں سے 369 ارب روپے حاصل کیئے جائیں گے۔

عالمی کمرشل بینکوں سے 877 ارب روپے حاصل کیئے جائیں گے، سول اور ملٹری کی مجموعی پینشن کا حجم480 ارب روپے ہوگا، دفاعی بجٹ کےلیے 1370 ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں، صوبوں کی ترقیاتی اور غیر ترقیاتی گرانٹس کےلیے 1168ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں۔

بجلی، گیس، کھانے پینے کی اشیاء سمیت تمام شعبوں کے لیے سبسڈی کا بجٹ 682 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، سول حکومت کے اخراجات کے لیے 479 ارب روپے مختص کر دیئے گئے ہیں، کورونا وائرس کی وباء کی روک تھام اور دیگر ہنگامی اخراجات کے لیے 100 ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں۔

وفاقی بجٹ میں صوبوں کی ترقیاتی اور غیر ترقیاتی گرانٹس کے لیے 1168 ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں ، بجلی، گیس، کھانے پینے کی اشیاء سمیت تمام شعبوں کے لیے سبسڈی کا بجٹ 682 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، سول حکومت کے اخراجات کے لیے 479 ارب روپے مختص کر دیئے گئے ۔

تنخواہوں اور دیگر مراعات کے لیے 160 ارب روپے مختص کر دیئے گئےہیں، ترقیاتی بجٹ کے لیے 964 ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں، وفاقی سالانہ ترقیاتی پروگرام 900 ارب روپے ہوگا، صوبوں کو قرض کی مد میں 64 ارب روپے ادا کیے جائیں گے۔

قومی اداروں کی نجکاری سے نئے مالی سال میں 252 ارب روپے حاصل کرنے کا ہدف دیا گیا ہے، نئے مالی سال میں مجموعی اخراجات کا تخمینہ بھی8487 ارب روپے ہوگا۔

تازہ ترین