• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقریر ختم ہوتے ہی پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا ۔وہ اسٹیج سے نیچے اُترا تو ہال میں بیٹھے تمام لوگوں نے کھڑے ہو کر اسے داد دی۔ رپورٹرز، فوٹو گرافرز اس کے آگے پیچھے بھاگ رہے تھے،آج اس کے ادارے کے پہلے پراجیکٹ کی لانچنگ تھی۔ اس کا پہلا آئیڈیا ہی ایسا شان دار تھا کہ پراجیکٹ شروع ہونے سے پہلے ہی اس کی دھوم مچ چُکی تھی۔ مُلک کی بڑی اشتہاری کمپنیاں اس کے ساتھ کھڑی تھیں اور آج کی تقریب میں ان کمپنیوں کے سی ای اوز بھی موجود تھے۔

وہ ابھی اسٹیج سے اُترا ہی تھا کہ صحافیوں کے ایک جُھنڈ نے اسے گھیر لیااور آنے والے پراجیکٹس سے متعلق سوالات کرنےلگے۔اسی دوران کہیں سے آواز آئی’’سر! اس پراجیکٹ کا خیال آپ کو کیسے اور کیوں آیا؟ اس کے پیچھے کیا سوچ کار فرما تھی؟‘‘اُسے سوال کرنے والے کی آواز دُور سے آتی محسوس ہوئی اور ساتھ ہی وہ ماضی کے دھندلکوں میں کھوسا گیا ، جہاں اسے شدّت سےکسی کی یاد آئی ۔ سوال نے اسے پھر اُسی اسٹیشن پرپہنچا دیا تھا، جہاں سے اُس کا سفر شروع ہوا تھا۔

وہ چھوٹاسا ایک اسٹیشن تھا، جس کے اِرد گرد ہرے بھرے کھیت ، کنارے پر پیپل کے درخت قطار دَر قطار کھڑے ،مسافروں کو سایہ دیتے تھے۔ اسٹیشن کی پرانی طرز کی عمارت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔وہ ماحول اسے اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔ وہ اس منظر سے لُطف اندوز ہوتے ہوئے ٹرین کے انتظار میں وہاں موجود ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ مسافر ٹرینوں میں سے کوئی ایک آدھ ہی وہاں رُکتی تھی،وہ اپنے جگری دوست، حسیب کے ساتھ اس کی شادی میں شرکت کے لیےگائوں آیا تھا اور اب واپس جا رہا تھا۔

گائوں کے کچھ بچّے جیب سے سکّے نکال کر پٹری پر رکھ کے ٹرین کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔اس دوران دو تین ٹرینیں گزری تھیں، جن کا اسٹاپ یہاں نہیں تھااور اُن کے گزرنے کے بعد بچّے بھاگتے ہوئے اس جگہ جاتے اور ان سکّوں کو اُٹھا کر دیکھتے، جو ٹرین کے پہیّوں کے نیچے آ کر مختلف ملکوں کے نقشوں کی مانند بن چُکے تھے، بچّے سکّوں کا یہ حال دیکھ کر انتہائی خوش ہو رہے تھے کہ یہی ان کا کھیل تھا۔ اور وہ بھی بچّوں کی معصوم مسکراہٹ دیکھ کر خودبخود مُسکرا رہا تھا۔’’بیٹا! تھوڑا ساپانی مل جائے گا؟‘‘اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا توپیوند لگے کپڑے پہنے، ہاتھ میں لاٹھی لیے ،کمر پر گٹھری ڈالے ،پسینے میں شرابور وہ بوڑھا اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔اُس نے اپنے پاس موجود منرل واٹر کی بوتل اُسے تھما ئی تو بوڑھا وہیںنیچے بیٹھ کر پانی پینے لگا۔

ٹرین آنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ اس نے بیگ سے لیپ ٹاپ نکال کر آن کیا اور رات کو ڈائون لوڈ کی ہوئی کچھ فائلز دیکھنے لگا۔’’بیٹا یہ کیا چیز ہے ؟‘‘بوڑھےکی آواز نے اسے ایک بار پھر پیچھے دیکھنے پر مجبور کر دیا۔’’بابا! اسے لیپ ٹاپ کہتے ہیں ‘‘’’اس سے کیا کرتے ہیں ؟‘‘بوڑھے نے معصومیت سے پوچھا۔’’اس کے ذریعے مَیں یہاں سے بیٹھے بیٹھےاپنے سب کام کر سکتا ہوں‘‘ اُس نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’یہاں بیٹھے بیٹھے سارے کام ہو جاتے ہیں؟‘‘ بوڑھے نے حیرانی سے دیکھا۔’’جی بابا! یہ تو پھر بھی سائز میں بڑا ہے، اب تو موبائل فونز اتنے جدید ہو گئے ہیں کہ اُن ہی سے سارے کام ہو جاتے ہیں۔‘‘ اس نے اپنا نیا آئی فون نکالا اور بوڑھےکو دِکھاتے ہوئے فخریہ انداز سے کہا۔’’بیٹا !کیا کیا کام ہو جاتے ہیں اس سے ؟‘‘

’’بابا! اب کیاکیا بتائوں آپ کو،یوں سمجھیں کہ پوری دنیا میرے ہاتھوں میں آگئی ہے۔ یہاں بیٹھ کر مَیں دنیا میں کسی بھی شخص کو اپنا دوست بنا سکتا ہوں، اس سے بات کر سکتا ہوں، کوئی بھی چیز بھیجنی یا منگوانی ہو تو بیٹھے بیٹھے آرڈر کر سکتا ہوں، اپنا بزنس چلا سکتا ہوں، دنیا بہت آگے نکل گئی ہے بابا۔ انسان مریخ تک پہنچ گیا ہے، لیکن آپ کو کیسے سمجھاؤں ، یہ سب آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔‘‘یہ کہہ کر وہ اپنے کام میں منہمک ہو گیا۔ ’’سچ کہتے ہو بیٹا !یہ باتیں مجھ جاہل کو کیا سمجھ آئیں گی؟لیکن جو تم نے بتایا ہے، اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا نے بڑی ترقّی کر لی ہے۔‘‘’’جی بابا۔‘‘وہ پھر لیپ ٹاپ میں فائلز دیکھنے لگا ۔

کافی دیر کی خاموشی کے بعد بوڑھے نے اچانک پھر سوال کیا’’بیٹا! یہ اتنی چیزیں ،جو تم نے بتائی ہیں، یہ کس نے بنائیں؟‘‘’’انگریزوں نے۔ ‘‘وہ لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹائے بغیر بولا۔’’تو بیٹا! ان سب چیزوں میں تمہارا کچھ نہیں ؟‘‘ ’’سب میرا ہی تو ہے ،مَیں نے بہت سے پیسے دے کر خریدا ہے یہ سب۔جب چاہوں ،جیسے چاہوں، استعمال کر سکتا ہوں۔‘‘ اس نے سیلفی بناتے ہوئےجواب دیا۔ ’’بیٹا !جس کے بنانے یا تخلیق کرنے میں تمہارا حصّہ ہی نہیں، اسے تم اپنا کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘اسے پہلی بار جھٹکا سالگا۔ اُس نے مُڑ کر بابا کو دیکھا اور بولا ’’مَیں کچھ سمجھا نہیں۔ ‘‘’’بیٹا! تم تو اتنے پڑھے لکھے ،شہری بابو ہو، تو تمہیں میری سادہ سی بات سمجھنے میں اتنی دقّت کیوں ہو رہی ہے؟اچھا یہ بتائو ،یہ سب کچھ جو تم نے بتایا، ان سب چیزوں کو تم نے پیسے دے کر خریدا ہے، گویا جو پیسا تم نے ان سب چیزوں کی خرید پر خرچ کیا وہ سب انگریزوں تک پہنچتا ہے، ایسا ہی ہے ناں؟‘‘ ’’جی بابا! یہ تو ظاہر سی بات ہے۔‘‘ ’’تو پھر بیٹا! تم اتنے سال پڑھ لکھ کر ،کتابوں میں سر کھپا کر ،اتنی محنت کر کے اتنے بڑے بابو بن کے کون سا تیر مار رہے ہو کہ انگریز کی ایجاد کردہ چیزوں جیسی ایک چیز بھی خود نہ بنا سکو۔ 

دوسروں کی بنائی چیزیں استعمال کرنے میں کیا کمال اور کیسا فخر؟کمال اور فخر توتب ہوتا، جب یہ دورِ جدید کی ایجادات تمہاری یا تم جیسے میرے مُلک کے کسی اور بچّے کی ہوتیں، پھر تو میرا سینا بھی چوڑا ہوجاتا۔ ‘‘اَن پڑھ بوڑھے کی باتیں سُن کر تووہ سکتے میں آگیاتھا۔ اُسے لگا،جیسے کسی نے بھرے مجمعے میں اسے زنّاٹےدار تھپّڑ رسید کیا ہے۔ اُس کے پاس الفاظ ختم ہو چُکے تھے۔وہ بوڑھے کو جواب دینا چاہتا تھا، لیکن کیا جواب دیتاکہ کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔

اسی اثنا کب ٹرین آئی ،وہ کب اس میں بیٹھا ،اُسے کچھ یاد نہیں تھا۔دنیا کے اتنے ممالک گھوم کر ،بڑی بڑی کمپنیز کے سی ای اوز اور کری ایٹو ہیڈز کے ساتھ بیٹھ کر بھی وہ سبق نہ پڑھ پایا تھا ،جو ایک دیہات کے ،اُس چھوٹے سے اسٹیشن پر ایک بوڑھے اَن پڑھ نے اُسے دے دیا تھا۔ اُسے لگا کہ وہ ہمیشہ غلط ٹرین پر بیٹھ کر منزل تک پہنچنے کی آرزو کرتا رہا ، مگر جب راستہ ہی غلط ہو، تو منزل کہاں ملتی، آرزوئیں کہاں پوری ہوتیں۔

واپس لَوٹنے کے بعد اس کے سوچنے کا زاویہ یک سربدل چُکا تھا۔ پھر اس نے ایک خواب دیکھا، مگر جاگتی آنکھوں سے۔اس خواب کی تکمیل آسان نہ تھی، کئی مسائل سے پالا پڑا، متعدّد پریشانیوں نے آن گھیرا ،قدم قدم پر رکاوٹوں نے راستہ روکنے کی کوشش کی،ہار کے خوف نے بارہا ڈرایا ،لیکن وہ چلتا گیا اور… دس سال گزر گئے ۔ آج وہ مُلک کاپہلا اور اپنی نوعیت کامنفرد سوشل میڈیا پلیٹ فارم لانچ کر چُکا تھا۔

یہی نہیں، اس کی ٹیکنو کمپنی اگلے ایک سال میں 10 ایسی پراڈکٹس تیار کر کے لانچ کرنے جا رہی تھی، جو’’میڈ اِن پاکستان‘‘ تھیں ،ان پراڈکٹس میں اِسکل بلڈنگ روبوٹس،الیکٹرک کاریں، جدید موبائل فونز ،کیمرے،وَرچوئل سرجری کے آلات اور نہ جانے کیا کچھ تھا۔ یہی نہیں،اس نے ایک ایسے انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد بھی رکھ دی تھی، جہاں مختلف انجینئرنگ یونی ورسٹیز کے طلبہ اپنے انوکھے، اَچھوتے پراجیکٹس یا خیالات پر کام کر سکتے تھےاور یہ تو پہلا زینہ تھا کہ ابھی اُس نے بہت آگے تک کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔

آج کئی سال بعد وہ اسی اسٹیشن پر موجودتھا،جہاں اس کی ملاقات بوڑھے سے ہوئی تھی۔وہاں ہرے بھرے کھیت ،پیپل کے درختوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ اب بھی ویسی ہی تھی۔ آج بھی بچّے پٹری پر کچھ سکّے رکھے ٹرین کے منتظر تھے۔سب کچھ موجود تھا، پر اُسے جس کا انتظار تھا ،وہ بوڑھا وہاں نہیں تھا۔ ٹرین آ چُکی تھی،اس نے ٹرین میں چڑھتے ہوئے ایک بار مُڑ کر پیچھے دیکھا، بینچ اُسی طرح خالی تھی،لیکن نہ جانے کیوں اسے محسوس ہو رہا تھا، جیسے بوڑھےبابا کی آنکھیں اسے دیکھ رہی ہیں ۔اُن آنکھوں میں خوشی ،فخر، پیار اور سب سے بڑھ کر دُعائیں تھیں۔

تازہ ترین