میں اس وقت ایک سرکاری وفد کے ہمراہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں موجود ہوںجہاںتاشقند کانفرنس کے انعقاد کی تیاریاں حتمی شکل اختیار کرگئی ہیں، وزیر اعظم عمران خان بھی آج (جمعرات)دوپہر کو یہاں پہنچ رہے ہیں، وہ ازبکستان کے صدر کے ہمراہ مشترکہ طور پرکاسا کانفرنس کے ابتدائی سیشن کا افتتاح کریں گے، کانفرنس کے موقع پر ازبکستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ سمیت متعدد تجارتی شعبوں میں دوطرفہ تعاون سمیت متعدد تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے، دونوں ممالک کے درمیان فضائی رابطہ بحال کرنے پربھی اصولی اتفاق ہوگیاہے، آئندہ ماہ اگست سے دونوں برادر ممالک کے درمیان باقاعدہ فلائٹس آپریشن شروع ہونے کی توقع ہے۔کامرس وزارت کے تحت کاروباری وفد پاکستان کی نمایاں بڑی کاروباری شخصیات پر مشتمل ہے جنہوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد اپنے آپ کو متعلقہ شعبے میں منوایا ہے، موجودہ عالمی حالات کے تناظر میںپاکستانی بزنس کمیونٹی کو امیدہے کہ رواں برس ہماری ایکسپورٹ میں بیس سے تیس فیصد اضافہ متوقع ہے،میں سمجھتا ہوں کہ ایک طرف حکومت کی جانب سے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلئے سنجیدہ اقدامات اور دوسری طرف کاروباری طبقے کا اظہار تعاون پاکستان کو آگے لیجانے کیلئے نہایت معاون ثابت ہوسکتا ہے جسکی ایک کڑی تاشقند میں منعقد ہونے والی یہ کانفرنس ہے۔ یہ امر ہمارے لئے خوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ پاکستان اور ازبکستان کا معیاری وقت یکساں ہے، ہماری فلائٹ اسلام آباد ایئرپورٹ سے دن ایک بجے روانہ ہوئی اور دو گھنٹے بعد جب ہم نے تاشقند ائرپورٹ پرلینڈ کیا تو وہاں پر نصب گھنٹہ بھی پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق تین ہی بجا رہا تھا۔ ازبکستان کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین ملکوںمیں ہوتا ہے جو آج سے فقط تین دہائیاں قبل سوویت یونین کا حصہ تھا،افغانستان میں سوویت افواج کی شکست نے ازبکستان سمیت دیگر سینٹرل ایشیائی ریاستوں کیلئے آزادی کی راہ ہموار کی۔ ازبکستان کے چاروں اطراف میں وہ ممالک واقع ہیں جو خود بھی خشکی میں گھِرے ہوئے ہیں،آج ازبکستان کی کُل آبادی لگ بھگ ساڑھے 33ملین نفوس پر مشتمل ہے، آئینی طور پر تمام شہری برابر ہیں، ازبکستان انتظامی لحاظ سے بارہ صوبوں، ایک خودمختار ریاست اور ایک آزاد شہر پر مشتمل ہے، صوبوں کو آگے ضلعوں میں تقسیم کیا گیا ہے،آج بھی روسی باشندوں کی کثیر تعداد یہاں بستی ہے۔ ازبکستان میں بسنے والے مہمان نواز لوگ پاکستانیوں سے خصوصی محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں، یہاں میرا سامنا جس مقامی باشندے کے ساتھ ہورہا ہے وہ نہایت خلوص و احترام کے ساتھ 'رحمت'کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ وسط ایشیائی ریاستیںکے باشندے پاکستان کے ساتھ تاریخی اور ثقافتی بندھن میں بندھے ہوئے ہیں، برصغیر میں مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر سمیت ماضی کے مختلف حکمرانوں کا تعلق سینٹرل ایشیا سے تھا،آج ہم اپنے جن مزیدار پکوانوں مثلاََ پلاؤ، کباب وغیرہ پر فخر کرتے ہیں، وہ دراصل سینٹرل ایشیا کے لوگوں نے متعارف کرائے، ایک تحقیق کے مطابق اردو زبان کے الفاظ کے ذخیرے میں بے شمار الفاظ ازبک زبان کے شامل ہیں، ازبکستان سے تعلق رکھنے والی متعدد عظیم شخصیات بشمول امام بخاری، امام ترمذی، الخوارزمی اور البیرونی کا نام آج بھی پاکستان میں عزت و احترام سے لیا جاتاہے۔یہاں کے معاشرے کی نمایاں خصوصیات میں مذہبی ہم آہنگی اور جرائم کی مکمل بیج کنی شامل ہے، حکومت کی طرف سے یقینی بنایا جاتا ہے کہ یہاں کسی قسم کا مذہبی بنیادوں پردنگا فساد رونما نہ ہوسکے، یہاں پر جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے، ہر شخص دوسرے فرد کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کا پابند ہے، ازبک لوگ صفائی نصف ایمان پرعملی یقین رکھتے ہیں، یہ لوگ صفائی کی ابتدا اپنے گھر محلے سے کرتے ہوئے پورے شہر اور ملک کا کچرااٹھانا اپنا سماجی فریضہ سمجھتے ہیں، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مثبت صحتمندانہ سرگرمیوں کیلئے قریبی تعاون برداشت ، رواداری اور تحمل پر مبنی ازبک معاشرے کی بھی عکاسی کرتا تھا، یہاں کوئی شخص کسی دوسرے سے بدتمیزی اور بدکلامی کرنے کی جرات نہیں کرسکتا، خواتین کو ملکی ترقی میں اپنا بھرپور کردار اداکرنے کے یکساں مواقع میسر ہیں۔تابناک ماضی کے حامل تاشقند شہر کو اسلامی دنیا کا ثقافتی دارالحکومت بھی سمجھاجاتا ہے،پورے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں بے شمار تاریخی اور مذہبی مقامات موجود ہیں،یہاں پرموجود امام بخاری اورامام نقشبندی کے مزارات دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے عقیدت و احترام کا باعث ہیں،عظیم فاتح تیمورلنگ کا مزار بھی ادھر ہی واقع ہے،مختلف مقامات پر صدیوں پرانے تاریخی درخت موجود ہیں جہاں مقامی لوگ اور سیاح منت مانگنے آتے ہیں،اللہ کے پیغمبر حضرت دانیال علیہ السلام سے منسوب اٹھارہ میٹر طویل قبر بھی یہاں موجود ہے جسکی زیارت کیلئے مسلمانوں کے علاوہ دنیا بھر سے یہودی بھی آتے ہیں، اس مقام پر مختلف قومیتوں اور مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ عبادت کرتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ ازبک حکومت عالمی سیاحوں کو اپنے ملک میں راغب کرنے کیلئے مذہبی سیاحت کوبھی فروغ دینا چاہتی ہے،عوامی اور کاروباری روابط کو آسان بنانے کیلئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدی پابندیوں کو نرم کیاجارہا ہے، موجودہ ازبک حکومت نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان امن عمل کی کامیابی کیلئے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اگر پاکستان اور ازبکستان کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ازبکستان نے ہم سے بہت بعد میں آزادی حاصل کی لیکن ترقی و خوشحالی کے سفر میں وہ ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے، اگرچہ مقامی کرنسی نہایت گراوٹ کا شکار ہے، ایک امریکی ڈالر دس ہزار چھ سو چالیس ازبکستانی سکہ رائج الوقت کے برابر ہے، تاہم ہر طرف بلندوبالا عمارات ، بہترین سفری سہولیات اورعظیم الشان انفراسٹرکچرایک ترقی یافتہ جدید ملک کی عکاسی کرتا ہے، یہاںلوگوں کو جدید انڈرگراؤنڈ میٹرو سمیت ٹرام، بس اور ہوائی سفرسمیت پبلک ٹرانسپورٹ نہایت ارزاں نرخ میسر ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ بطور پاکستانی ہمیں ازبکستان سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ، بالخصوص دونوں ممالک کی بزنس کمیونٹی نہایت اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے، امید کی جانی چاہیے کہ وزیراعظم عمران خان کی تاشقند کانفرنس میں شرکت دونوں ممالک کو مزیدقریب لانے کا باعث بنے گی۔