• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ فقرے ایسے ہوتے ہیں جو صرف تسلی دینے کے لئے بولے جاتے ہیں مگر ہم ان پر اس لئے یقین کر لیتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔مثلاً:
”جن سے ہم پیار کرتے ہیں ،وہ کبھی نہیں مرتے ، ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہتے ہیں !“
”تم فکر نہ کرو،باقاعدگی سے یہ وظیفہ کرتے رہو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔“
”جو ہوتا ہے ہمیشہ اچھے کے لئے ہوتا ہے ،دل چھوٹا نہ کرو ،یقینا اس میں تمہارے لئے کوئی بھلائی ہوگی۔“
”یہ جاب تمہاری قسمت میں ہی نہیں تھی ،جس دن تقدیر کو منظور ہوا اس دن اس سے اچھی نوکری مل جائے گی۔“
”اپنی سوچ میں مثبت تبدیلی لاؤ،زندگی میں خود بخود مثبت تبدیلیاں آئیں گی۔“
”تم پیسوں کے پیچھے بہت بھاگتے ہو ،قناعت پسندی اختیار کرو،دل کو سکون ملے گا ۔“
”با اصول اور وفا دار شخص سونے میں تولنے کے لائق ہے ۔“
یہ تمام نصیحتیں نما تسلیا ں یا اقوال زرّیں وہ ہیں جو ہم لوگوں نے دل کے خوش رکھنے کو گھڑ رکھے ہیں ۔دلوں میں زندہ رہنے والی بات ہی دیکھ لیں ،جو شخص ایک دفعہ مر جاتا ہے پھر زندہ نہیں ہو سکتا ،چاہے کوئی اسے اپنے دل میں زندہ رکھ کر خوش ہوتا رہے یا دن رات اس کی یاد میں گھٹ گھٹ کر مرتا رہے ۔اگر دلوں میں زندہ رہنے سے مسئلہ حل ہوتا تو ماں کے مرنے پر کوئی بیٹی آنسو نہ بہاتی، بیٹے کی میت پر کوئی باپ ماتم نہ کرتا اور شوہر کے جنازے میں کوئی بیوی بین نہ ڈالتی۔یہ تمام تسلیاں جو لوگ ایک دوسرے کو دیتے ہیں، شاید اپنے دل کی تہہ میں انہیں بھی علم ہوتا ہے کہ در حقیقت یہ طفل تسلیاں ہیں ۔کسی کو دل میں زندہ رکھنا اتنا ہی با معنی یا بے معنی ہے جتنا کسی کو دل ہی دل میں قتل کر دینا ،یعنی ایسا قتل جس سے ”مقتول“ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے۔ تاہم اگر کسی کے دل کو فقط یہ سوچ کر ہی سکون مل جاتا ہے کہ اس کا پیارا اس کے دل میں زندہ ہے تو اسے خوش رہنے کا پورا حق ہے ۔وظیفے والی بات بھی خوب ہے ،ہماری قوم دن رات مختلف قسم کے وظائف پڑھتی رہتی ہے مگر مسائل کے بڑھنے کی رفتار وظائف سے کہیں تیز ہے۔اس ضمن میں عورتوں نے تو ایک قسم کی سپیشلائزیشن کر رکھی ہے ،پچاس فیصد عورتوں کا مسئلہ شادی ہے اور باقی پچاس فیصد کا مسئلہ شوہر یا اولاد کا نہ ہونا ہے ۔چنانچہ مارکیٹ میں ازدواجی وظائف کی مانگ سب سے زیادہ ہے ،معصوم اور بھولی بھالی عورتیں سمجھتی ہیں کہ ان کے نا خلف شوہر غالباً ان وظائف کی وجہ سے ان کے قابو میں رہتے ہیں حالانکہ وظیفہ پڑھنے کی وجہ سے کوئی جن تو قابو میں آ سکتا ہے شوہر نہیں۔
”جو ہوتا ہے ہمیشہ اچھے کے لئے ہوتا ہے ۔“یہ شاید زندگی کا سب سے بڑا ڈھکوسلہ ہے ۔صبح صبح نہا دھو کر ،سوٹ بوٹ پہن کر گھر سے جاب کے لئے نکلنے والا شخص اگر کسی ویگن سے ٹکرا کر ٹانگ تڑوا بیٹھے تو اس واقعے میں اچھائی کا پہلو تلاش کرنے والے کو حماقت کا نوبل انعام دے دینا چاہئے۔یہاں یار لوگ ایک گھسی پٹی مثال دیا کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص کی فلائٹ مس ہو گئی اور وہ ایک نہایت اہم کاروباری میٹنگ میں شرکت سے محروم رہ گیا، تاہم چند گھنٹوں بعد اس جہاز کے کریش ہونے کی خبر آگئی۔دنیا میں روزانہ ہزاروں لوگوں کی فلائٹ مس ہوتی ہے ،اب اگر بد قسمتی سے کوئی طیارہ گر کر تباہ ہو جائے اور اس پر یہ کہا جائے کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے تو ایسے زریں قول کو میں نہیں مانتا ،میں نہیں جانتا۔اس قول کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ اچھا ہوا آج میں گھر سے باہر نہیں نکلا ،آج دنیا میں تین ہزار بندے ٹریفک حادثات میں مارے گئے !
سب سے دلچسپ نصیحت مجھے سوچ میں مثبت تبدیلی لانے سے متعلق لگتی ہے ۔بظاہر یہ کس قدر خوش کن بات ہے کہ محض مثبت سو چ زندگی میں مثبت تبدیلی کی ضامن ہے ،اگر آپ خوبصورتی کے متعلق سوچیں گے تو آپ کا ٹاکرا حسین لوگوں سے ہوگا ،اگر لوگوں کی بھلائی سوچیں گے تو آپ کے ساتھ بھی بھلا ہی ہوگا ،اگر آپ کی سوچ تعمیری ہو گی تو آپ زندگی میں ترقی کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ اگر محض مثبت سوچ سے ہی مثبت تبدیلی آ سکتی تو اب تک ہمارے ملک میں آ چکی ہوتی تاہم محض سوچنے سے تو ایک پتہ بھی نہیں ہلتا زندگی میں تبدیلی تو دیوانے کا خواب ہے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مثبت سوچ تو پہلا قدم ہے ،اس کے بعد عمل کی باری آتی ہے ،اگر آپ کی سوچ ہی منفی ہوگی تو عمل بھی منفی ہوگا لہٰذا زندگی میں منفی ہی تبدیلی آئے گی مثبت نہیں ۔یہ بات ایک حد تک تو درست ہو سکتی ہے تاہم اس بات کا فیصلہ ابھی باقی ہے کہ کون سا عمل مثبت ہے اور کون سا منفی ۔پولیو کے قطرے پلانے والے نیک کام کرتے ہیں مگر بعض درندوں کے نزدیک انہیں قتل کرنا نیکی ہے اور وہ بے دھڑک یہ نیکی کما رہے ہیں ۔اور یہ بھی ضرور ی نہیں کہ مثبت سوچ زندگی میں مثبت تبدیلی ہی لائے ۔دنیا میں منفی جذبہ رکھنے والے بھی کامیاب رہتے ہیں بلکہ سچ پوچھئے تو حسد کا جذبہ انسان کو کامیابی کے لئے جتنا اکساتا ہے کوئی اور بات اسے اتنی motivateنہیں کرتی ۔نپولین ہل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ،Think and Grow Richمیں اس جذبے کو burning desireکا نام دیا ہے ،درحقیقت یہ وہ جلن ہے جو ایک انسان دوسرے انسان کے بار ے میں محسوس کرتا ہے ۔یہ جو تمام سیلف ہیلپ کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ کسی کامیاب انسان کی کاپی کریں ،تو اصل میں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اس کامیاب انسان کے لئے اپنے دل میں جلن پیدا کریں (جو کہ ایک منفی جذبہ ہے)یہ جلن جس قدر زیادہ ہوگی آپ کو کامیابی کے لئے اتنی ہی حرارت ملے گی۔
اس کے برعکس اگر آپ قناعت پسندی کے پردے کے پیچھے چھپ کر زندگی گذارنا چاہتے ہیں تو وہ آپ کی چوائس ہے ۔یقینا قناعت پسندی اچھی چیز ہے مگر میں کسی کو قناعت پسندی کا مشورہ اس لئے نہیں دیتا کیونکہ قناعت پسند شخص زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع کھو بیٹھتا ہے (یہاں قسمت کے دھنی کی بات نہیں ہو رہی )۔قناعت پسند شخص کی مثال اس شریف اور بھلے مانس بندے جیسی ہے جو اپنی بیٹی کو بازار سے سوٹ دلانے کے لئے نکلے اور پھر ایک گھنٹہ بعد پورا بازار گھومنے کے بعد بیٹی کی یہ بات سن کر واپس ہو لے کہ ”بابا ،مجھے کوئی سوٹ پسند نہیں آیا۔“ بشرطیکہ بیٹی سمجھدار ہو اور اسے علم ہو کہ اگر باپ کی ماہانہ تنخواہ تیس ہزار روپے ہو ،مہینے کی اٹھائیس تاریخ ہو اور بجلی کا بل اب تک ادا نہ کیا گیا ہو تو بازار میں کوئی سوٹ پسند نہیں آنا چاہئے۔
اور با اصول اور وفادار لوگوں کا حال تو ہم لوگ روزانہ اس ملک میں دیکھتے ہیں ۔انہیں سونے میں تولنا تو دور کی بات ،لوہے کے ریٹ پر بھی نہیں تولا جاتا۔سیاست کو ہی لے لیں، جن لوگوں نے ڈنکے کی چوٹ پر وفاداریاں تبدیل کیں ،ایک آمر کا ساتھ دیا ،اصول اور وفاداری جنہیں چھو کر نہیں گزری ان کی سیٹیں ان لوگوں سے بھی آگے لگائی جاتی ہیں جو آمر کے دور میں ڈٹ کر کھڑے رہے ۔سو پیارے بچو ،اس کہانی سے یہ ہمیں سبق حاصل ہوا کہ بقول شفیق الرحمن ضروری نہیں کہ ہر کہانی سے کوئی سبق ہی حاصل ہو ،تاہم آئندہ اگر کوئی آپ کو بے معنی قسم کی نصیحتیں یا تسلیاں دے تو جواباً آپ اسے مزید بے معنی کوئی نصیحت کر دیں۔
تازہ ترین