11مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے سینیٹر اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ کا قلمدان سونپا ، جو کہ ماضی میں بھی دو مرتبہ وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔انہیں انتہائی خستہ حال معیشت ورثے میں ملی۔ماضی میں کسی بھی حکومت کو اس طرح کی مخدوش معیشت ورثے میں نہیں ملی جیسی کہ اب ہے،وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ورثے میں ملنے والے معاشی چیلنجز کیا ہیں اور انہیں حل کرنے کیلئے انہیں کیا اقدامات کرنے چاہئیں، یہ میرے آرٹیکل کا عنوان ہے۔ سرمایہ کاری کی شرح جو کہ بڑھتی ہوئی معاشی پیداوار میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، سال 2007-08ء میں جی ڈی پی19.2 فیصد سے کم ہوکر 2012-13ء میں14.2فیصد ہوگئی ہے یعنی سرمایہ کاری میں جی ڈی پی کی شرح5 فیصد تک کم ہوئی۔سرمایہ کاری میں کمی کا رحجان اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے شعبے میں بدانتظامی کی وجہ سے معاشی پیداوار کی شرح میں سالانہ اضافہ3 فیصد تک ہوگیا۔ معاشی پیداوار میں کمی کی وجہ سے معیشت کی نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی صلاحیتوں میں کمی کا باعث بنی۔ نئی ملازمتوں کے اجراء کیلئے معیشت کی پیداوار کی سالانہ شرح 7 سے 8 فیصد تک ہونا چاہئے۔ اگر معیشت کی پیداوار کی سالانہ شرح 3 فیصد ہو تو قدرتی طور پر نئے روزگار کے خواہشمند افراد ملازمت حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے جو غربت اور عدم مساوات کا باعث بنتا ہے۔ مالی بے انتظامی گزشتہ دور حکومت کی علامت رہی ہے۔گزشتہ 5 برس کے دوران بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7.2فیصد رہا جس کی وجہ سے سرکاری قرضے میں تیزی سے اضافہ ہوا جو کہ اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیا جس کے نتیجے میں ایف بی آر سے حاصل ہونے والی ریونیو کی رقم کا نصف حصہ سود کی ادائیگی میں صرف کیا جارہا ہے۔ سینیٹر ڈار کو ورثے میں ملنے والا روپیہ 38سے 40فیصد تک اپنی قدر کھو چکا ہے جو کہ شوکت ترین کا مرہون منت ہے اور اس وقت بھی سودی رقم کی ادائیگوں کی وجہ سے انتہائی دباؤ کا شکار ہے۔سینیٹر ڈار کو ایک مایوس اور بے ترتیب پرائیوٹ سیکٹر بھی وراثت میں ملا ہے۔ مختصر یہ کہ سینیٹر ڈار کو مذکورہ بحران وراثت میں ملے ہیں۔ جن میں مایوسی کا شکار پرائیوٹ سیکٹر، گرتی ہوئی سرمایہ کاری، معاشی پیداوار کی شرح میں کمی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، غربت اور عدم مساوات، وسیع مالی قرضہ، بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ، افراط زرکے بڑھتے ہوئے دباؤ اور گشتی قرضوں کی وجہ سے کمزور کرنسی، قرضوں کی واپسی کا بحران، بیرون زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر اور بدترین بجلی بحران شامل ہیں۔ یہ تمام ایک بھیانک چیلنجز ہیں جسے حل کرنے کیلئے وزیر خزانہ کو غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناخوشگوار فیصلے لینا ہوں گے، جن میں ایک مضبوط معاشی ٹیم کا قیام اور سیاسی قیادت کی اوپر بتائے گئے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے سیاسی قیادت کی پوری توجہ درکار ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسے پرامن ماحول کی ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کا دارومدار معیشت کا استحکام ہو۔ ان تمام مختلف چیلنجز سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے؟کوئی حکومت یا وزیر خزانہ ایک ہی وقت میں ان چیلنجز کو حل نہیں کرسکتا۔ وزیر خزانہ کو ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ان کی ترجیحات کا تعین کرنا پڑے گا اور ان میں سب سے اہم مسئلے کو پہلے حل کرنا ہوگا۔ بجلی کے شعبے کے مسائل حکومت کی سب سے اہم ترجیح ہونا چاہئے۔ بجلی کی موجودگی سے معاشی پیداوار کے اہم مسئلے کو ختم کیا جاسکتا ہے اور حکومت اس ضمن میں ایک صحیح سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ گشتی قرضے کا مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے اور حکومت کو رواں سال 13/اگست کے بعد اس کے دوبارہ سامنے آنے سے روکنے کیلئے سخت محنت کرنا ہوگی۔ سرکاری اداروں کی بحالی حکومت کی دوسری اہم ترین ترجیح ہونا چاہئے۔پرائیویٹ سیکٹر11مئی کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد بہت زیادہ خوش ہے اور حکومت کی جانب سے مالی سال 2013-14ء کے بجٹ کی صحیح سمت میں جانے اور حکومتی ترجیج کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ لوگ وزیراعظم کی جانب سے تمام چیمبر آف کامرس اور انڈسٹری کے دورے کی توقع کر رہے ہیں تاکہ ان کا مورال بلند کیا جا سکے جو ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔ بجٹ پر ملا جلا ردعمل رہا اور وزیراعظم پرائیویٹ سیکٹر کے عہدیداران سے ملاقات کیلئے وقت نہیں نکال سکے۔ایک طرف تو عدالتی معاملات کی جنگ اور دوسری جانب بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال نے پرائیویٹ سیکٹر پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس کالم کے ذریعے سے میں وزیراعظم سے درخواست کروں گا کہ وہ بڑے چیمبر آف کامرس اور انڈسٹری کا دورہ کریں، بڑے صنعت کاروں، بینکاروں، بیرون ملک چیمبر آف کامرس اور امریکی بزنس کاؤنسل کے عہدیداروں سے ترجیحی بنیادوں پر ملاقاتیں کریں اور انہیں ایک امید دلائی جائے اور معیشت کی بحالی کی حکومتی پالیسی پر اعتماد میں لیا جائے۔پرائیویٹ سیکٹر سے ملاقاتیں ان کی حکومت کی طرز حکمرانی کا ایک اہم جزو ہونا چاہئے اور اس معاملے میں وزیرخزانہ، وزیراعظم اور پرائیویٹ سیکٹر کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام وزیر خزانہ کی ایک اور ترجیح ہونی چاہئے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری ہے اور اس کے کامیاب اختتام کیلئے ہر ممکن کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہ پروگرام حکومت کے بیرونی قرضوں کی رقم کی ادائیگی کے بحران کو دور کرنے میں سازگار ثابت ہوگا کیوں کہ اس کی وجہ سے پاکستان کے قابل استعمال بیرون زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام سے مختلف ذرائع سے بیرونی آمد زر کی راہیں کھلیں گی اور اس کے نتیجے میں غیر ملکی سرمایہ کاروں اور دیگر دوطرفہ اور مختلف ریاستی اداروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ معیشت کا استحکام وزیر خزانہ اور ان کی حکومت کیلئے ناگزیر ہے۔ بڑھتے ہوئے مالی اخراجات کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے دستیاب وسائل کو بروئے کار لانا اور ایک متوازن معاشی ماحول پیدا کرنا وزیر خزانہ کیلئے ایک حقیقی چیلنج ہو گا۔ بجٹ 2013-14ء کو بہت سے خطرات کا سامنا ہے اور بجٹ کیلئے مختص کئے گئے تمام اہداف کو حاصل کرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ وزیر خزانہ کو روینیو یا اخراجات یا ان دونوں میں ناکامی کی صورت میں اہم اقدامات کیلئے تیار رہنا چاہئے۔مالی لا مرکزیت کو ترتیب دینا حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ موجودہ این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل میں ہی نقص ہے اور اس کو ختم کئے بغیر ملک میں معاشیاتی استحکام نہیں لایا جاسکتا۔ آئی ایم ایف پروگرام کیلئے کامیاب مذاکرات کی صورت میں کوئی بھی وفاقی وزیر خزانہ پروگرام کے اہداف کو حاصل کرنے کے قابل نہیں ہو گا جس میں خصوصی طور پر بجٹ خسارے کے اہداف شامل ہیں۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے ہم سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور اس کو ٹھیک کرنا ملکی معیشت کی ترقی کیلئے ناگزیر ہوگا۔ اس تشکیلی نقص کو دور کرنے کے کئی طریقے موجود ہیں اور اس کیلئے صرف آمادگی کی ضرورت ہے۔
ملک میں موجود معاشی ترقی کے اہم اداروں میں امن اور استحکام کے قیام اور عدالت سے محاذ آرائی سے اجتناب کرنا ملک میں دستیاب وسائل کو بروئے کار لانے سے پرائیویٹ سیکٹر کا اعتماد بحال ہوگا اور ملکی معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ وزیر خزانہ اور ان کی حکومت کو ملک بالخصوص کراچی میں امن اور استحکام پیدا کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات پر غور کرنا پڑے گا۔
وزیر خزانہ کو اپنی معاشی ٹیم مضبوط کرنا ہوگی اور اپنی وزارت کیلئے ایک قابل ترجمان تعینات کرنا ہوگا۔ وہ پارلیمینٹ میں سوالات کا جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے، ٹالک شوز میں نہیں آسکتے، میڈیا سے بات نہیں کرسکتے اور پاکستان کی قیادت کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرتے ہوئے ان کے سامنے اپنے موقف کو صحیح طریقے سے اجاگر نہیں کر سکتے۔ انہیں ان کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکنے چاہئیں۔وزیر خزانہ کو ایک بدتر معیشت ورثے میں ملی ہے انہیں چیلنجز کی ترجیحات کا تعین اور ان کے حل کیلئے غیر ضروری سوچ اختیار کرنا ہوگی۔ ملک میں خصوصاً پرائیویٹ سیکٹر میں غیر فعالی کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے جسے تبدیل کرنے کیلئے ایک موثر حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔