• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غریبوں کی بپتا۔افلاس کے نوحے۔بھوک کا برہنہ رقص۔جبر کے زنداں۔پیٹ کی آگ۔سیاست دانوں کے دل فریب نعرے، جھوٹے وعدے اور دعوے۔ دہائیوں کا چکر، مگر دھائیاں آج بھی ہر طرف۔یہ کیسا سماج ہے؟یہ تو آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جارہا ہے۔ امیر، امیر تر اور غریب ،غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ غریب کی آواز اس کے حلق کی تنگنائیوں میں پہلے سے کہیں زیادہ پھنسنےلگی ہے۔بلکہ اب تو اس کی سانس بھی اکھڑنے لگی ہے۔شاید اسی لیے ہمارے حکم را ںاب یہ نعرہ زیادہ شدت سے لگانے لگے ہیں کہ ملک سے غربت جلدختم ہوجائے گی۔ظاہر ہے کہ جب غریب ہی نہیں رہے گا تو غربت کیسے باقی رہے گی۔باقی ،رہے نام اللہ کا۔مِن کُلّ ِفانی ۔

غربت کے بارے میں کی گئی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ تلخ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ہر تیسرا پاکستانی غربت کی گرفت میں ہے۔ یعنی تقریبا چھ کروڑافراد خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بلوچستان کی نصف سے زاید ، سندھ کی تینتیس، خیبر پختون خوا کی بتیس اور پنجاب کی انیس فی صد آبادی اس صورت حال کا سامنا کررہی ہے۔یقینا یہ اعدادوشمار خوف ناک ہیں۔ مگر منصوبہ بندی کے لیے ان کی بہت ضرورت ہے۔

لیکن ہماری حکومتوں نے شرمندگی سے بچنے اور عوام کو دھوکے میں رکھنے کے لیے غربت سے متعلق حقیقی اعدادو شمار کبھی قوم کے سامنے پیش نہیں کیے۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں وقت گزرنے کے ساتھ مراعات یافتہ اور پس ماندہ افراد کے درمیان خلاء بڑھتاچلا جارہا ہے۔ دوسری جانب حکومتیں مسلسل انتہائی ضرورت مندوں کو خصوصی پیکیجزکے لالچ دیتی رہی ہیں۔ اس کا انجام سماجی،سیاسی اور اکثر لسانی تناؤ، بغاوت اور عسکریت پسندی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

اقتصادی ماہرین کےمطابق موجودہ دور میں پاکستان کاسب سے بڑا مسئلہ غربت ہے جس کی وجہ منہگائی میں روزبہ روز اضافہ، دولت کی غیر مساوی تقسیم، وسائل کی کمی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ تحقیقی اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ غریب خاندان اپنے مصارفِ زندگی پورے نہیں کرپاتے اور غربت کے سمندر میں غوطے لگاتے لگاتے بالآخر ڈوب جاتے ہیں۔چار سے پانچ سو روپے یومیہ کمانے والا شخص ، بیوی اور کم از کم چار بچوں پر مشتمل خاندان کا خرچ آخر کیسے پورا کر سکتا ہے؟ لیکن صد افسوس کہ ایسے کروڑوں افراد ہمارے درمیان موجود ہیں اور ان میں سے بیش تر ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدن اس سے بھی کم ہے۔ 

ایسے لوگوں کےپاس خودکشی کرنے، خیراتی اداروں سے مدد لینے یا چھوٹے، بڑے جرائم میں ملوث ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ غربت کی دلدل میں پھنسے ایسے خاندانوں کے بے شمار بچے یا تو سڑکوں کے کنارے بھیک مانگتے ہیں یا ایسے مدارس میں پناہ لینے پر مجبور ہیں جہاں کم از کم خوراک اور رہایش کی سہولتیں میسر ہوں۔ تقریباً پچّیس برس سے بعض مفاد پرست گروہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک سے منسلک ہو گئے ہیں ۔ دہشت گردی کے اسباب پر تحقیق کرنے والے ماہرین غربت کو اس کی ایک اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ فاقوں مرتا انسان چند سکّوں کے عوض ضمیر فروشی پر تیار ہوجاتا ہے ۔

غربت کے ساتھ منہگائی بھی لوگوں کا جینا دوبھر کیے ہوئے ہے۔ایک غیرملکی ادارےکے سروے کی رپورٹ کے مطابق اکثر پاکستانیوں کی آمدن کا تقریباً پچاس فی صد حصہ خوراک پر خرچ ہوجاتاہے۔بعض ماہرین کے مطابق یہ رپورٹ حقیقت کی پوری عکاسی نہیں کرتی۔ اس وقت ایک عام گھرانے کے کچن کا خرچ پندرہ سے بیس ہزار روپے تک پہنچ گیاہے۔چارافراد پر مشتمل گھرانے کے ناشتے اور دو وقت کے معمولی اور بالکل سادہ کھانے کے اخراجات کا حساب لگائیں تو یہ رقم پانچ تا چھ سو روپے بنتی ہے۔ جن لوگوں کی ماہانہ آمدن تیس تاچالیس ہزار روپے ماہانہ ہے ان کے بارے میں تویہ کہنادرست ہے کہ ان کی آمدن کا نصف حصہ خوراک پر خرچ ہوجاتا ہے،لیکن جن کی ماہانہ آمدن بارہ تا اٹھارہ ہزارروپےہے وہ کس طرح اپنی سفید پوشی کابھر م رکھتے ہیں، یہ اللہ ہی جانتا ہے۔

پاکستان کی یہ غربت فطری نہیں ہے۔ نہ ہی قدرتی آفات اور حوادث اس کا اصل سبب ہیں۔ اگرچہ لاکھوں لوگوں کے بے گھر ہونے میں زلزلوں اور سیلابوں کا دخل ضرورہے، مگریہاں غربت کی شرح تقریباً اب بھی وہی ہے جو زلزلوں اور سیلابوں سے پہلے تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1964ء میں بھی پاکستان کے ایک تہائی لوگ غربت اور افلاس کا شکار تھے۔ آج بھی یہ تناسب تقریباً اتنا ہی ہے۔یہ غربت دیہات تک محدود نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے شہروں میں بھی اکثریت ان غریبوں کی ہے جو دو تین عشرے پہلے متوسط درجے کی زندگی گزار رہے تھے اور پھر رفتہ رفتہ غربت کی سطح پر آگئے۔

ہمارے لوگوں کو خیرات کی نہیں بلکہ ٹھوس، موثراور قابلِ عمل منصوبوں کی ضرورت ہے۔ ہماری آ مدن کا خطیر حصہ دفاع اور قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوجاتا ہے۔ ہمارے حکم رانوں کی ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ زراعت، صنعت اور تجارت کے شعبوں میں انقلاب لائے بغیر ملک کو ترقی دینے کا نعرہ لگاتےہیں۔وہ خوش حالی کا معجزہ غیرملکی سرمایہ کاری کے زور پر دکھانے کے خواہش مند ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاری اپنی جگہ پر، مگر اس سے کہیں زیادہ ضرورت ملک میں موجود وسائل کو استعمال کرنے کی ہے۔ ملک کی نصف آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے جس پر چند زمین داروں اور جاگیرداروں کی اجارہ داری ہے۔ 

ان چند خاندانوں کو چھوڑ کر ملک کے کروڑوں غریب زمینوں کو اپنے خون پسینے سے سینچتے ہیں اور بدلے میںبہ مشکل دو وقت کی روٹی حاصل کرپاتے ہیں۔ ہمیں زرعی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ملک کا لاکھوں ایکڑ رقبہ بنجر پڑا ہے۔ دریا سوکھ رہے ہیں۔ نہریں خشک ہیں۔ ہمیں اس کا پائے دار حل تلاش کرنا ہوگا۔آب پاشی کا نظام بہتر بنا کر لاکھوں ایکڑ بے کارپڑی اراضی اگر محنت کشوں میں ان کی ہمت اور استطاعت کے مطابق تقسیم کردی جائے تو بے شمار بے افراد برسرِ روزگار ہوجائیں گے۔ انہیں غیرملکی سرمایہ کاروں کی غلامی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

منہگائی،بےروزگاری، غربت،بدعنوانی، اختیارات کا غلط استعمال، بد انتظامی اور فرقہ وارانہ مخاصمت اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے۔زمانے گزر گئے مگرغربت کوکبھی عیب نہیں سمجھا گیا تھا۔ لیکن آج یہ لفظ ندامت اوراحساس کم تری کا باعث ہے۔ یہاں یوں محسوس ہوتا ہے کہ امتیاز پسند لوگوں کا پیدا کردہ طبقاتی فرق کبھی نہیں ختم ہوسکتا ۔سیکیورٹی گارڈز، غیر معمولی پروٹوکول ،طبقہ اشرافیہ کے لیے الگ رہایشی آبادیوں کی تعمیرجیسے اقدامات نے دونوں طبقات کے درمیان بہت بلند فصیل حائل کر دی ہے۔ چند ہاتھوں میں سرمائے کا ارتکاز صورت حال کو مزیدگمبھیر بنا رہا ہے۔

عالمی فلاحی ادارے آکسفیم کے مطابق دنیا کے ایک فی صد امیر لوگوں کے پاس دنیا کے ننانوے فی صد اثاثے ہیں۔ یہاں بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں۔ پاکستان میں ایک کروڑسے زاید افراد کی آمدن اتنی ہے کہ انہیں ٹیکس ادا کرناچاہیے،لیکن صرف پچیس فی صد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔اوسطاًنو لاکھ ڈالر کے اثاثےرکھنے والے ساٹھ فی صدسے زاید اراکینِ پارلیمان ٹیکس ادا نہیں کرتے۔بہ الفاظِ دیگر یہاں غریب آدمی امیروں کو سبسڈی دے رہا ہے۔ یعنی قلیل آمدن کے باوجود غریب اشیائے صرف پر بھاری ٹیکس ادا کر رہا ہے۔اس کے مقابلے میں بڑے کاروبار ،صنعتی یونٹس اور جاگیروں کے مالکان نہ صرف اپنے ذمے واجب الادا ٹیکس ادا نہیں کرتےبلکہ اپنےسیاسی و کاروباری تعلقات بینک سے قرض لینے اورپھر اسے معاف کرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کی شرح بہت بلند ہوچکی ہے اور اب یہ خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔ ان کے مطابق ملک اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزررہا ہے۔ ایک جانب سیاسی انتشار ختم ہونے کو نہیں آرہاتودوسری جانب اسے افراطِ زر، خراب اقتصادی صورت حال، قدرتی آفات اور بُری طرزِ حکم رانی کا سامنا ہے۔ ایسے میں عوام کی اکثریت اس پریشانی میں مبتلا ہے کہ وہ اگلے وقت کے کھانے کا انتظام کیسے کرے گی۔

ملک کی نصف سے زاید آبادی خوراک کے عدم تحفظ، خون کی کمی اور ناکافی غذائیت کا شکار ہے۔وہ جو یومیہ ایک ڈالر سے کم کماتے ہیں اورجن کا کھانا صرف ایک نان یا چپاتی اور چائے پر مشتمل ہوتا ہے یا وہ مرچ اورپیاز پر گزارہ کرتے ہیں ان کا تو کچھ پوچھنا ہی نہیں ۔ لیکن متوسط طبقہ بھی روزانہ متوازن غذا نہیں کھا سکتا۔

پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے تحت ملینیئم ڈیولپمنٹ گولز ( ایم ڈی جی) کے معاہدے پر دست خط کیے ہیں جس کی رُوسے وہ بھوک ختم کرنے کا پابندہے۔ لیکن افسوس کہ پاکستان یہ ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا اور پہلے کے مقابلے میںملک میں بھوک بڑھ گئی ہے۔ماہرین کے مطابق اگراگلے پانچ برس تک تمام متعلقہ عوامل مثلاً موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار، آبادی میں اضافہ اور سیاسی صورت حال اسی طرح رہی توغذائی عدمِ تحفظ کی موجودہ شرح تریسٹھ تا پینسٹھ فی صد ہوجائے گی جو بہت خوف ناک بات ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ملک میں غربت اور ' غذائی عدمِ تحفظ کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری اقتصادی نمو بہت سست ہے جس کی وجہ سے ملازمت کے مواقع پیدا نہیں ہورہے۔

پاکستان میں غذائیت کی کمی یا ' پوشیدہ بھوک بھی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ ہماری چوپیس فی صد آبادی کو غذائیت کی کمی کا سامنا ہے ۔ اقوام ِ متحدہ کی فوڈ اینڈایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں 37.5 ملین افراد غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ہماری آبادی میں کئی طرح کے غذائی اجزا کی کمی ہے جن میں پروٹین سے لے کر آیوڈین ، فولاد وغیرہ تک کی کمی شامل ہے۔ یہاں بھی غربت اہم وجہ ٹھہرائی جاتی ہے کیوں کہ آبادی کےبہت بڑے حصے کو خوراک میسر ہی نہیں ہے اور اگر ہے تو اس میں ضروری غذائیت نہیں ہے۔ پھر کھانے پینے کی اشیا کے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے نرخ سے بھی غریب افراد شدید طور پر متاثر ہورہے ہیں۔ماہرین کے مطابق یہ مسئلہ اب ہنگامی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اس مسئلے کے حل میں مزید تاخیر بہت تباہ کن ثابت ہوگی۔

بُری ریاستی اور سرکاری حکمت عملیوں کا نتیجہ

لیکن یہ سب تو نتائج ہیں اُن بُری ریاستی اور سرکاری حکمت عملیوں کا جو ہم نے اب تک ترتیب دی ہیں۔جب ترجیحات ہی غلط ہوں تو نتائج کیسے اچھے نکل سکتے ہیں ۔ ہمیں بہ حیثیت ترقی پزیر ملک جن ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے تھاوہ تو ہم آج تک نہیں کررہے تو حقیقی تبدیلی اور پائے دار ترقی کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔

تعلیم اور انسانی وسائل کی ترقی ،سائنس اور ٹیکنالوجی اور تحقیق و ترقی کے فروغ کے لیے وفاق اور صوبے ہر برس اپنے میزانیوں میں کتنی رقوم رکھتے ہیں ؟چند برسوں کے اعدادوشمار دیکھ لیں، ہماری پس ماندگی کا سبب خود بہ خود سمجھ میں آجائے گا۔

انسانی ترقی کا اشاریہ

انسانی ترقی کا اشاریہ یا ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس پوری دنیا میں انسانی ترقی کا ایک خلاصہ ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آیاکوئی ملک ترقی پزیر ہے یا ترقی یافتہ ۔ جیسے اوسط شرح زندگی کی توقع ، تعلیم ، مجموعی ملکی پیداوار اور فی کس آمدن وغیرہ۔ایچ ڈی آئی کے نتائج ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ میں شایع ہوتے ہیں۔یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی)کے ذریعے ہر برس جاری کی جاتی ہے اوراسےچوٹی کے ماہرین ترتیب دیتے ہیں ، جو عالمی ترقی کا مطالعہ کرتے ہیں۔

یو این ڈی پی کے مطابق ، انسانی ترقی سے مراد دراصل ایسا ماحول پیدا کرناہے جس میں لوگ اپنی پوری صلاحیت استعمال کرسکیں اوراپنی ضروریات اور مفادات کے مطابق نتیجہ خیز ، تخلیقی زندگی گزار سکیں۔بہترین انسانی صلاحیتوں سے لیس افراد ہی قوموں کی اصل دولت ہوتے ہیں۔ہیومن ڈیولپمنٹ کی رپورٹ کا اصل محرّک ہی ملک کی ترقی و خوش حالی کی اساس کے طور پر فی کس حقیقی آمدن پرتوجہ مرکوز کرنا تھا۔ 

یو این ڈی پی کے مطابق معاشی خوش حالی فی کس آمدن کی بنیاد پر انسانی ترقی کی پیمایش کرنے کا واحد عنصر نہیں ہے،کیوں کہ ان اعداد و شمار کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں ہے کہ پورے ملک کے لوگ بہتر ہیں۔ اس طرح ، انسانی ترقی کی پہلی رپورٹ نے ایچ ڈی آئی کا استعمال کیا اور صحت اور زندگی کی توقع ، تعلیم،کام اور تفریحی وقت جیسے تصورات کی جانچ کی۔

ایچ ڈی آئی میں پیمایش کی جانے والی دوسری جہت کسی ملک کی مجموعی طور پرخواندگی کی سطح یا شرح ہے جس کی پیمایش بالغوں کی سطح پرخواندگی کی شرح کے ذریعے کی جاتی ہے۔اس کے ساتھ پرائمری اسکول میں طلباکے مجموعی داخلے کا تناسب اور جامعہ کی سطح تک تعلیم حاصل کرنے والوں کی شرح بھی دیکھی جاتی ہے۔تیسری اور آخری جہت کسی ملک کے لوگوں کے معیار زندگی کی ہوتی ہے۔ اس جہت کو امریکی ڈالرز کی بنیادپر ،قوتِ خرید کی برابری کی شرائط میں فی کس مجموعی ملکی مصنوعات کے ساتھ ناپا جاتا ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ اس رپورٹ میں ہم کس درجے پر ہیں۔ایچ آئی ڈی کی دسمبر 2020میںجاری کی گئی رپورٹ ہمیں ترقی کے جھوٹے دعووں کے مقابلے میں یہ بتاتی ہے کہ ہم نے آگے کی جانب سفر نہیں کیا بلکہ پاکستان کی درجہ بندی دو درجے کم ہوئی۔2020کی رپورٹ کےمطابق کُل 189 ممالک میں سے پاکستان 154 ویں نمبر پر ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کا درجہ152 تھا ۔اس کے علاوہ ملک کی درجہ بندی تمام ہم مرتبہ معیشتوں سے کم رہی اور صرف افغانستان ہی پاکستان سے نیچے رہا جو 169ویں نمبرپرتھا۔ تعلیمی کارکردگی میں پاکستان آخری دس ممالک کی فہرست میں افریقی ممالک کے ساتھ واحد ایشیائی ملک ہےجہاں اس کا مطلوبہ ا سکولز کا مطلوبہ تعلیمی سال8.3فی صدہے۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان آئندہ چند برسوں میں سب سے کم تعلیم یافتہ ملک بن سکتا ہے۔

ہیومن ڈیو لپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) رپورٹ ممالک میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی کی صورت حال کی بنیادپرترتیب دی جاتی ہے، لیکن 2020کی رپورٹ میں مختلف ممالک میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج اور سیارہ زمین پر دباؤ ڈالنے والے مادّی عوامل کو بھی شامل کیا گیاتھا۔یہ رپورٹ جو2019میں ممالک کی کارکردگی کا جائزہ لیتی ہے، اس کا عنوان ’’دی نیو فرنٹیئر: ہیومن ڈیولپمنٹ اینڈ انتھروپوسین‘

The new frontier: Human development and Anthropocene

رکھاگیاتھا۔رپورٹ کے مطابق دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں بھارت 131 ویں نمبر پر ، بنگلا دیش 133، سری لنکا 72، مالدیپ 95، نیپال 142 اور بھوٹان 129 ویں نمبر پر تھا۔ ناروے، آئرلینڈ، ہانگ کانگ، آئس لینڈ اور جرمنی اس درجہ بندی میں سر فہرست ہیں۔وسطی افریقا جمہوریہ نائجر، چاڈ، جنوبی سوڈان اور برونڈی ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کی سب سے کم درجہ بندی پر موجود ہیں۔ امریکہ کو 17 ویں درجے پر رکھا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی ترقی کےلیے معاشرتی اصولوں، طرزِ حکومت اور مالی مراعات کو تبدیل کرتے ہوئے اگلے محاذ پر فطرت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔رپورٹ کے مطابق نئے تخمینوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ صدی تک دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہر سال موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسم کے دورانیے میں سو دن کا اضافہ ہو سکتا ہے لیکن اگر موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے پیرس معاہدے پر مکمل عمل درآمد سے یہ دورانیہ نصف تک لایا جا سکتا ہے۔

اس رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ ہم اپنے انسانی وسائل کی ترقّی اور تعلیم کے فرغ کے لیے کتنی ’’محنت‘‘ کررہے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں واقعی اپنی معیشت بہتر بنانی ہے تو اسے علم پر مبنی کرنا ہوگا جس کے لیے مذکورہ دونوں مدات میں جنگی بنیادوں پر اخراجات کرنے ہوں گے۔

تازہ ترین