• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 28 جون 1963ء کا دن تھا۔ قومی اسمبلی کااجلاس ہورہا تھا۔ فنانس بل زیر بحث تھا۔ سردار بہادر خان اپوزیشن لیڈر تھے۔ وہ وقت کے آمرمطلق ایوب خان کے بھائی تھے اور بلوچستان میں ایجنٹ ٹو گورنرجنرل رہ چکے تھے۔ ایوان سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بلوچ عوام سے ہونیوالی زیادتیوں کی نشاندہی کی اور کہا ”مارشل لا کے دنوں میں کوئٹہ میں ایک عقوبت خانہ کھولاگیا۔ اس میں چار سو افراد کو ٹھونس دیا گیا۔ کیمپ کا انچارج بہت سخت گیر افسر تھا۔ قیدیوں کو سخت اذیتیں پہنچائی جارہی تھیں۔بجلی کے جھٹکے لگائے جارہے تھے۔ میں نے جی او سی سے شکایت کی مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔“ سردار بہادر خان نے نواب اکبر بگٹی کے خاندان کی حالت زار کی طرف حکومت کی توجہ دلائی۔ اکبربگٹی کو قتل کے مقدمے میں عمر قید کی سزا ہوئی تھی۔ تین سال بعد انہیں رہا کردیاگیا مگر چند ماہ بعد دوبارہ گرفتار کرکے باقی ماندہ سزا کاٹنے کا حکم دیاگیا۔ سردار بہادر خان نے کہا ”اکبر بگٹی ایک متمول قبائلی سردار ہیں مگر ان کاخاندان شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔ اسے اپنی زرعی زمینوں کی پیداوار بھی اٹھانے کی اجازت نہیں دی جارہی“ یہ پچاس سال پہلے کی بات ہے۔ قومیں وقت گزرنے کے ساتھ اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں۔ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتی ہیں۔ اپنی سمت درست کرتی ہیں اور قومی سلامتی ویکجہتی کو نقصان پہنچانے والے افعال کو روک کر اصلاح احوال کا راستہ نکالتی ہیں۔ اس کیلئے طاقت کی بجائے عقل کااستعمال‘ ہاتھ کی بجائے زبان سے کام لیناہوتا ہے۔ اگر ایساکیاجاتا تو آج بلوچستان امن وامان کا گہوارہ ہوتا۔ مزاحمت کاری کا وجود ہوتانہ عسکریت پسندی پھل پھول رہی ہوتی۔ ماضی دفن ہوچکا ہوتا اور بلوچ‘ پشتون‘ ہزارے اور آبادکار اس سرزمین کے روشن مستقبل کے ثمرات چن رہے ہوتے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے آج کوئی سردار بہادر خان کسی عقوبت خانے کی نشاندہی نہ کرے مگر ہزاروں نہ سہی سینکڑوں بھی نہ سہی‘ یہ جو درجنوں لوگوں کو اٹھاکر لاپتہ کردیا گیا ہے اور مسلسل لاپتہ کیاجارہا ہے۔ پھر ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کی مسخ شدہ لاشیں شاہراہوں اور ویرانوں سے ملتی ہیں۔ اس کی گواہی تو خود حکومت اور اس کی ایجنسیاں بھی دے رہی ہیں۔ پچاس سال پہلے والا سردار اکبر بگٹی اب اس دنیا میں نہیں مگر اس کے قبیلے کی حالت زار آج بھی ویسی ہی ہے۔ اس کا اپنا خاندان بکھرچکا ہے۔ اسکے بعض بیٹوں اور پوتوں کو اپنے گھر ڈیرہ بگٹی جانے کی اجازت نہیں۔ کوئی ڈھائی لاکھ یا اس سے کچھ کم بگٹیوں کو ڈیرہ بگٹی میں جان کی امان نہ ملی تو انہوں نے سندھ اور پنجاب کا رُخ کیا اور وہاں پناہ گزینوں کی زندگی گزاررہے ہیں۔ ان میں سے بعض نے اسلام آباد میں پرامن احتجاجی کیمپ لگارکھا ہے۔ گویا پچاس سال بعد بھی بگٹیوں کا مقدر بدلا نہ بلوچوں کو امن نصیب ہوا۔ ایسے میں صوبے کے درویش صفت وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال انتہائی خراب ہے لیکن جمہوری قوتوں کی مدد سے اس پر قابو پالیاجائیگا۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اس وقت کئی طرح کے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ انہیں ایک طرف علیحدگی پسندوں اور ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کا ”کوہ ہمالیہ“ سرکرنا ہے تو دوسری طرف صوبے کو پسماندگی‘ بدحالی‘ بدامنی اور غربت کے گرداب سے نکالنا ہے۔یہ دونوں مقاصد وفاقی حکومت اور اداروں کی عملی معاونت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ مسائل بنیادی طور پر اسلام آباد ہی کی غیرحقیقی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ بلوچستان اس وقت بدامنی خونریزی اور بدحالی کے جس دور سے گزر رہا ہے اس پر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں۔ لوگ ڈاکٹر مالک سے اس معاملے میں ”معجزے“ دکھانے کی توقع کر رہے ہیں لیکن جب تک وفاقی حکومت اور عسکری قیادت مسائل کے درست تجزیے کے ساتھ ان کیساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چلتی کوئی معجزہ ظہور پذیر نہیں ہو گا۔ اس حوالے سے سب سے پہلے عوام کا اعتماد بحال کرنا ہو گا جو سردار اختر مینگل کے چھ نکات پر توجہ دیئے بغیر ممکن نہیں۔ ڈاکٹر مالک اور ان کی نیشنل پارٹی ان نکات کی حمایت کر چکی ہے اور حکومت کی دوسری پارٹیاں بھی اس کی ہمنوا ہیں۔ اختر مینگل کے بیشتر نکات ایسے ہیں جو فوری اقدامات کے متقاضی ہیں۔ ڈاکٹر مالک کو کامیاب بنانے کیلئے یہ اقدامات کرنا ہی ہونگے ورنہ حالات مسلسل بگڑتے رہیں گے اور قوم پرستوں کو حکومت دینے کا تجربہ بھی ناکامی سے دوچار ہو گا۔ ڈاکٹر مالک کیلئے ایک اور مشکل کام اتحادی پارٹیوں کو یکجا رکھنا اور ان کے مطالبات پورے کرنا ہے۔ کہنے کو تو یہ سب پارٹیاں متحد اور متفق ہیں۔حکمرانی اور پالیسی سازی سمیت تمام حقوق واختیارات کا حصول ان کا مشترکہ ایجنڈا ہے مگر عملی صورتحال یہ ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کے نام کا بھی فیصلہ نہ کرسکیں۔ اتفاق بالآخر اس بات پر ہوا کہ یہ فیصلہ وزیراعظم نواز شریف خود کریں۔ گویا جو لوگ اسلام آباد سے فیصلہ سازی کا حق چھیننے کیلئے لڑتے آئے ہیں۔ خود یہ حق اسلام آباد کے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئے۔ وزیراعلیٰ کو حلف اٹھائے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے مگر ابھی تک کابینہ تشکیل نہیں دی جاسکی۔ بجٹ کی منظوری کیلئے تین وزیر ہنگامی طور پر مقرر کئے گئے۔ وزیراعلیٰ نے باقی وزیروں کی نامزدگی اتحادی پارٹیوں کی صوابدید پر چھوڑ دی ہے جنکے اندر اب لڑائی ہورہی ہے کہ کس کو وزیر بنایاجائے اور کس کو چھوڑ دیاجائے۔
دراصل بلوچستان میں لوگ الیکشن لڑتے ہی وزیر بننے کیلئے ہیں۔ اپوزیشن میں بیٹھنے کا کسی میں حوصلہ ہی نہیں الایہ کہ حالات کا جبر اسے وہاں نہ بٹھادے۔ نواب رئیسانی نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تقریباً سب کو وزیر بنادیا تھا۔ اب آئینی پابندی کی وجہ سے سب لوگ وزیر نہیں بن سکتے۔ اس لئے کابینہ کو حتمی شکل دینے میں مشکلات درپیش ہیں اور شنید یہ ہے کہ یہ حق بھی اسلام آباد کو دیاجانیوالا ہے۔ وزیروں کے ناموں کا فیصلہ بھی شاید نواز شریف ہی کریں گے۔ پچھلی حکومت میں اپوزیشن تھی نہ اپوزیشن لیڈر۔ جمعیت علمائے اسلام نے پانچ سال حکومت میں رہنے کے بعد مناسب سمجھا کہ آخری چند روز اپوزیشن میں گزار لئے جائیں اور اپنا اپوزیشن لیڈر بنواکر نگران وزیراعلیٰ کی تقرری میں ہاتھ بٹایاجائے مگر تکنیکی مجبوریوں کی بناء پر ایسا نہ ہوسکا۔ موجودہ حکومت میں خواہش کے باوجود اسے جگہ نہ مل سکی۔ اس لئے وہ اپوزیشن میں بیٹھ گئی ہے۔ اس طرح اپوزیشن لیڈر کا منصب بالآخر اس نے حاصل کر لیا ہے۔
تازہ ترین