• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں یہ حقیقت مان لینی چاہئےکہ آزادی کے بعدجہاں بھارت نے سب سے پہلے اپنےہاں ایک نظام رائج کرنے کو اولیت دی ،ہم نے دیگر امورکواپنی ترجیحات میں رکھا،یہی وجہ ہے کہ 74سال گزرنے پر بھی پاکستانی وزیراعظم کبھی چین ،کبھی مدینے اورکبھی ترکی کےنظام کی بات کرنے پر مجبورہیں۔قطع نظراس کے کہ یہ تمام نظام ہائے مملکت متضادفکرونظرئیے پر استوار ہیں،وزیراعظم کاوقفے وقفے سے اس طرح کا اظہاراس عدم یکسوئی کو ظاہر کرتا ہے جو وزیراعظم کو لاحق ہے،مزید یہ کہ ملک میں صدارتی نظام کی بحث اس صداقت کیلئے مزید تقویت کا باعث بنتی ہے کہ ہمارے ہاںیا تو کوئی نظام ہی نہیں اور اگرہے تو روح سے خالی ہے۔اس دوران البتہ یہ سوال بنتاہے کہ اگر مغربی جمہوریت اس قدر بے فیض اور بے کیف ہے توپھر دنیا کے سب سے زیادہ ممالک میں یہ جمہوری نظام رائج کیوں ہے ، اسی جمہوریت کی بدولت اُنہوں نے اتنی ترقی کیسی کرلی ، سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے ساتھ آزادہونے والے بھارت نے اسی مغربی جمہوریت کے ذریعے سیاسی ومعاشی استحکام کیونکرپایا،نیز یہ نظام کیونکر اتنا پائیدار ثابت ہوا کہ وہاں ایک روز کیلئے بھی کسی کو مارشل لالگانے کی جرات نہ ہو سکی۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز کہا کہ ’’ چینی نظام حکومت مغربی جمہوریت سے بہتر ہے۔ چین کے نظام حکومت میں لچک ہے، وہ جب کوئی چیز تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو نظام اس کی حمایت کرتا ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں کسی نظام میں تبدیلی بہت مشکل ہے کیونکہ آپ بہت سی قانونی رکاوٹوں میں پھنس جاتے ہیں اور جمہوریت آپ کو جکڑ لیتی ہے۔عمران خان نے کہا کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کا نظام کسی بھی انتخابی جمہوریت سے بہتر ہے۔سنکیانگ کے حوالے سے مغربی میڈیا اور حکومتوں کے موقف اور چین کے موقف میں فرق ہے ، ہم چینی موقف کو تسلیم کرتے ہیں‘‘۔ہمارا کہنا یہ ہےکہ جب وزیراعظم کہتے ہیں کہ کمیونسٹ نظام کسی بھی انتخابی جمہوریت سے بہتر ہے تو اس طرح وہ ان انتخابات کو ردکرتے ہیں جس سے عوام کسی حکومت کو بنانے میں شامل ہوتے ہیں،یہ بحث اپنی جگہ کہ پاکستان میں انتخابات کس قدر عوامی رائے کے آئینہ دارہوتے ہیں ،ہم اُس جمہوریت کی بات کررہے ہیں جو دنیا کے بیش تر ممالک میں کامیابی کےساتھ رائج ہے،آپ جانتے ہیں کہ جمہوریت ایک بین الاقوامی قدر ہے جس کی بنیاد عوام کا آزادانہ اظہار رائے ہے کہ وہ کس قسم کا سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی نظام چاہتے ہیں اورزندگی کے ہر شعبے میں ان کی بھرپور شرکت ہے۔ اب اس میں در آئی بدعتوں کو دور کرنے کی بجائے جب کبھی ایک نظام اور کبھی دوسرے نظام کی بات کی جاتی ہے تو لامحالہ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ کسی نظام کے استحکا م سے زیادہ اُن امور میں دلچسپی لیتاہے جو اس طبقے کو مستحکم کرنے کا سبب ہو۔یہ موجودہ حکمرانوں پرموقوف نہیں ،ہم دیکھتے آئے ہیں کہ پاکستان میں ہر دور میں بہ وجوہ نظاموں کی باتیں ہوتی رہی ہیں،ان میں اسلامی نظام بھی شامل ہے،پاکستان میں چونکہ لوگوں کو اسلام کے مقدس نام پر بہت جلدی اپناہمنوا بنایا جاسکتاہے اس لئے اسے اپنے وقت کے ڈکٹیٹر ضیاالحق نے بھی خوب استعمال کیا۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اس خواب کی ’تعبیر‘کیلئے نہ صرف یہ کہ مارشل لالگنے کے بعد وزارتیں لیں بلکہ مارشل لا کی چھتری تلے ہونے والے غیرجماعتی انتخابات میں حصہ بھی لیا اور وزارتیں بھی۔جنرل پرویز مشر ف اگرچہ لبرل ازم کا سلوگن لئے ہوئے تھے لیکن نہ جانےکیوں مذہبی جماعتوں نے ان کے حق میں وہ 17ویں ترمیم بھی پاس کی ،جس نے ایک ڈکٹیٹرکے اقدامات کوتحفظ فراہم کیا۔یہ دورخی ظاہر کرتی ہے کہ جہاں غیر سیاسی عناصر کسی نظام کی بجائے اپنے ایجنڈے کو سامنے رکھتے ہیں تو اکثر سیاسی عناصر بھی سیاسی قدروں کی بجائےاپنے ذاتی، گروہی وجماعتی مفادکے ہراصول کو قربان کرنے کیلئے ہمہ وقت تیاررہتے ہیں۔ اس لئے ہمارا کہنا یہ ہے کہ موجودہ وزیراعظم نے کوئی انہونی بات نہیں کہی،یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا وہ تسلسل ہے جس میں کبھی کسی نظام کی پائیداری واستحکام کیلئے نہیں سوچاگیا،اب ایسے عالم میں پاکستان میں کسی پائیدار نظام کی کیونکر توقع کی جاسکتی ہے، ایسا نظام جس کے سبب عوام یا مملکت کو کوئی ایسی سمت مل سکے جس پریکسوئی سےچل کر ملک وملت کیلئے ترقی و استحکام کا سامان فراہم ہوسکے۔

تازہ ترین