ضیاالحق کے دورِ آمریت میں ملوکیت اور ملائیت یکجان اور یک قالب ہو کر رہ گئی تھیں۔ اسلام کے نام پر ملائیت کی بزور شمشیر ترویج و اشاعت کے خلاف ہمارے دانشوروں کا ردِ عمل سیکولرزم یا کمیونزم کے نام پر اسلام فراموشی کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ خوف و دہشت کی اس فضا میں پروفیسر وارث میر نے اسلام کی حقیقی انقلابی روح کو آشکار کرتے چلے جانے کا تاریخی کارنامہ سر انجام دیا۔ اُنہوں نے اقبال کے طرز و عمل کو اپنا سر چشمہ فیضان بنا کر ملائیت کو اسلامیت اور انسانیت کےحقیقی مفہوم سے آگہی بخشی۔ وارث میر نے ضیا مارشل لا کے تاریخ ترین دور میں بھی ملائیت کا کلمہ پڑھنے کی بجائے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کا فریضہ سر انجام دیا۔ وارث میر نے اس دور میں یہ سوال بر وقت اٹھایا تھا کہ: ’’اس اسلام کا علمبردار اب پاکستان میں کون رہ گیا ہے جو عارضی جنگی محاذ پر ہی نہیں بلکہ زندگی کے عملی میدان میں بھی اشتراکیت اور سرمایہ داری کا مقابلہ کر سکے ؟، وارث میر اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ آپ نے کبھی غور فرمایا! پاکستان میں جب کبھی اسلام کے نعرے اور مذہبی اجارہ داریوں کو زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے، مسجدوں کے خطبوں میں فرقہ پرستی کو ہوا دی گئی، گروہی اختلاف پر تحقیقی کتابوں اور پمفلٹوں کا سیلاب آ گیا اور مستقبل اور مستقبل کے چیلنج مناظرانہ تفسیر و تعبیر میں کھو گئے۔ کیا یہ ملک اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ توہمات و ضعیف الاعتقادیوں کی بنیاد پر اس کے سیاسی نظام کو استوار کیا جائے؟ وارث میرنے ان مذہبی اجارہ داریوں کے سامراجی سر پرستوں کی نشاندہی میں بھی انتہائی جرأت ِاظہار کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ اپنی ایک اور تحریر میں عوام کو ان الفاظ میں بروقت خبردار کرتے ہیں:’’پاکستان کے تقریبا تمام آمر حکمران مغربی مفادات کے نیاز مند رہے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے ہر مناسب اور نا مناسب طریقے سے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ سب لوگ امریکہ کی اشیرباد سے تخت حکمرانی پر بیٹھے اور استعمال ہونے کے بعد اسی کے اشارہ ابرو سے اقتدار سے محروم بھی ہوتے رہے۔ سیاستدانوں کی زیر قیادت حکومت امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدوں میں شریک تو ہو جاتی تھی البتہ امریکی وزارت خارجہ کی دستاویز ات شہادت دیتی ہیں کہ پاکستان کے سیاستدان وزیر اعظم ملکی سر زمین کو فوجی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا معاملہ قومی اسمبلی میں زیر بحث لانے پر اصرار کرتے تھے۔ اسی لئے پاکستان میں آمروں کو برسر اقتدر لانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور آج دن تک یہ امریکی منصوبہ کامیاب جا رہا ہے۔ درمیان میں تھوڑے عرصے کے لئے بھٹو کی سویلین حکومت اور ان کے غیر معمولی عزائم، کباب میں ہڈی بن گئے تھے چنانچہ اس ہڈی کو نکال پھینکنا بہت ضروری ہو گیا تھا۔‘‘ اقبالؒ نے اپنے درس خودی میں ہمیں یہ سمجھایا تھا کہ ملائیت کے رد عمل میں اسلامیت کو ترک کر دینے کی بجائے اسلام کی انقلابی روح کو بیدار اور سر گرم کر دینے میں کوشاں ہو جانا درست عمل ہے۔ تاہم دکھ کی بات یہ ہے کہ وارث میر کو نہ تو رجعت پسند مولوی تسلیم کرتے ہیں، نہ ہی سوشلسٹ اور نہ ہی کمیونسٹ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان کو اولیت دیتے ہیں، اسلام کی سچی انقلابی راہ پر چلتے ہیں، قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی پیروی کرتے ہیں اور صرف انقلاب کے نام کو استعمال نہیں کرتے، ان کو مفاد پرست طبقات کبھی تسلیم نہیں کرتے۔ اپنے 17 دسمبر 1982کے ایک مضمون بعنوان ’’نئے خیالات کیونکر ہوئے خطرناک؟‘‘ میں پروفیسر وارث میر سوال اٹھاتے ہیں کہ:’’پاکستان کا تصور پیش کرنے والے اقبال اور پاکستان کی جنگ جیتنے والے محمد علی جناح کے تاریخی کردار اور خدمات کی حفاظت کون کرے گا؟ اب پاکستان پر یہ وقت آن پڑا ہے کہ یار لوگ جناح سے قائد اعظم اور اقبال سے حکیم الامت کا اعزاز چھین لینا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دور قائد اعظم کی جمہوریت و آئین پسندی اور اقبالؒ کی روشن خیالی کا دور نہیں ہے۔ یہ دور تو صاحبان جبہ و دستار اور اصحاب منبر و محراب کا دور ہے۔حالانکہ پاکستان تو بنا ہی اس لئے تھا کہ مسٹر اور ملا کی تمیز ختم کی جائے۔ ہم ایک ایسا حسین و جمیل معاشرہ پروان چڑھانا چاہتے تھے جس میں قائداعظمؒ کی جمہوریت پسندی ہو تو اقبال کا فکر و فلسفہ بھی ہو، مسجد بھی ہو اور محراب و منبر بھی ہو جس میں قائداعظمؒ اور اقبالؒ کے مقام و مرتبہ کا بھی احترام ہو اور ان کے ناقدوں اور ان کے مریدوں کی عزت نفس بھی محفوظ ہو۔ پاکستان دراصل نفرتوں کو ختم کرنے کے لئے معرض وجود میں آیا تھا، نفرتوں کے شعلوں کو ہوا دینے کے لئے نہیں‘‘۔ مجھے آج بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وارث میر ہم سے اب بھی یہی سوال پوچھ رہے ہوں۔ آپ اس سوال کا جواب سوچئے، میں اتنے میں آپ کو حبیب جالب کی نظم بعنوان ’’وارث میر کے نام‘‘ کے شعر سنا دیتا ہوں:
حق پرست و صاحب کردار وارث میر تھا
آمروں سے برسر پیکار وارث میر تھا
لفظ اس کا تیر تھا باطل کے سینے کے لئے
اہل حق کا قافلہ سالار وارث میر تھا!
ظلم سہتا تھا، کہتا نہیں تھا ظلمت کو ضیاء
آنسوئوں کو پی کے نغمہ بار وارث میر تھا!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)