گزشتہ دنوں دنیا کے طاقتور اقتصادی اور جمہوریت کے علمبردار جی سیون ممالک کاسربراہی اجلاس برطانیہ کے ساحلی علاقے کارن وال میں منعقد ہوا ، عالمی معاشی قوت کے حامل ان ممالک میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی ، اٹلی اور فرانس شامل ہیں،عالمی وباء کورونا کے تناظر میںمذکورہ اجلاس کا مقصد عالمی دنیا کو درپیش مسائل کے حل کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنا تھا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس اجلاس کے درپردہ مقاصدمیں چین کی ابھرتی ہوئی قوت کے سامنے بند باندھنا شامل تھا، امریکہ نے جی سیون کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر چین کے عالمی معیشت پر بڑھتے اثر ورسوخ کو ختم کرنے کے حوالے سے مختلف موضو عات پر تبادلہ خیال کیا، جی سیون کے زیادہ ترسربراہی اجلاس بند کمرے میں ہی کئے جاتے ہیں لیکن میڈیا کے توسط سے جو خبریں منظرعام پر آئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ نے چین کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ رواں صدی کا سب سے بڑا اقتصادی منصوبہ ہے، تاہم جی سیون اجلاس کے دوران امریکہ نے چین کے مدمقابل کھربوں ڈالر کی لاگت کا بی تھری ڈبلیو منصوبہ لانچ کرنے کا اعلان کردیا ہے جو مختلف ممالک میں انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے تعاون فراہم کرے گا، امریکہ کی زیرسرپرستی اس منصوبے کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا متبادل قرار دیا جارہا ہے،عالمی مبصرین کے مطابق ترقی پذیر ممالک پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو ترک کرکے امریکہ کے بی تھری ڈبلیو منصوبے کا حصہ بنیں۔ جی سیون کے حالیہ اجلاس میںامریکہ اور مغربی ممالک نے انسانی حقوق کے تحفظ کی آڑ میں اپنا پرانا روایتی ہتھیار بھی استعمال کیا ہے جسکا نشانہ ترقی پذیر ممالک کو بنایا جاتا رہا ہے، حکومت چین کی جانب سے لندن میں موجود چینی سفارتخانے نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بیان جار ی کیا ہے کہ وہ دن کب کے چلے گئے جب چھوٹے ممالک کے گروہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے، چینی سفارتخانے کے مطابق عالمی سطح پر چھوٹے بڑے ، مضبوط، کمزور، امیر اور غریب ہر طرح کے ملک برابر ہیں اور عالمی امور میں تمام ممالک کی مشاورت کے بعد فیصلے ہونے چاہئے، چین کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ عالمی برادری بالخصوص جی سیون ممالک چین کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔بلاشبہ آج امریکہ کو اکیسویں صدی کی واحد سپرپاور کی حیثیت سے دنیا کی نمبر ون اقتصادی قوت کا درجہ حاصل ہے لیکن چین اپنی تیزرفتار اقتصادی ترقی کی بدولت موجودہ دہائی 2030ء کے اختتام تک دنیا کی نمبر ون اقتصادی قوت بن جائے گا،اس نے جس احسن انداز میں عالمی وباء کورونا کے پھیلاؤ کا مقابلہ کیا ہے وہ پوری دنیا کے ممالک کیلئے قابلِ تقلید مثال ہے، یہی وہ چند وجوہات ہیں جس سے موجودہ سپرپاور سمیت مغربی عالمی قوتیں چین سے خائف نظر آتی ہیں۔ میں پہلےبھی عرض کرچکا ہوںکہ امریکہ میں حکومت ضرور بدل جاتی ہے لیکن امریکہ کی حکومتی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں آتی۔اگرچہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بہت سی متنازع پالیسیوں کو ختم کیا لیکن چین کے حوالے سے امریکی بیانیہ تبدیل نہیں ہوا بلکہ چین مخالفت کا عنصرمزید نمایاں ہواہے ، امریکہ اب کھل کر چین کو ٹف ٹائم دینے کا ارادہ رکھتا ہے جیسا کسی زمانے میں سویت یونین کے خلاف کیا جاتا تھا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ نے چین کو اپنے مدمقابل سپرپاورحریف تسلیم کرلیا ہے اوراب وہ علاقائی سطح پر بھی چین مخالف اتحادی گروپ بنا رہا ہے ،جی سیون اجلاس میں امریکہ نے چین پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیو ں اور غریب ممالک کو مقروض بنانے جیسے الزامات بھی لگائے ہیں، نیٹو بھی چین کی بڑھتی ہوئی عسکری قو ت کو علاقائی امن واستحکام کیلئے خطرہ قرار دے رہا ہے،امریکی سینیٹ نے حالیہ دنوں میں چین کی ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے کا بل منظور کیا ہے جس کی تائید امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی کی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ دو عالمی طاقتوں کے مابین چپقلش کی قیمت ترقی پذیر ممالک کو ادا کرنا پڑتی ہے، ابھی تک ہم دو عالمی جنگوں اور سرد جنگ کی تلخ یادوں کوبھلا نہیں پائے کہ دنیا ایک بار پھر نئے بلاکس میں تقسیم ہونے جا رہی ہے اور اس بار یہ عالمی جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور اقتصادی قوت سے لڑی جائے گی۔تاہم میری نظر میں یہ خوش آئندامر ہے کہ جی سیون کے تمام ممالک امریکہ کی چین مخالف پالیسیوں کے حامی نہیں ہیں، بیشتر مغربی ممالک کے چین سے اچھے اقتصادی تعلقات ہیں، یہی وجہ ہے کہ کانفرنس کے اختتام پر جی سیون ممالک کے کچھ سربراہان مملکت کو بیان دینا پڑا کہ جی سیون کانفرنس کا مقصدچین مخاصمت نہیں ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کیلئے سفارتی محاذ پر امریکہ اور چین دونوں ممالک نہایت اہمیت کے حامل ہیں، تاہم ہمارےلئے اولین ترجیح پاکستان کے قومی مفادات ہیں، ہم نے ماضی میںبھی عالمی امن کے قیام کیلئے بہت بھاری قیمت ادا کی ہیں اور اب بھی ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک سمیت عالمی برادری سے امن و احترام کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے کی پالیسی کو برقرار رکھنا چاہئے ، موجودہ حالات میںہمیں سفارتی محاذ پر بہت احتیاط اور سمجھداری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)