وسیع و عریض علاقے پر پھیلا ہوا فطرت کا اوپن میوزیم ،صحرائے تھر، اپنی جداگانہ شناخت رکھتا ہے۔ تین ہزار کے قریب دیہات جہاں خوبصورت روایات، محبت و سادگی کی بہترین مثالیں ملتی ہیں ، جب کہ اس کا صدر مقام، مٹھی، محبتوں اور مذہبی رواداری کی وجہ سے معروف ہے، جو تھر کے ماتھے کا جھومر کہلاتا ہے۔
مٹھی کراچی سے 450کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہاں تک پہنچنے کے لیے عمرکوٹ، میرپورخاص اور بدین کی جانب سے راستے آتے ہیں۔ کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبوں کی وجہ سے کراچی سے مٹھی تک رسائی آسان ہو گئی ہے۔ آپ قومی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے مکلی سے سجاول اور وہاں سے بدین کے بعد تھر کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ تھر میں قدم رکھنے کے لیےتین مختلف دروازوں سے داخل ہونا پڑتا ہے۔
نوکوٹ قلعہ ،عمرکوٹ گیٹ اور باب بے نظیر، لیکن جہاں سے بھی مٹھی میں داخل ہوں گے، کشادہ سڑکیں، سر سبز ماحول اور فرحت بخش فضا آپ کا استقبال کرے گی۔ کراچی سے تھر تک تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بائی پاس بنائے گئے ہیں جن پر سفر کرکے کراچی سے مٹھی تک پانچ سے چھ گھنٹے میں پہنچا جا سکتا ہے۔ تالپور حکم رانوں نے گجرات اور راجستھان سے بیرونی حملہ آوروں اور ڈاکوؤں پر نظر رکھنے کے لیے اس شاہ راہ پر ایک چیک پوسٹ تعمیر کرائی تھی ۔ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ کھنڈربن گئی ہے۔
قیام پاکستان سے قبل مٹھی، ریتیلے ٹیلوں کے درمیان ایک چھوٹے سے قصبے کی صورت میں قائم تھا۔ یہ ٹیلے ابھی بھی موجود ہیں اور سب سے بڑے ٹیلے کو گڈی بھٹ کہا جاتا ہے جہاں ایک چبوترہ بھی بنا ہوا ہے۔ یہ علاقہ تھرپارکر کا خوب صورت تفریحی مقام بن چکا ہے ۔مٹھی شہر ایک خاتون کے نام سے موسوم ہے، جس کے متعلق سندھ کے ممتاز تاریخ داں ،رام چند راٹھور نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’مٹھاں بائی نامی عورت کا تعلق بجیرذات سے تھاجو رفاہ عامہ کے کاموں کی وجہ سے مشہور تھی۔
اس نے ایک کنواں تعمیر کرایا تھا جس کے پانی سے ریگستانی علاقوں سے سفر کرکے آنے والے مسافر، اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ یہ شہر قدیم دور سے ہی امن و آشتی کاگہوارہ ہے جہاں ہندو اور مسلمان، مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے ساتھ صدیوں سے زندگی گزار رہے ہیں۔ شہر میں مسلمانوں کی درجنوں درگاہوں کے منتظمین ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ مسلمان بھی ان کی مذہبی روایات کا خیال رکھتے ہیں ۔
کسی زمانے میں مٹھی کو ’’نیم کا شہر ‘‘کہا جاتا تھا ، کیوں کہ یہاں بڑی تعداد میں نیم کے درخت لگے ہوئے تھے۔ یہاں ایک ہندوبزرگ ،’’ سنت نیتو رام ‘‘کا آشرم ہے۔ روایت ہے کہ تھر میں قحط کے زمانے میں سنت نیتو رام ،چاول پکوا کر یہاں سے گزرنے والے مسافروں کو کھلاتے تھے، یہ سلسلہ ان کی موت کے بعد بھی جاری ہے۔ ان کے آشرم میں انسانوں کے علاوہ جانوروں اور پرندوں کی خوراک اور پانی کا بھی انتظام ہوتا ہے ۔
تھر میں لوگوں کی اکثریت ،اگلو نما کچے گھروں میں رہتی ہے،جن کی چھتیں گھاس پھونس سے بنی ہوئی ہوتی ہیں۔ انہیں چوئنرے کہا جاتا ہے،یہ گھر جسم کو جھلسانے والی گرم ہواؤں میں بھی ٹھنڈے رہتے ہیں۔ سال ، دو سال کے بعد ان پر تازہ گھاس لگائی جاتی ہے۔ ہندو اور مسلمانوں کے چوئنرے دور سے شناخت کیے جاسکتے ہیں۔ جس چوئنرے کی چھت کے اوپر چونچ بنی ہو، وہ ہندؤوں کا چوئنرا ہوتا ہے اور جس پر چونچ نہ بنی ہو وہ مسلمان کا ہوتا ہے، مگریہاں ایسے چوئنرے بھی ہیں، جن کی چونچ تو ہے لیکن ان میں مسلمان رہتے ہیں۔
ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان میں رہائش پذیر افراد، پہلے ہندو تھے، بعد میں انہوں نے اسلام قبول کرلیاتھا۔ان جھونپڑوں کے علاوہ سیمنٹ اور مٹی سے بنے ہوئے کمرے بھی ہیں جنہیں’’ لانڈھی‘‘ کہا جاتا ہے۔ مٹھی کے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ صدیوں قدیم سماجی روایات کے مطابق زندگی بسرکر رہے ہیں۔ ہر گاؤں میں آپ کو چوئنرے ملیں گے، ایک احاطے میں تین سے چار چوئنرے ہوتے ہیں، جن کے آگے چھوٹا سا آنگن، چند بکریاں یا اونٹ ہوتے ہیں جو ان کی کل کائنات ہے۔ تھری باشندے ،خود کو شہر سے زیادہ گاؤں میں محفوظ اور پرسکون محسوس کرتے ہیں۔
چند عشرے قبل ،پرانے شہر میں مغرب کی جانب شہربھر کا بارش کا پانی جمع ہوتا تھا جس کی وجہ سے ایک تالاب بن گیا، جسے ’’سران ‘‘کہا جاتا ہے۔ مگر وقت کے ساتھ دیہی علاقوں سے لوگوں کی شہر کی طرف نقل مکانی سے آبادی کا دبائو بڑھنے لگااور لوگ مٹھی شہر میں بھی آباد ہو گئے۔ نشیبی علاقہ ہونے کی وجہ سے بارشوں میں زیادہ تر گھر زیر آب آ جاتے تھے ۔ شہری انتظامیہ کی جانب سے ،سران کالونی میں ہیوی ڈرینج سسٹم کی تنصیب کے بعدبارش کے پانی کا ہیوی موٹروں کے ذریعے ٹیلے کی دوسری جانب اخراج کیا جاتا ہے۔ شہر کی ترقی میں ملانی خاندان کا بڑا کردار ہے۔
انہوں نے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کافی کام کیے ہیں جب کہ اسے میونسپل کمیٹی کا درجہ دلوانے کے ساتھ کشادہ سڑکوں کی تعمیر سے لے کر نکاسی و فراہمی آب میں بھی انہوں نے کافی کاوشیں کی ہیں ۔مٹھی کاروباری مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ، پڑھے لکھے اورروشن خیال لوگوں کا شہر ہے۔ اس علاقے کےڈاکٹر اورانجنیئرز ملک کی تعمیر وترقی میں اہم کر دار ادا کررہے ہیں۔
مٹھی میں عام طور پر کنویں سے پانی حاصل کیا جاتا ہے۔ پانی کھینچنے کے لیے گدھے، اونٹ یا بیل کا استعمال ہوتا ہے۔ کنوؤں سے پانی نکالنے کے فرائض مرد انجام دیتے ہیں جبکہ سر وں پر مٹکے رکھ کر خواتین گھروں تک پانی لے جاتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ کئی دیہات میں اب ٹیوب ویل لگ گئے ہیں ، جب کہ مٹھی شہر کے قریب ہی حکومت کی جانب سے آر او پلانٹ لگائے گئے ہیں جو روزانہ ہزاروں گیلن میٹھا پانی فراہم کرتے ہیں۔
پاک اوئسس بھی ایک ایسا آر او پلانٹ ہے جویہاںکے باسیوں کو میٹھا پانی فراہم کرتا ہے۔ ٹیوب ویل اور آراو پلانٹ کی سہولتوں کے بعد،سروں پر پانی کے دو سے تین مٹکے رکھ کر چلنے والی خواتین ، اب بہت کم نظر آتی ہیں۔ مگرجن علاقوں میں یہ پلانٹس نہیں ہیں، وہاں آج بھی لوگ میلوں پیدل سفر کرکے دور دراز کے علاقوں سے پانی بھرکے لاتے ہیں۔
تھرکا خطہ ،ہنر مندمرد و خواتین کے حوالے سے بھی معروف ہے اور یہاں کی دست کاری کراچی، اسلام آباد سمیت ملک کے کئی بڑے شہروں میں معروف ہے، جن میں روایتی ملبوسات، گرم شالیں، لیٹر بکس، وال پیس وغیرہ شامل ہیں۔زیادہ تر کپڑے،بلاک پرنٹنگ سے بنائے جاتے ہیں جب کہ چادریں اور کھیس، آج بھی کھڈی پر تیار ہوتی ہیں جو مشین کی بنی ہوئی چادروں سے زیادہ نفیس اور پائیدار ہوتی ہیں۔ پارچہ بافی کی گھریلو صنعت کے حوالے سے کھتری برادری مشہور ہے جب کہ مہیشوری برادری کی ہنر مند خواتین کے ہاتھوں سے کاڑھے ہوئےنفیس ملبوسات دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں۔
مٹھی کے روایتی کھانوں میں، پاپڑ اورتھال میں پیش کی جانے والے چٹنیاں، مخصوص طرزسے بنی ہوئی سبزیاں منفرد ذائقہ رکھتی ہیں۔شادی بیاہ میں روایتی پکوانوں کی بجائے انواع قسم کی مٹھائیاں اورسبزیاں پیش کی جاتی ہیں۔ ہوٹلوں میں بھی لذیذ کھانے دستیاب ہوتے ہیں لیکن ہندو برادری کے لوگ ، مذہبی پابندیوں کی وجہ سے گوشت نہیں کھاتے ،اس لیےشہر میں دو یجیٹیرین ہوٹل بھی موجود ہیں جہاں کے کھانوں میں گھر جیسا ذائقہ ہوتا ہے۔ پیلے رنگ کی ’’بورانی‘‘ جوصرف مٹھی میں ہی بنتی ہے،جو نہ تو میٹھی ہوتی ہے اور نہ پھیکی بلکہ اس کا منفرد ذائقہ ہوتا ہے۔ یہ اس شہر کی مخصوص سوغات ہے۔
گذشتہ سات سالو ں سے تھر میں خشک سالی و بچوں کی بڑھتی ہوئی اموات کی وجہ سے یہ شہر حکومتی شخصیات اور ملکی و غیر ملکی این جی اوزکی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ ان کی آمد کی وجہ سے یہاں درجنوں گیسٹ ہائوسز بھی قائم ہوگئے ہیں۔