• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’زندگی کے بڑے رازوں میں سے ایک یہ ہے کہ عطائے الٰہی عقل کلیم کے برابر ہی اہم ترین شرف ’’ابلاغ‘‘کامیاب ترین زندگی کی کنجی بھی ہے جبکہ یہ ہی غلط اور غیرمطلوب استعمال سے بڑے بڑے ڈیزاسٹر، ناکامیوں اور تکلیف دہ رکاوٹوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ انفرادی اور گھریلو زندگی سے لیکر ریاستی امور تک ابلاغی عمل اس کا احاطہ کرتا ہے ۔مزید یوں سمجھیں کہ انسانی ابلاغ کا یہ اعلیٰ ترین شرف بیک وقت واضح اور کنفیوژ کرنے، بیباکی اور خوف پیدا کرنے، حوصلہ افزائی و حوصلہ شکنی اور انسان کو پرعزم اور متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ مایوس و جامد کرنے کی جملہ مثبت اور منفی صلاحیتوں کا حامل ہے ۔عقل و ابلاغ کے مشترکہ اور مطلوب استعمال سے بڑی بڑی عظیم کامیابیاں سمیٹی جاتی ہیں، اور اسی کا الٹ استعمال حاصل کامیابیوں کو ریورس کرکے نئی نئی مشکلات اور مستقل نوعیت کی رکاوٹوں کا موجب بنتا ہے ۔کمیونیکیشن سائنس کے لٹریچر میں انسانی ابلاغ کے اس پیچیدہ کردار اور اس کے مثبت و منفی نتائج کے لئے ’’ابلاغی پیچیدگی‘‘کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ‘‘۔

قارئین کرام !گواہ رہیں خاکستار کو ستاروں کے علم کی تو ابجد بھی نہیں معلوم، تاہم علم ابلاغیات (کمیونیکیشن سائنس) کے طالب علم ہونے کے ناطے مستقبل قریب بلکہ جاری قومی سیاست کے حوالے سے پاکستانی آسمان سیاست پر تین چمکتے دمکتے ستاروں کےلئے بری خبر دے رہا ہوں، یہ کہ محترمہ مریم نواز، بلاول زرداری بھٹو اور علی امین گنڈا پور کا سیاسی مستقبل ممکنہ سعی کے باوجود معدوم و مدہم ہونے کا یقین بڑھتا جا رہا ہے ۔کوئی بڑا یا گھناؤنا الزام تینوں جواں سال سیاست دان بشمول دو وزارت عظمیٰ کے خوابیہ وہ کسی مخالف پر نہیں لگا سکتے نہ ہی یہ ان کی پارٹی کی کسی اندرونی سازش کا نتیجہ ہے بلکہ سیاسی خودکشی کے اس سفر پر خودگامزن ہیں ، یا اسٹیٹس کو ابلاغ کے ماہر روایتی سرپرستوں اور تابعدار ابلاغی معاونین نے مکمل خلوص دل سے انہیں راہ گم پر لگایا ہوا ہے اور وہ پورے جوش سے گامزن ہیں۔

گزشتہ سال گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں بھی جس طرح ان تینوں نو وارد سیاسیوں نے خصوصاً بلاول اور علی امین نےجنت نظیر وادی کے دلکش ماحول میں شدید بوجھل بیانیوں اور بے ہنگم جلسے جلوسوں سےسیاسی آلودگی پھیلائی، اس سے ہر فطری ماحول کے ہر دوست شہری کو صدمہ ہوا ۔پی ڈی ایم نے جو حکومت اکھاڑ ملک گیر جلسے کئے اس میں بھی حکومت کو اکھاڑنے کی بجائے وہ کسی اور کو ہی اکھاڑنے کی پر خطر مہم جوئی میں جھونک دیے گئے ۔اب پھر آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں مریم ، بلاول اور علی امین نے اپنی سیاسی مہم میں جس طرح اور جتنی ابلاغی آلودگی پھیلا کر کشمیر کاز کو روندا ہے اس پر انہیں تو رائے عامہ کا کوئی اندازاہ نہیں نہ ان میں اس کا شعور ہے ؟ لیکن اسے قومی سطح پر سخت ناپسند کیا گیا ہے، محتاط اندازہ ہے کہ یہ ایٹ لارج ان کے اپنے حامیوں اور ووٹرز تک کو بھی ہضم نہیں ہوا۔ تینوں نے جو انداز اختیار کیا اور جس زبان کا استعمال کیا تشخیص کے ساتھ اس کے حوالے دینا بھی قلمی و علمی کفر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آزاد و مقبوضہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب جو حساس صورتحال گزشتہ اڑھائی تین سال سے پیدا ہو چکی ہے اس پر ہمارے محبوس و مقہور کشمیری بھائی جس طرح مسلسل بھارتی دہشت گردی کا شکار ہیں اور جو جنگی ماحول بن رہا ہے اس صورت میں آزاد کشمیر پر مسلط ہونے والی ہماری تینوں بڑی قومی پارلیمانی جماعتیں جس انداز میں آزاد کشمیر میں سیاست کا کھیل کھیل رہی ہیں وہ الارمنگ حد تک تشویش کا باعث ہے ۔اس کا سب سے منفی نمایاں پہلو یہ ہے کہ ان کی سیاسی دھما چوکڑی نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے متفقہ قومی ، سیاسی اور پارلیمانی موقف کو ضرب لگائی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایک مشترکہ جلسہ فقط کشمیر کاز خصوصاً مقبوضہ کشمیر کی گھمبیر طویل عرصے سے جاری صورتحال پر محصور کشمیریوں سے یکجہتی کے حوالے سے بھی ہوتا، لیکن انتہائی افسوسناک ہے کہ امور کشمیر کے وفاقی وزیر ، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے آپریشنل قائدین اس انتخابی مہم میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے انتہا کے غیر ذمہ دارانہ ابلاغ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان تینوں کو قطعی ہوش و عقل نہیں کہ ان کے اس کھلے کھلنڈرے پن کے مقبوضہ علاقے کے کشمیریوں کی نفسیات پر کیا اثرات ہو رہے ہیں۔ پھر قابض و غاصب بھارت کیلئے کتنے اطمینان اور پروپیگنڈے کا ساماں ہمارے یہ ٹی وی سکرین پر چھائے ’’قومی رہنما‘‘ بڑے اور مکار دشمن کو فراہم کر رہے ہیں۔ ایٹمی پروگرام اور مسئلہ کشمیر پر تو ہماری تمام سیاسی جماعتوں کا موقف اور کنسرن پارلیمان اور اس سے باہر مکمل یکساں ہے۔ ایسے میں انتخابی مہم میں کشمیر کاز پر قومی اتفاق اور یکجہتی کی دھجیاں کیوں بکھیری جا رہی ہیں؟ اس پر بھی تجزیہ نگاروں اور سنجیدہ سیاسی دانشوروں کو غور کرنا چاہئے کہ قانون سازی سے آزاد کشمیر و بلتستان میں پاکستانی قومی سیاسی جماعتوں کا اتنا غلبہ ہونا چاہئے ؟ اور اسے کیسے روکا جائے کہ مقامی رہنما اور ووٹرز سے تو پس پشت چلے گئے۔ ہماری ہنگامہ خیز داخلی سیاست وہاں کی بھی گندی سیاست بن رہی ہے۔ یہ مسلسل سیاسی ابلاغی آلودگی کے مرتکب تینوں رہنما خصوصاً مریم اور بلاول نوٹ کر لیں کہ ان کا یہ انداز سیاست و بیاں ان سے 10 سال کم اور دس سال بڑے ووٹرز اور نوجوانوں کو ہرگز ذہنناً قبول نہیں، انہوں نے یہ روش جاری رکھی تو نئی نسل کی نئی بنتی قومی عوامی سوچ، قومی سیاست میں انہیں ہر گز قبول نہیں کرے گی۔ ان کا سیاسی ابلاغ ان کے عمر کے تقاضوں سے متصادم ہے، جس میں تو احتیاط، سیکھنا، پڑھنا اور سمجھنا سیاسی کیریئر بنانے کا بنیادی تقاضا ہے۔ ہر دو کی سیاسی اٹھان ہی مایوس کن اور مطلوب جمہوری عمل خصوصاً ابلاغ کے ارتقا اور سیاسی استحکام سے متصادم ہے۔ افسوس یہ ہے کہ بڑے انہیں اپنے ذہنی فریم کے مطابق یہ ہی کچھ سکھا رہے ہیں اور جس روانی سے وہ اس میں بہہ کر اپنا منفی حصہ بھی ڈال رہے ہیں، اس میں ان کی اصلاح، گرومنگ اور سیکھنے کی گنجائش نظر نہیں آ رہی۔ یاد رکھیں نئے قومی تقاضے، نیا سیاسی ماحول اور نئی نسل کے آزادانہ رجحانات کوئی راہ خود نکال ہی لیں گے جس میں اتنی بیمار موروثی سیاست کی گنجائش کم تر ہوتی جائے گی۔ یاد ر ہے ہر شہری موبائل سے مسلح ہے۔

تازہ ترین