یہ تیرہ جنوری2020کی بات ہے۔ابراہیم حیدری کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہی گیر مچھلیاں پکڑنے کے لیے سمندر میں پھینکا گیا جال معمول کے مطابق واپس کھینچ رہے تھے کہ ان میں سے ایک نے بہت زوردار آواز میں نعرہ مستانہ بلند کیا۔
اس کی آواز سنتے ہی اس کے ساتھیوں نے فوری طورپر جال کی طرف دیکھا تو ان کے منہ سے بھی خوشی کے نعرے بلند ہونے لگے۔ پھر وہ جال کھینچتے جاتے تھے اور نعرے لگاتے جاتے تھے کیوں کہ قسمت ان پر بہت مہربان ہوچکی تھی۔ ان کی خوشی کی وجہ جال میں پھنسنے والی دو بہت قیمتی مچھلیاں تھیں جنہیں وہ دور سے دیکھ کر ہی پہچان گئے تھے۔
یہ ’’سوا‘‘ مچھلی تھی۔ جب ان کی کشتی جیٹی پر لنگر انداز ہوئی تو آنا فانا یہ خبر ماہی گیروں کی پوری بستی میں پھیل گئی۔ایسی خبر ملتے ہی مچھلیوں کے بیوپاری بقش قیمت مچھلی لانے والی کشتی کی طرف لپکتے ہیں۔ چناں چہ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ان میں سے ہر مچھلی دس لاکھ روپے میں فروخت ہوئی۔ یعنی مجموعی طور پر ان ماہی گیروں کو اچانک بیس لاکھ روپے مل گئے تھے۔
لیکن یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں تھا ۔گاہےبہ گاہے ماہی گیروں کے ساتھ اس قسم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔چناں چہ رواں برس مئی کے آخری ہفتے میں بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر سے دو سوا مچھلیاں پکڑی گئیں۔ دو مختلف ایّام میں پکڑی جانے والی ان دونوں مچھلیوں کے اوزان میں بائیس کلو گرام کا فرق تھا۔پہلے پکڑی جانے والی مچھلی چھبّیس کلوگرام کی تھی جو سات لاکھ اسّی ہزار روپے میں فروخت ہوئی تھی۔
بعد میں پکڑی جانے والی مچھلی کا وزان پہلی والی کے مقابلے میں بائیس کلوگرام زیادہ تھا۔اس کی آخری بولی چھیاسی لاکھ چالیس ہزار روپے لگی تھی تاہم یہ بہتّر لاکھ روپے میں فروخت ہوئی تھی۔دراصل جب یہ مچھلی نیلامی کے لیے جیوانی کے مقامی بازارمیں لائی گئی تو اس کی فی کلوگرام کی آخری بولی ایک لاکھ اسّی ہزار روپے کے حساب سے چھیاسی لاکھ چالیس ہزار روپے لگی۔ تاہم بازارکی روایات کے مطابق مالک نے فی کلوگرام تیس ہزار روپے کم کیے۔اس کمی کے بعد یہ فی کلوگرام ایک لاکھ پچاس ہزار روپے کے حساب سےبہتّر لاکھ روپے میں فروخت ہوئی تھی۔
یہ دونو ں مچھلیاں ایران کے قریب جیونی کے ساحلی علاقے سے پکڑی گئی تھیں۔ بتایا جاتاہے کہ اس سے کچھ عرصہ قبل عبدالحق نامی ماہی گیرنے بھی سوامچھلی پکڑی تھی جواٹہتّر لاکھ روپے میں فروخت کی گئی تھی۔پھر جون کے پہلے ہفتے میں جیونی کے غریب ماہی گیر کے جال میں چھبّیس کلوگرام وزنی قیمتی سوا مچھلی پھنسی تھی جو چھ لاکھ چھہتّر ہزار روپے میں نیلام کی گئی تھی۔
کروکر،کر اور سوا
کروکرنسل کی اس مچھلی کو بلوچی زبان میں ’’کر‘‘اور سندھی اور اردو زبانوں میں '’’سوا‘‘ کہتے ہیں۔ تاہم اس کا سائنسی نام ارگائیرو سومس جیپونیکس ہے۔ ہمارے زیادہ تر ماہی گیروں کو پتا نہیں کہ اس سے کیا بنتا ہے۔اس کے خریدار زیادہ تر کراچی میں بیٹھے بڑے تاجر ہیں یا ان کے مختلف علاقوں میں موجود ایجنٹ ہیں۔ مگر اس کے استعمال سے متعلق کئی باتیں کی جاتی ہیں۔ مقامی تاجر مچھلی کوبرف میں محفوظ کرکے کراچی لاتےہیں جہاں ماہر افراد مچھلی کا پیٹ چیر کر ایئر بلیڈر نکالتے ہیں اور پھر بڑے تاجر انہیں بیرون ملک برآمد کردیتے ہیں۔
محکمہ فشریز کے ذرایع کے مطابق ماضی میں بلوچستان میں پکڑی جانے والی سوا مچھلیوں کے علاوہ ایران سے بھی ماہی گیریہ مچھلیاں فروخت کرنے کے لیے گوادر اور جیونی لاتے تھے۔ مچھلی کا ایئر بلیڈر یہاں نکال کر خشک کیا جاتا تھا اور بعد میں اسے سری لنکا بھیجا جاتا تھا جوبہ مشکل سو روپے میں بکتا تھا۔ بعد میں اس کی فروخت کا سلسلہ کراچی میں شروع ہوا اور یہ زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار روپے میں فروخت ہوتا تھا۔ لیکن اب تو یہ لاکھوں میں فروخت ہو رہا ہے۔اب کولنگ ٹیکنالوجی کی وجہ سے مچھلی پکڑنے کے بعد اسے کراچی لے جایا جاتا ہےجہاں ایئر بلیڈر نکالا جاتاہے تاکہ یہ ضایع یا خراب نہ ہوسکے۔
اس مچھلی کی قیمت کا تعین ایئر بلیڈر کے حجم سے کیا جاتا ہے۔ جتنا ایئر بلیڈر بڑا ہوگا، اتنی ہی اس کی قیمت زیادہ ہوگی۔ نر مچھلی میں ایئر بلیڈر بڑا اور وزنی ہوتا ہے اس لیے اس کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔مادہ مچھلی کا بلیڈر چھوٹا ہوتا ہے اس لیے اس کی قیمت کئی گنا کم ہوتی ہے۔یہ مچھلی پاکستان کے سمندروں میں پائی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کی دو چیزیں قیمتی ہوتی ہیں۔ پہلی اس کی کھال کے اوپر موجود تہہ جس سے دھاگا بنتا ہے جو جسم کے اندرونی حصوں میں ٹانکے لگانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔دوسرا اس کاایئر بلیڈر ہے جسے مقامی زبان میں ’’پوٹا‘‘کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے یہ پانی میں اوپر آتی اور نیچے جاتی ہے۔
یہ بلیڈرتمام ہی مچھلیوں میں ہوتےہیں لیکن کروکرمیں تھوڑے موٹے اور اچھی قسم کے ہوتے ہیں۔ یہ پوٹے اس لیے قیمتی بتائے جاتے ہیں کے چین میں یہ شان و شوکت کی علامت ہیں۔ جس طرح ہمارے یہاں لوگ گھروں میں سونا رکھتے ہیں اسی طرح چینی اس سوکھے پوٹے کو اپنے گھر میں رکھتے ہیں اوربہ وقتِ ضرورت سونے کی مانند اسے فروخت کردیتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم، گرین پیس ایشیا کے مطابق ہانگ کانگ میں اس بلیڈر کی قیمت دو لاکھ ہانگ کانگ ڈالرز ہے۔ ایک تحقیقی مقالے کے مطابق خاص مواقعے پر اسے کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور بعض اوقات بہ طور کرنسی بھی اس کا لین دین ہوتا ہے۔2008میں عالمی مالی بحران کے دوران لوگوں نےاس بلیڈر میں سرمایہ کاری کی تھی۔
تیزی سے ختم ہوتی نسل
جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیم ،ورلڈ وائڈ فنڈ فار دی کنزرویشن آف نیچر (ڈ بلیو ڈبلیو ایف)کے مطابق کروکر نسل کی یہ مچھلی پاکستان کے پانیوں سے بہت تیزی سے معدوم ہو رہی ہے۔ پہلے یہ مچھلی کنارے سے لے کر سو میٹر تک پکڑی جاتی تھی، مگر اس کے بلیڈر کی منہ مانگی قیمت کی وجہ سے اب اس کی آبادی تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔اس کا شکار مئی سے پندرہ جون تک کیا جاتاہے۔ یہ مچھلی گہرے سمندر میں رہتی ہے۔تاہم مذکورہ ایّام میں یہ انڈے دینے کے لیے کنارے پر اپنے نر کے ساتھ آتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مادہ کی نسبت نر کا ایئر بلیڈر بڑا ہوتا ہے جو زیادہ وزنی اور قیمتی ہوتا ہے۔
یہ بھی بتایاجاتا ہے کہ بالغ سوا کی جھلی سے جرّاحی میں ٹانکے لگانے کے لیے دھاگےبنتے ہیں ۔یہ دھاگے جسم کی اندرونی جراحی میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوا مچھلی کی اندرونی جھلی سے بننے والے ریشے قدرتی طور پر بایو ڈی گریڈایبل ہوتے ہیں اور جسم میں کچھ عرصے بعد از خود تحلیل ہو جاتے ہیں۔ یہ مچھلی اگر سمندر میں مرجائے تو سطح آپ پر تیرنے لگتی ہے۔
اس کے گوشت کی قیمت بھی عام مچھلیوں کی طرح دو تاتین سو روپے فی کلوگرام بتائی جاتی ہے۔لیکن اصل قیمت کروکرکے اندرپائے جانے والے سفید رنگ کے ایئر بلیڈر کی ہوتی ہےجسے بلوچی زبان میں پھوٹو اور سندھی زبان میں پھوٹی کہتے ہیں۔ اس ایئر بلیڈر کی چین، سنگا پور، ہانگ کانگ اور کئی یورپی ممالک میں بڑی مانگ ہے۔اسے چین، سنگا پور اور ہانگ کانگ وغیرہ میں خاص قسم کے سُوپ میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں عام شخص اسے شاید پینا بھی پسند نہ کرے، مگر جسمانی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال ہونے والا یہ پرتعیش سُوپ چین کے امراء کے لیے اسٹیٹس سمبل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ منہگے ہوٹلز میں کروکر مچھلی کے سُوپ کے لیے بڑی سے بڑی قیمت بھی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ سُوپ جسمانی طاقت بڑھانےکے علاوہ کیلشیم زیادہ ہونے کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی کی مضبوطی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چین کی روایتی ادویات میں بھی اس کےپوٹے کےاستعمال کا حوالہ ملتاہے۔یہ ادویات جوڑوںکےدرداورجنسی کم زوری کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پہلے اس مچھلی سے پاؤڈر بناکر شراب کارنگ بہتربنانےکےلیے استعمال کیا جاتا تھا،مگر 2005ء کے بعد چین میں معاشی حالات بہتر ہونے کے بعد کروکر مچھلی کی برآمدات میں اضافہ ہوگیا جس سے اس کی قیمت بھی بڑھ گئی۔ یاد رہے کہ چین میں ایک مرتبہ کروکر مچھلی ڈیڑھ لاکھ ڈالرز میں بھی فروخت ہوئی تھی۔ چین میں زرد رنگ کی کروکر مچھلی کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ سوّا کے سبزی مائل بلیڈر کو چند بڑی نجی کمپنیز خریدتی ہیں، لیکن اسے کس طرح ہانگ کانگ یا چین پہنچایاجاتا ہے،یہ کمپنیزیہ راز نہیں بتاتیں۔ واضح رہے کہ چین اور ہانگ کانگ میں اس کے بلیڈر کی درآمد پر پابندی ہے۔
ماہر آبی حیات معظم علی کے مطابق ایک زمانے میں سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں پر اس مچھلی کی بہتات تھی اور کبھی کبھی ایک ہی ماہی گیرپندرہ تا بیس کروکر مچھلیاں بھی پکڑ لیتا تھا۔تاہم اس زمانے میں اس کی قیمت کچھ زیادہ نہیں تھی۔ان کے بہ قول چین اور دیگر ممالک میں مانگ میں اضافے کی وجہ سے کروکر مچھلی کا شکار بھی بڑھ گیا جس کی وجہ سے ان کی تعداد اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
معظم علی کے مطابق ایرانی پانیوںمیں پائی جانے والی یہ مچھلی مئی اور جون میں ہجرت کر کے پاکستانی اور بھارتی ساحلوں کا رخ کرتی ہے۔ اس لیے ان ہی دو مہینوں میں ان کا شکار زیادہ ہوتا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کروکر مچھلیاں سارڈین نامی چھوٹی مچھلیاں کھانے کے لیے بھی پاکستانی علاقوں میں آتی ہیں۔ یہ عموماً دس مئی تا بیس جون ہمارے ہاں آتی ہیں۔
سال بھرکا انتظار
ماہی گیروں کے مطابق ہمارے ملک میں بعض ایسے بھی ماہی گیر ہیں جو پورا سال صرف اس سیزن میں شکار کرتے ہیں۔ ان کا ہدف کروکر مچھلی پکڑنا ہوتا ہے۔ اگر ان کے ہاتھ ایک بھی مچھلی آجائے تو ایک ہی دن میں باقی ماہی گیروں کے مقابلے میں پورے سال جتنا کما لیتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ماہی گیر جال بچھا کر کئی کئی دنوں تک صرف اسی مچھلی کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ مچھلی ان علاقوں میں زیادہ آتی ہےجہاں تمر کے درخت ہوتے ہیں۔ تمر کے ساتھ ان کے لیے موزوں جگہ وہ ہوتی ہےجہاں سمندر میں میٹھا پانی آ کر ملتا ہے۔ چند ماہ سے جس علاقے میں یہ پکڑی جا رہی ہیں وہاں ایران کے علاقے سے میٹھا پانی آ کر سمندر میں شامل ہوجاتا ہے۔جن علاقوں میں ان کی موجودگی کا امکان ہوتاہے ماہی گیر وہاں اپنے جال لگا کر چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے لیے انہیں طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔
ماہی گیر سوا کی شناخت کیسے کرتے ہیں؟
بتایا جاتا ہے کہ یہ مچھلی کر، کر کی آواز نکالتی ہے۔ ماہر ماہی گیر اس کی آواز کا اندازہ لگا کر وہاں اپنا جال پھینک کر اسے کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد جب آواز آنا بند ہوجاتی ہے توجال کو باہر کھینچا جاتاہے اور مچھلی کو نکال لیا جاتا ہے۔ اس کی جسامت ڈیڑھ میٹر تک ہوسکتی ہے اور وزن تیس تا چالیس کلوگرام بھی ہوسکتا ہے۔
یہ پورا سال ہی پکڑی جاتی ہے۔لیکن چند مہینوں میں اس کی دست یابی آسان ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں سوا سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں پائی جاتی ہے۔ ساحلی علاقے، کھاڑیاں اور کھلا سمندر اس کی آماج گاہ ہے۔ اس مچھلی کی تلاش میں کئی بار کاجھر کریک سے پاکستانی ماہی گیر بھارتی بحریہ کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے ہیں۔
یاد رہے کہ کاجھر کریک سر کریک کے قریب واقع ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی خوراک میں جانور اور چھوٹی مچھلیاں شامل ہیں۔ یہ غول کے ساتھ رہتی ہیں اور کبھی کبھار ان کا پورا غول ہی جال میں آجاتا ہے۔
مچھلیوں کے بعض برآمد کنندگان کے بہ قول کسی زمانے میں ماہی گیر کشتیاں بھر بھر کرسوا مچھلی لاتے تھے لیکن اب ان کی تعداد کم ہوگئی ہے اور ہفتے میں ایک دو روز ہی کوئی اس کا شکار کرنے میں کام یاب ہوپاتا ہے۔چین میں ایک مچھلی پائی جاتی تھی جسے یلو کروکر کہا جاتا تھاجو اب وہاں نایاب ہوچکی ہے اور اب دنیا میں جہاں جہاں یہ پائی جاتی ہے، وہاں اس کی بہت زیادہ طلب ہے۔ سوا اس یلو کروکر کی مشہابت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ خلیج میکسیکو میں کیلی فورنیا میں بھی اس سے مشابہ ایک مچھلی ملتی ہے جسے ٹوٹابا کہتے ہیں۔ وہ بھی بے دریغ شکار کی وجہ سے تیزی کے ساتھ معدوم ہو رہی ہے۔ چین میں اس پر پابندی ہے۔
مخصوص مچھلیاں، شکار کا مخصوص انداز
ابراہیم حیدری میں رہایش پزیرماہی گیروںکے مطابق مخصوص اقسام کی مچھلیوں کا شکارکرنے والے ماہی گیر اور اُن کے شکارکا انداز بھی مخصوص ہوتا ہے۔ طویل عرصے سے ’’گند مچھلی‘‘ (جو پولٹری فیڈ تیّار کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے)کا شکار کرنے والے ماہی گیر محمد حسین، عمر، آمن، احمد، ایوب اور اسمٰعیل عرف پھنگ کے مطابق وہ اپنی کشتیوں کے مالک اور ناخدا بھی ہیں۔ تاہم بعض ماہی گیر ایسے بھی ہیں جو مخصوص معاہدے کے تحت دوسروں کی کشتیوں میں ’’گند مچھلی‘‘ کا شکار کرنے جاتے ہیں۔
جون، جولائی اور اگست میں یہ لوگ شکار نہیں کرتے۔ یہ لوگ عموماً ستّائیس تا پینتیس فیٹ طویل کشتیاں استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ عموماً دوپہرکو ایک یا دو بجے نکلتے ہیں اور اگلے روز صبح آٹھ یانو بجے واپس آجاتے ہیں۔چاند کی تیرہ،چودہ اور پندرہ تاریخ کو شکار نہیں کیا جاتا۔ ان لوگوں کے مطابق گند مچھلیوں کا تعلق ایسی نسلوں سے ہوتاہے جو ہمیشہ چھوٹی رہتی ہیں۔ یہ لوگ انہیں مِتّو، کچک، لوہر، چاقو، کاریڑی، موری، پڈن، سِیم، خاصا وغیرہ کے ناموں سے جانتے ہیں اور ان کا شکار کرنے کے لیے ریشم سے بنا ہوا ایک انچ کے خانوں والا جال استعمال کرتے ہیں۔
ان ماہی گیروں میں سے بعض بلوچستان کی سمندری حدود تک اور بعض بھارت کی سمندری حدود کے نزدیک تک شکار کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ جال ڈالنے پردس تا بیس ہزار کلو گرام مچھلیاں اس میں پھنس جاتی ہیں اور کبھی بار بار جال پھینکنے پر بھی مطلوبہ تعداد میں شکار نہیں مل پاتا۔ شکارکا ہدف جلدی پورا ہوجائے تو یہ لوگ اوپر بیان کردہ وقت سے پہلے ہی لوٹ آتے ہیں۔ تاہم بعض اوقات انہیں دُور تک سفر کرنا پڑتا ہے۔ مذکورہ ماہی گیروں کے مطابق ’’گند مچھلی‘‘ اندھیرے میں چمکتی ہے۔
جھنڈ کی صورت میں تیزی سے تیرتی ہیں اور ایک جھنڈ میں پچّیس ہزار تا ایک لاکھ کلو گرام تک ہوسکتی ہیں۔ اُن کے تیرنے کا مخصوص اندازہوتا ہے اور ان کے جسم پر پڑنے والی روشنی منعکس ہوتی ہے۔ لہٰذا سمندر میں جہاں ان کا جھنڈ ہوتاہے، وہاں ایسا لگتا ہے جیسے ٹیوب لائٹ جل رہی ہے۔ یہ لوگ ایسی روشنی دیکھتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ وہاں ان کی مطلوبہ مچھلیاں موجود ہیں۔ چوںکہ ان کی رفتار نسبتاً زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا ان کا شکار کرنے کے لیے جھنڈ کی سمت میں کشتی کو ذرا آگے لے جاکر جال پھینکا جاتا ہے اور پھر کشتی کو دائرے کی شکل میں گھمایا جاتا ہے تاکہ مچھلیوں کے گرد گھیرا تنگ ہوجائے۔ جب انہیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ مچھلیاں جال میں پوری طرح پھنس چکی ہیں تو جال کو اوپر اٹھا لیا جاتا ہے۔
یہ مچھلیاں عموماً گہرے سمندر میں ملتی ہیں۔ ابراہیم حیدری کے ساحل سے دس تا بارہ بحری میل کے فاصلے پرگہرا سمندر شروع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا کبھی مطلوبہ مقدار میں شکار ملنے کی صورت میں محض تین گھنٹے میں واپسی ہوجاتی ہے۔ کبھی رات بھر شکار نہیں ملتا اور صبح بہت کم مچھلیوں کے ساتھ ان لوگوں کی واپسی ہوتی ہے۔ گند مچھلی کا شکار کرنے کے بعد اسے برف میں نہیں رکھا جاتا کیوں کہ انہیں سڑنے گلنے سے بچانا مقصود نہیں ہوتا۔ ماہی گیروں کے مطابق ان مچھلیوں میں کانٹے بہت ہوتے ہیں لہٰذا عام طورسے لوگ انہیں نہیں کھاتے، تاہم ماہی گیر انہیں کھانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور ان کا ذائقہ دیگر مچھلیوں جیسا ہی ہوتا ہے۔
شکار نہ لگے تو ’’لاڑا‘‘
ماہی گیروںکے مطابق وہ ایک پھیرے میں کم ازکم تین ہزار کلو گرام ’’گند مچھلی‘‘ لائیں تو انہیں نفع ہوتا ہے اور نہ نقصان۔ منافع آٹھ تا دس ہزار کلو گرام مچھلیاں لانے پر ہوتا ہے۔ ایک پھیرے پرپینتیس تا چالیس ہزار روپے خرچ آتا ہے اور اس میں تقریباً 280لیٹر ڈیزل خرچ ہوتا ہے۔ایک پھیرے کے لیے تقریباً دس ہزارروپے مالیت کا راشن لے کر جانا پڑتا ہے، جس میں گوشت، مچھلی، آٹا، چاول، دودھ، چائے کی پتّی، جلانے کے لیے لکڑی اور میٹھا پانی شامل ہوتا ہے۔
ستّائیس تا پینتیس فیٹ طویل کشتی میں پچاس تا ساٹھ خلاصی ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو ’’خرچہ پانی‘‘ کے طور پر یومیہ کم از کم دو سو روپے دیے جاتے ہیں۔ واپسی پر نجی گودی یاجیٹی پر مچھلیاں اتاری جاتی ہیں۔ جیٹی استعمال کرنے کے لیے ماہانہ کچھ رقم اور ایک ٹرک مچھلی سے بھرنے پر فی ٹرکپانچ ،چھ سو روپے جیٹی کے مالک کو ادا کرنے ہوتے ہیں۔ مارچ تا اپریل کے ماہ ’’آف سیزن‘‘ شمار ہوتے ہیں۔ ان مہینوں میں نرخ سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ مئی تا اگست کے مہینے ’’ڈیڈ سیزن‘‘ شمار ہوتے ہیں۔ ان مہینوں میں بہت کم شکار ہوتا ہے۔
جنوری اور فروری کے مہینوں میں یہ لوگ شکار کرنے کے لیے بلوچستان کی سمندری حدود میں جاتے ہیں۔ اگر ماہی گیر مسلسل تین پھیروں میں مطلوبہ مقدار میں مچھلیاں نہ پکڑ پائیں تو اس صورت حال کو یہ لوگ اپنی زبان میں ’’لاڑا‘‘ (یعنی نقصان) کہتے ہیں۔ اس صورت میں کشتی کے ’’ناکو‘‘ (کپتان) کے کاندھوں پر سارا خرچ آجاتا ہے۔ یعنی ہر پھیرے پر خرچ ہونے والی رقم اور عملے کو کی جانے والی ادائیگی اپنی جیب سے کرنا پڑتی ہے۔
عملے کی اجرت ادا کرنے کے لیے ان کا روایتی معاہدہ استعمال ہوتا ہے، جس کے مطابق ایک ہفتے میں پکڑی جانے والی مچھلیوں کی مالیت کا حساب کرکے اس میں سے اخراجات منہا کرلیے جاتے ہیں۔ اب بچ جانے والی رقم میں کشتی کے مالک کی 35پتّی (یعنی 35فی صد)، سرنگ (مزدوروں یا خلاصیوں کا انچارج) کی دو،خلاصی کی ایک، سخانی (کشتی کا ڈرائیور) کی ایک، انجن چلانے والے مستری کی ایک، باورچی کی نصف اور ناکو کی آٹھ پتّی ہوتی ہے۔ کشتی کا مالک اپنے حصّے میں سے انجن اور کشتی کے ڈرائیور، ناکو، باورچی اور سرنگ کو ادائیگیاں کرتا ہے۔
کسی کو نقصان، تو کوئی کروڑ پتی
کبھی یہ لوگ مسلسل نقصان اٹھاتے ہیں اور کبھی محض چند گھنٹوں کی مدت میں کوئی لکھ پتی یا کروڑ پتی بن جاتا ہے۔ ماہی گیروں کے مطابق بعض اوقات ’’گند مچھلی‘‘ کے ساتھ سوا مچھلی جال میں پھنس جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جال میں جھینگا اور بڑی مچھلیاں بھی پھنس جاتی ہیں۔ ’’سوا‘‘ مچھلیوں کے بھی سمندر میں جھنڈ چلتے ہیں۔ یہ عموماً سمندر کی تہہ میں ہوتی ہیں۔ سمندر میں کسی مقام کے اردگرد پانی صاف ،شفاف ہو اور اس مقام پر تہہ سے مٹّی اوپر کی طرف آکر پانی کو گدلا کررہی ہوتو یہ اس مچھلی کی موجودگی کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔
ایسی صورت حال میں یہ لوگ فوراً اس مقام پر جال پھینکتے ہیں اور کشتی کو دائرے میں گھمانے کے بعد جال کا نچلا حصّہ پہلے اوپر اٹھایا جاتا ہے۔اس دوران مکمل خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے، بہ صورتِ دیگر یہ مچھلیاں بھاگ جاتی ہیں۔ جال کو پانی کی سطح کے قریب لانے کے بعد اس پر ایک آدھ لیٹر ڈیزل پھینک دیاجاتاہے، جس کی وجہ سے یہ مچھلیاں بے ہوش ہوجاتی ہیں۔ بتایا گیا کہ یہ مچھلیاں بہت طاقت ور ہوتی ہیں اور اگر ان پر ڈیزل نہ ڈالا جائے تو یہ جال میں بہت جدوجہد کرتی ہیں اور بعض اوقات اسے توڑ کر بھاگ جاتی ہیں۔
مقامی ماہی گیروں کے مطابق ایسی ایک مچھلی کا وزن بیس تا چالیس کلو گرام ہوتا ہے۔ کبھی کسی ماہی گیرکو ایسی دو چار مچھلیاں مل جاتی ہیں تو کسی کو زیادہ۔ عمر نامی ماہی گیر کو ایک مرتبہ ایسی تقریباً ایک کروڑ روپے مالیت کی مچھلیاں مل گئی تھیں۔ یہ مقامی زبان میں تھیلی یا تھیری کہی جانے والی مچھلی سے مشابہ ہوتی ہے۔
اگر یہ مچھلی کسی ماہی گیر کو مل جائے تو اسے فروخت کرنے کے لیے کراچی فش ہاربرکا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے جسم کے ایک مخصوص اندرونی حصّے کو یہ لوگ ’’پھوٹی‘‘ کہتے ہیں جس سے جراحی کے دوران اندرون جسم ٹانکا لگانے کے لیے دھاگا تیار کیا جاتا ہے۔ اس دھاگے کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ کچھ عرصے بعد یہ خود بخود تحلیل ہوجاتا ہے۔ ’’پھوٹی‘‘ اور سوا مچھلی کو پیک کرکے عموماً برآمد کردیا جاتا ہے۔