• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سے پہلے تو یہ خوشگوار تاثر کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی بریفنگ میں اپوزیشن کی شرکت بڑی حد تک شعوری پختگی کا ثبوت ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم میں یہ صلاحیت پیدا ہو گئی ہے کہ جہاں مملکت کی سلامتی کا مسئلہ ہو وہاں ہم اختلافات بھلا کر اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں۔ وزیراعظم کی شرکت اس تاثر کو مزید طاقت ور کر سکتی تھی لیکن یہ سوچ کر اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم کو تو اس سلسلے میں بریفنگ ملتی ہی رہتی ہے۔ یہ وقت انہوں نے ایک اور اچھے مقصد کے لئے استعمال کرلیا۔

ایک اور مسرت اس ہفتے یہ ملی کہ حکومت پنجاب نے 2022میں ڈائمنڈ جوبلی کے سلسلے میں ہدایات جاری کردی ہیں۔ یہ عظیم منصب پنجاب کی ایڈیشنل چیف سیکرٹری ارم بخاری صاحبہ کو نصیب ہوا ہے۔ ان کی طرف سے کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو تفصیلی پروگرام بھیجے گئے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہم نے اگست 2020میں ان کالموں میں اس طرف توجہ دلائی تھی کہ انتہائی نامساعد حالات میں آزادی کے 75سال پورے کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی ایک عطا ہے۔ ہم نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ اس موقع پر ان قربانیوں اور شہادتوں کو یاد رکھا جائے جو 1947میں ہمارے آباؤ اجداد نے بھارت سے پاکستان آتے ہوئے دیں اور مشرقی پاکستان کو بھی یاد رکھا جائے کہ ان 75سال میں 1971تک وہ بھی پاکستان کا حصہ تھا۔ میری ارم بخاری صاحبہ سے فون پر بات بھی ہوئی ہے خوشی ہوئی کہ وہ بہت پُرعزم ہیں۔ اور بہت سے خواب ہیں ان کے اس سلسلے میں۔ اس موضوع پر آپ سے بات ہوتی رہے گی کہ 14اگست 2021بھی آنے والی ہے جب آزادی کا 75واں سال باقاعدہ شروع ہوجائے گا۔

آج اتوار ہے۔ اپنی آنے والی نسلوں کے ساتھ بیٹھ کر بیتے دنوں کو دہرانے اور آتے دنوں کے خواب دیکھنے کادن۔ آج میں اس اقتصادی حکمتِ عملی پر بات کرنا چاہتا ہوں جو بجٹ 22-2021 کے لئے اختیار کی گئی ہے۔ اس میں ہمارے آزادی کے 75ویں برس کی پہلی ششماہی بھی شامل ہے۔ پہلے تو پوچھا جاتا تھا کہ جمہوریت کے اثرات نچلے طبقے تک کیوں نہیں پہنچ رہے ہیں؟ اس سوال کا اطمینان بخش جواب تو 74 سال سے نہیں مل سکا۔ اور نچلے طبقے کی بھیڑ میں اضافہ ہوتا رہا۔ اب غربت کی لکیر سے نیچے ساڑھے پانچ کروڑ پاکستانی سسکیاں لے رہے ہیں۔ غربت کی لکیر سے اوپر بھی غریب موجود ہیں۔ ان محروموں کے لئے اب نئے وزیر خزانہ نے نئی حکمت عملی متعارف کراکے نیچے تک ثمرات جانے کے سوال کو ہی بے معنی قرار دے دیا ہے۔ اب ان کا دعویٰ ہے کہ ثمرات نیچے سے اوپر جائیں گے۔ Trickle Down کی بجائے Bottom up کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔

مفلوک الحال رندوں کو مبارک ہو کہ غربت کی لکیر کو پار کرنے کا لمحہ آرہا ہے۔ اب پیر مغاں ہیں عمران خان۔ اور ساقی ہیں شوکت ترین۔ وہ کہتے ہیں کہ Trickle Down ۔ اوپر سے نیچے قطرہ قطرہ جانے کی پالیسی سے غریبوں کو کوئی راحت نہیں ملی۔ اب ’باٹم اپ‘ کی پالیسی اپنائی جائے گی۔ راحتیں اور ترقی نیچے سے اوپر کی طرف جائیں گی۔ وسائل کی از سر نو تقسیم ہوگی۔ ترقی کے اس منصوبے میں چالیس سے 60لاکھ گھرانوں کو استطاعت اور طاقت فراہم کی جائے گی کہ وہ اپنی بہبود خود سنبھالیں ۔

عبث ہے شکوۂ تقدیر یزداں

تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے

اس پیکیج سے کاشتکاروں اور غیر کاشتکاروں کو بلا سود قرضے ملیں گے۔ غیر کاشتکار اپنا کوئی چھوٹا بزنس شروع کرسکیں گے۔ کاشتکار کو بوائی اور کٹائی کے وقت بلاسود قرضہ ملے گا۔ گھر کے لئے 20لاکھ تک کا قرضہ بھی دیا جائے گا۔ جہاں جہاں ضرورت ہوگی۔ مفت ٹیکنیکل ٹریننگ بھی۔ارادے بہت اچھے ہیں۔ لیکن یہ ایک دم کایا پلٹ ہے۔ اس کے لئے جس قسم کا انفر اسٹرکچر چاہئے ۔ کیا وہ اس وقت ملک میں ہے۔ سرکاری محکموں میں کیا یہ جذبہ موجود ہے۔ قرضے دینے والے اداروں میں حکومتی اہلکاروں میں بھی وہ خلوص اور اشتیاق منتقل ہوا ہے جو اس پالیسی کی بنیادی سوچ ہے؟ یہ گھرانے تو ابھی یہ کہہ رہے ہیں:

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام

ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

پانی ڈھلوان میں تو از خود چلا جاتا ہے۔ لیکن اوپر چڑھانے کے لئے مشین لگانا پڑتی ہے۔ خوشحالی نیچے سے اوپر لے جانے کے لئے جو سسٹم درکار ہے کیا وہ اتنی جلدی قائم ہوسکے گا۔ بلدیاتی ادارے اس میں سب سے زیادہ معاون ہوسکتے تھے۔ وہ ہیں ہی نہیں ہوں گے تو بے اختیار۔ ایسی اسکیموں کے لئے کمیون سسٹم، یونین کونسل سسٹم، کمیونٹی جذبہ ضروری ہے۔

یہ فلسفہ اسکینڈے نیوین ممالک میں اور دوسرے اچھی شرح خواندگی رکھنے والے ملکوں میں کامیاب رہا ہے۔ ہم وطنوں کو اپنے شہر کی اہمیت کا احساس دلانا پڑتا ہے۔ ملکی معیشت اور صوبائی معیشت کے ساتھ ضلعی معیشت کو فعال کرنا ناگزیر ہے۔ اس کے لئے ضلعی حکومتیں ہونی چاہئیں۔ وفاق اور صوبے کو مقامی معیشت میں سرمایہ لگانا چاہئے پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بہت مقامی وسائل دیے ہیں۔ لیکن وفاق اور صوبے نے کبھی مقامی خودی کو بیدار نہیں ہونے دیا۔ ضلعوں، تحصیلوں اور قصبوں کو صوبائی اور مرکزی دارالحکومتوں کا محتاج رکھا ہے۔ اس لئے دیہات اور قصبوں سے شہروں میں جاکر روزگار تلاش کرنے کے ہجرتی سلسلے جاری رہے ہیں جس سے شہریوں کا اپنے شہر اور گائوں سے رشتہ کمزور ہوتا چلا گیا ہے۔ پھر ہمارے Electable انتخابیوں کی ہوس زر نے بھی مقامی جذبے کو سرد کر رکھا ہے۔ اس لئے یہ بھی خطرہ رہے گا کہ بلا سود قرضے متعلقہ گھرانوں تک پہنچیں گے بھی کہ نہیں۔ اپنے چھوٹے موٹے بزنس کرنے کا حوصلہ بھی ہوگا۔ اور کیا اس کے لئے دوستانہ ماحول بھی ہے۔ شوکت ترین نے بہت بڑا چیلنج قبول کیا ہے۔ وقت بہت کم ہے۔ ویسے تو ملک کے سوا تین کروڑ گھرانوں میں سے اگر 50 لاکھ گھرانے بھی اس باٹم اپ کے ذریعے خود کفیل ہوجاتے ہیں۔ یہ تاریخ ساز تبدیلی ہوگی۔ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے جن اقتصادی اور انتظامی ٹیموں کی ضرورت ہے۔ ان کی تشکیل شروع ہوجانی چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین