• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم اپنے اطراف نظر دوڑائیں تو تقریباً ہر دوسرا فرد ڈیپریشن کا شکار نظر آتا ہے۔ طبّی اصطلاح میں ڈیپریشن، مُوڈ ڈس آرڈر (Mood Disorder)کہلاتا ہے، جو انسان کو اُداسی اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے۔ یوں تو ذہنی دباؤ یا ڈیپریشن کسی بھی فرد کوعُمر کے کسی بھی حصّے میں لاحق ہوسکتا ہے، لیکن مَردوں کی نسبت خواتین میں اس کا تناسب دُگنا ہے۔ ہمارے یہاں ہر چار خواتین میں سے ایک کو زندگی کے کسی بھی مرحلے پر شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اگرچہ خواتین میں مزاج کی تبدیلی اور ہر وقت اُداسی طاری رہنے جیسی شکایات ہارمونل چینجز کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہیں، مگر ایسا صرف ہارمونل تبدیلیوں ہی کی وجہ سے نہیں ہوتا، بلکہ بعض دیگر عوامل اور ذاتی زندگی کے حالات و تجربات بھی ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں۔ خواتین میں ہارمونل چینجز کے سبب ہونے والے ذہنی دباؤ کے عوامل درج ذیل ہیں۔

٭بلوغت یا نوجوانی: عمومی طور پر بلوغت میں ہونے والی ہارمونل تبدیلیاں لڑکیوں میں ڈیپریشن کا باعث بنتی ہیں۔ ویسے تو عُمر کے اس حصّے میں مزاج میں وقتی اُتار چڑھاؤ کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے، لیکن یہ ڈیپریشن کا باعث نہیں بنتا، بلکہ کئی اور بھی محرّکات ہیں، جو ذہنی دباؤ میں مبتلا کردیتے ہیں۔ 

مثلاً جسمانی ساخت میں بنیادی تبدیلیاں، والدین کے باہمی جھگڑے، اسکول میں پڑھائی یا کھیل کے میدان میں آگے جانے کے لیے دباؤ وغیرہ۔ واضح رہے، بلوغت کے بعد مَردوں کی نسبت خواتین میں ڈیپریشن کا تناسب بڑھ جاتا ہے، کیوں کہ لڑکیاں، لڑکوں کے مقابلے میں کم عُمری ہی میں بالغ ہوجاتی ہیں۔اور پھر مَرد و زن میں حسّاسیت کی یہ شرح تاعُمر برقرار رہتی ہے ۔

٭ ماہ واری سے قبل ظاہر ہونے والی علامات(Pre Menstrual Syndrome) : ہر چار میں سے تین خواتین پی ایم ایس کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ان خواتین میں ماہ واری سے قبل جو علامات ظاہر ہوتی ہیں،اُن میں پیٹ میں گیس کی شکایت، بریسٹ اور سَر میں درد، مزاج میں تناؤ یا حسّاسیت وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام تر علامات معمولی نوعیت کی اور وقتی ہوتی ہیں، لیکن بعض اوقات یہ شدّت بھی اختیار کرلیتی ہیں اور اس حد تک خطرناک ثابت ہوتی ہیں کہ خواتین کی تعلیم، ملازمت، شادی یا زندگی کے دیگر معاملات تک متاثر ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، بعض کیسز میں پی ایم ایس ایک خطرناک بیماریPre Menstrual Dysphoric Disorder میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے، جس کا علاج ازحد ضروری ہے ۔

٭حمل: خواتین کودورانِ حمل بھی ہارمونل چینجر کا سامنا رہتا ہے، جو مزاج کی تبدیلی کا سبب بنتا ہے، لیکن بعض عوامل بھی مزاج پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ مثلاً کم عُمری میں حمل ٹھہرجانا، ازدواجی مسائل،معمولاتِ زندگی اور ملازمت سے متعلقہ مسائل، پہلے سے ڈیپریشن میں مبتلا ہونا، سماجی مدد کا حاصل نہ ہونا یا حصول میں ناکامی، نہ چاہنے کے باوجود حمل ٹھہرجانا،حمل ضایع ہونا یا پیچیدگیاں پیدا ہوجانا ،بے اولادی، اینٹی ڈیپریسنٹس ادویہ کا استعمال ترک کر دینا اور اکیلا پَن یا تنہائی۔

٭زچگی کے بعد ڈیپریشن کا حملہ (Postpartum depression): عام طور پر جو خواتین پہلی بار ماں بنتی ہیں، بچّے کی پیدایش کے فوری بعد خود کو بےحدحسّاس، اُداس یا پھرچڑچڑا محسوس کرتی ہیں اور بار بار رونے کا بھی دِل چاہتا ہے۔ یہ احساسات طبّی اصطلاح میں "Baby Blues"کہلاتے ہیں، جو نارمل ہیں اور زیادہ تر کیسز میں ایک سے دو ہفتے میں ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں، مگر جب یہ کیفیات طویل عرصے تک طاری رہے تو اسے بعد از زچگی دباؤ "Postpartum Depression" کہا جاتا ہے، جس کی علامات میں بار بار رونا، خود کو کم تر یا خراب ماں تصوّر کرنا،تناؤ کی سی کیفیت طاری رہنا، ٹھیک سے نہ سونا، اگر نومولود سوجائے، تب بھی روزمرّہ امور کی انجام دہی میں مشکلات پیش آنا، بچّے کی دیکھ بھال نہ کر پانا، نومولود کو نقصان پہنچانے یا خودکُشی کے خیالات کا آنا وغیرہ شامل ہیں۔

پوسٹ پارٹم ڈیپریشن ایک اہم اور سیریس طبّی مسئلہ ہے، جس کا فوری علاج ناگزیر ہے۔ یہ ڈیپریش دس سے پندرہ فی صد خواتین پر مکمل طور پر اثر انداز ہوجاتا ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ جیسے ایسی ہارمونل تبدیلیاں، جو مزاج پر اثر انداز ہوں،نومولود کی دیکھ بھال کی ذمّے داریاں، ذہنی تناؤ والی بیماریاں لاحق ہونے کےامکانات، حمل اور زچگی کی پیچیدگیاں، اپنا دودھ پلانے اوربچّے کی ذہنی و جسمانی صحت سے متعلقہ مسائل اورمعاشرے سے مدد حاصل نہ ہوپانا وغیرہ ۔

٭سن یاس(Menopause): جس طرح بلوغت میں ہارمونل چینجر کے مسائل پیش آتے ہیں، بالکل اِسی طرح مینوپاز میں(جس کا مطلب ہے کہ اب ماہ واری نہیں ہوگی)ہارمونز کی کمی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں ڈیپریشن کا باعث بن سکتی ہیں۔ دراصل اس وقت ایسٹروجن ہارمونز بہت کم بنتا ہے۔ مینوپاز کی شکار زیادہ تر خواتین ڈیپریشن سے بچ سکتی ہیں، مگر بعض ایسے اسباب ہیں، جوان میں شدید ڈیپریشن کا سبب بن جاتےہیں۔ جیسے نیند نہ آنا یا ٹوٹ ٹوٹ کر آنا، ذہنی تناؤ یا پہلے بھی اکثر ڈیپریشن ہونا، زندگی میں پیش آنے والے تند و تیز حالات، موٹاپا یا تیزی سے وزن میں اضافہ،وقت سے پہلے ماہ واری ختم ہوجانا،کسی بھی وجہ سےبیضہ دانی نکالنے کے نتیجے میں اچانک سن یاس ہوجانا وغیرہ۔

٭حالاتِ زندگی اور مقامی ثقافت کے اثرات: زندگی میں پیش آنے والے بعض واقعات اور معاشرتی رویّے بھی ڈیپریشن کا باعث بنتے ہیں۔ مَرد بھی اس طرح کے ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، مگرخواتین کی نسبت بہت کم۔ اصل میں خواتین کو معاشرتی دباؤ کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر بعض محرّکات بھی ڈیپریشن کے امکانات بڑھا دیتے ہیں۔ 

مثلاً: معاشرے میں عورت کی غیر مساوی حیثیت و مقام :ہمارے یہاں خواتین کو مَردوں کی نسبت مستقبل سے متعلق غیر یقینی صُورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پھر انہیں بنیادی سہولتوں تک رسائی بھی کم ہی حاصل ہوتی ہے۔ غیر مساوی حیثیت اور سلوک جسیے عوامل منفی احساسات، احساس کم تری اور زندگی پر اختیار کی کمی کو جنم دیتے ہیں۔

کام کا دہرا بوجھ: موجودہ دَور میں بیش تر خواتین ملازمت پیشہ ہیں۔ وہ ملازمت کے ساتھ گھریلو امور بھی انجام دیتی ہیں،بچّوں کی دیکھ بھال بھی کرتی ہیں، ان کی تعلیم و تربیت پر بھی توجّہ دیتی ہیں۔ جب کہ کئی خواتین تنِ تنہا ماں اور باپ دونوں کی ذمّے داریاں سنبھالتی ہیں۔

ہراسانی: جو خواتین بچپن میں جذباتی، جسمانی یا جنسی بدسلوکی/ہراسانی کا شکار ہوں، وہ آسانی سے زندگی کے کسی بھی مقام پر ذہنی دباؤ کا شکار ہوسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ والدین میں سے کسی ایک فریق یا دونوں کا بچّے سےخصوصاً 10 سال سے کم عُمر میں جُدا ہوجانا، طلاق یا اچانک بے روزگار ہوجانا اور بیوگی جیسے عوامل بھی ڈیپریشن کا سبب بن سکتے ہیں۔ نیز، ذہنی دباؤ کی شکار خواتین میں ذہنی صحت متاثر ہونے کی کئی اور علامات بھی پائی جاتی ہیں۔ جیسے اضطرابی کیفیت، کھانے پینے کے معمولات میں خرابی (بسیارخوری یا بالکل نہ کھانا یا قے ہونا)، نشہ آور ادویہ کا غیر ضروری استعمال وغیرہ۔

٭ذہنی دباؤ کی تشخیص و علاج: اگر ہر وقت اُداسی ، ندامت یا مایوسی کی کیفیت، پسندیدہ چیزوں سے دِل اُچاٹ ہوجانے ، نیند کے معمولات میں تبدیلی(مثلاً نیند نہ آنا، جلدی آنکھ کُھل جانا یا بہت زیادہ سونا)، ہر وقت تھکن یا درد کے احساس یا پھر ایسی جسمانی علامات جن کا تعلق کسی بیماری سے نہ ہو ،جیسےمستقل سَر یا جسم میں درد ،بار بار بھولنا، کسی بھی چیز پر توجّہ نہ دے پانا، بھوک میں تبدیلی، جس کی وجہ سے وزن بڑھے یا کم ہوجائے، جسم میں جگہ جگہ درد کے احساس،خودکُشی کے خیالات آنے یا عدم بے زاریت جیسی علامات ظاہر ہوں ،تو جنرل فزیشن یا گائناکولوجسٹ کے مشورے سےماہرِ ذہنی امراض سے رابطہ کریں۔ یاد رکھیے، ذہنی دباو ٔنہ صرف اہم مسئلہ ہے، بلکہ قابلِ علاج بھی ہے۔

٭ دورانِ حمل ذہنی دباؤ سے کس طرح محفوظ رہا جائے؟

ماں بننا، اپنی کوکھ میں9ماہ ایک بچّے کو پروان چڑھانا آسان کام نہیں، لیکن آپ کی صحت بھی بہت اہم ہے،لہٰذا ہر کام مکمل کرلینے کی خواہش پر قابو پائیں اور وہی امور انجام دیں، جو آپ کے لیے آسودگی کا باعث بنیں۔شوہر، اہلِ خانہ اور دوستوں سے اپنے ذہنی دباؤسے متعلق بات کریں،تاکہ آپ کوبہت جلد ان کا تعاون حاصل ہوسکے۔ دورانِ حمل اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں، مثبت سرگرمیاں اختیار کریں۔ اس کے باوجود بہتری محسوس نہ ہو، تو اچھی گائناکولوجسٹ سےرابطہ کریں۔ 

علاوہ ازیں، متعدّد ادویہ بھی ذہنی دباؤ پر قابو پانے میں مؤثر ثابت ہوتی ہیں، جو شکمِ مادر میں پلنے والے بچّے پر مضر اثرات بھی مرتّب نہیں کرتیں۔ البتہ ذہنی دباؤ پر قابو پانے والی ادویہ استعمال نہ کرنے کی صُورت میں ماں یا بچّے دونوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر ادویہ مؤثر ثابت نہ ہوں، تو کبھی کبھار معالج شدید ذہنی دباؤ کی صُورت میں Electroconvulsive therapy یا Transcranial magnetic stimulationبھی تجویز کرسکتا ہے۔ پوسٹ پارٹم ڈیپریشن کے علاج کے ضمن میں اینٹی ڈیپریسنٹ ادویہ اور سائیکوتھراپی دونوں کا کردار اہم ہے۔ اگر ماں اپنا دودھ پلارہی ہو تو ادویہ کا استعمال ماہرِ امرضِ اطفال اور ماہرِ نفسیات کے باہمی مشورے سے کیا جائے ، تاکہ نومولود کے لیے مضر ثابت نہ ہوں۔

علاوہ ازیں،40سے50برس کی عُمر کے دوران ہارمونز کی کمی سے پیدا ہونے والا ذہنی دباؤ اکثر مشکل صُورتِ حال پیدا کرسکتا ہے۔جیسا کہ شدید گرمی لگنے اور پسینے آنے کے دورے پڑنا، نیند نہ آنا وغیرہ۔ اس عُمر میں لاحق ہونے والے ذہنی دباؤ سے تحفّظ کے لیے صحت بخش متوازن غذا استعمال کریں اور روزانہ ورزش معمول بنالیں۔ کوئی ایسی سرگرمی اختیار کریں، جس میں آپ کو کچھ کر گزرنے یا پانے کا احساس ہوسکے۔پُرسکون رہنے کے لیے یوگا، مراقبہ یا گہری سانسیں لینے کی مخصوص مشقیں مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔

خواب گاہ کا درجۂ حرارت متعدل رکھیں، تاکہ رات میں آنے والے پسینے اور بے چینی کی وجہ سے نیند خراب نہ ہو۔ اپنے لیے جذباتی سہارا تلاش کریں،جو کوئی دوست، خاندان کا فرد یا پیشہ ورانہ خدمات دینے والا ماہر نفسیات ہوسکتا ہے۔ سماجی میل جول بڑھائیں، اپنے خاندان اور معاشرے سے اپنا رشتہ جوڑے رکھیں۔معالج نے جو ادویہ اور وٹامنز تجویز کیے ہیں، باقاعدگی سے استعمال کریں۔ ڈھیلے ڈھالے اور سوتی کپڑےپہنیں، تاکہhot flushes کے دوران پُر سُکون رہ سکیں۔

٭حاملہ خواتین کی صحت پر کورونا وائرس کے اثرات :کورونا وائرس کےخوف نے حاملہ خواتین میں ڈیپریشن یا اضطراب کی شرح میں اضافہ کردیا ہے کہ انہیں یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے نہ صرف ان کی، بلکہ بچّے کی صحت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ نیز، زچگی کے لیے اسپتال میں داخلے کے دوران انہیں وائرس لگ سکتا ہے اور اسپتال میں ملنے والی عملے کی توجّہ بھی کم ہوسکتی ہے۔ 

دورانِ حمل اس وائرس کا شکار ہونے والی خواتین میں بچّے کی نشوونما متاثر ہوتے یا قبل از وقت بچّے کی پیدایش زیادہ دیکھی گئی، لیکن نومولود بچّوں میں اس وائرس کے ضمنی اثرات نہیں پائے گئے۔ بہرحال، ایسی صُورت میں حاملہ خواتین کو خاندانی اور سماجی مدد کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ اپنے خوف پر قابو پاسکیں ۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ نسواں ہیں۔کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ ہیں، جب کہ عباسی شہید اسپتال ، میمن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اسپتال، صفورا گوٹھ اور ابنِ سینا اسپتال، گلشنِ اقبال، کراچی میں بطور کنسلٹنٹ فرائض انجام دے رہی ہیں)

تازہ ترین