• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، جاپان، اٹلی اور کینیڈا پر مشتمل G7ممالک مستقبل کے حوالے سے غوروخوض کرنے کے لئے جنوب مغربی انگلینڈ کی کاؤنٹی کارن وال میں جمع ہوئے۔ اس سال کے G7سربراہی اجلاس کابنیادی ایجنڈا دنیا بھر میں چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا تھا۔ بہت سے نئے منصوبوںپر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے پلان ترتیب دیے گئے، ان تمام منصوبوں کا بنیادی مقصد چین کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرنا ہے۔ G7سربراہی اجلاس کا نقطہ نظر بالکل کھوکھلا ہے، تجزیہ کاروں اور جغرافیائی ماہرین نے ان مقاصد کو ناقص قرار دیا ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ دنیا کی طاقتور ترین قومیں آج دنیا کو تسخیر کرنے سے قاصر ہیں، اگر دنیا بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے تو اسے سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہئے۔G7سربراہی اجلاس میں مضحکہ خیز اعداد و شمار پیش کیے گئے جو اثر پذیر ہیںنہ دنیا کو درپیش مسائل سے مطابقت رکھتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ G7ممالک عالمی جی ڈی پی کا 40فیصد رکھتے ہیں اور ان کی آبادی دنیا کے دسویں حصے پر مشتمل ہےجس سے اس حقیقت کی غمازی ہوتی ہے کہ G7سربراہی اجلاس دنیا کی اکثریت کا نمائندہ نہیں، بلکہ صرف دولت مند ملکوں کا اپنے مفادات کے حصول کے لئے گٹھ جوڑ ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ روس جی 8سربراہی اجلاس کا حصہ تھا لیکن 2014 میں کریمیا کے الحاق کے بعد اسے جی 8گروپ سے معطل کردیا گیا تھا۔ G7 اس وقت مشترکہ اہداف، باہمی مفادات اور مشترکہ اقدار کا ایک مثالی اتحادہے۔ G7 ممالک پر جاپان کو چھوڑ کر سفید فام مسیحیوں کی نمائندہ تنظیم ہونے کا الزام عائد بھی کیا جاتا ہے۔

بورس جانسن، جو بائیڈن اور اینجلا مرکل نے واضح طور پر چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ G7سربراہی اجلاس میں اوغور آبادی کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں پر چینی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ G7نے چین پر ہانگ کانگ کے ریاستی امور میں دخل اندازی کا الزام عائد کرتے ہوئے بیجنگ سے مطالبہ کیا کہ وہ ہانگ کانگ کی خودمختاری کو روکنے والے سکیورٹی کے تمام قوانین اور ان کے نفاذ کے طریقہ کار کو معطل کرے۔ G7نے ترقی پذیر ممالک میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو قرضوںکا جال قرار دیا۔ G7 رہنماؤں نے G7کی توجہ تین اہم شعبوں موسمیاتی تبدیلی، لیبر پروٹیکشن اور انسدادِ بدعنوانی کی جانب مرکوز کروائی ۔ چینی اثر کو ختم کرنے کے لئے جی7 نے اعلان کیا کہ وہ ترقی پذیر ممالک میں گرین ٹیکنالوجیز کو فروغ دینے اور کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں ان کی مدد کرنے کیلئے 40 بلین ڈالر ز دینگے۔اس پربیجنگ نے انتہائی متناسب ردِعمل دیا ہے، چینی حکومت نے کہاہےکہ G7 سربراہی اجلاس سیاسی عمل ہے جو تنازعات کے فروغ کے سوا کچھ نہیں ہے، بیجنگ نے G7 ممالک کے مؤقف کو چین کی داخلی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ چین نے کوویڈ 19 وائرس کے پھیلائو کے الزامات کو بھی غیرواضح اور بے بنیاد قرار دیا۔

تجزیاتی نقطہ نظر سےB3W پروجیکٹ اور چینی OBOR پروجیکٹ کے مابین موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ بی 3 ڈبلیو پروجیکٹ بنیادی طور پر آب و ہوا کی تبدیلی پر مرکوز ہے جس میں اینٹی کرپشن اور لیبر فنڈز کے اضافی مقاصد شامل کیے گئے ہیں جبکہ OBOR حقیقت پسندانہ، اور ترقی کے حقیقی مواقع کا حامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے معاملے میں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ یہ امریکہ ہی تھا جس نے کیوٹو کنونشن سے دستبرداری اختیار کی اور کاربن اخراج کے اہداف کی پاسداری نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔اب جو بائیڈن ترقی پذیر ممالک کے لئے گرین کلائمیٹ چینج فنڈ کے عظیم خیال کو سامنے لائے ہیں لیکن ان کے ریپبلکن پیشرو مجموعی طور پر موسمیاتی تبدیلی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ افریقہ اور مشرق وسطیٰ جیسے خطوں کے ممالک کے لئے موسمیاتی تبدیلی ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ یہ ایک مبہم تجویز ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک گرین ٹیکنالوجی کے لئے فنڈز کو قبول کرسکتے ہیں جبکہ انہیں در حقیقت ملازمتوں کے مواقع، مارکیٹ کے استحکام، بنیادی ضروریات کے بنیادی ڈھانچوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف OBOR ٹھوس بنیادوں پر نمو پذیرکثیر الجہت اور کثیر المقاصد منصوبہ ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو گرین پاور اور لیبر کے معیار کی اتنی ضرورت نہیں جتنی انہیں بجلی، پینے کے صاف پانی، ملازمتوں اور اسپتالوں کی ہے۔

چین کے خلاف سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دلیل قرض کے جال کی ہے۔ G7 ممالک کا نظریہ ہے کہ چین غریب ممالک کو قرضوں میں جکڑ رہا ہے اور ان قرضوں کو حکومتی اثر و رسوخ اورجغرافیائی ضرورتوں کے مطابق استعمال کرے گا۔ لیکن حقیقت پسندانہ تجزیہ کیاجائے تو چین ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ دنیا میں شامل ہونے کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔ بیشتر ممالک پہلے ہی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے بڑے قرضوں اور بیل آؤٹ پیکجز کی زد میں ہیں جن کو براہ راست کنٹرول G7 یا واشنگٹن کرتے ہیں۔ اس کی بجائے چین مل کر تعمیر و ترقی کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ بڑی آبادی کے باوجود بھی ہندوستان G7 کا حصہ نہیں ہے جبکہ اٹلی نے G7کا حصہ ہونے کے باوجود، چینی اوبور منصوبے کا حصہ بننے کیلئے معاہدہ کیا ہے۔ پاکستان اور گوادر دو طرفہ تعلقات، تعاون اور علاقائی سالمیت کی ایک واضح مثال ہیں جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی وحشیانہ اقتصادی پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ چین ایک توسیع پانے والی سپر پاور ہے جو ترقی کی طرف ایک نئے نقطہ نظر کے ساتھ بڑھ رہاہے، پرانے مغربی کنٹرول کے ساتھ پرانی دنیا معدوم ہوتی جارہی ہے، توقع کی جاسکتی ہے کہ جدید دنیا ایک ایسی سپر پاور کی راہ ہموار کرے گی جس کا خواب سوشلسٹ رہنمائوں نے دیکھا تھا۔

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین