وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی کے اغواء کی ایف آئی آر درج ہو گئی ہے، تحقیقات جاری ہیں، جلد ملزمان گرفتار ہوں گے، 72 گھنٹے میں افغان سفیر کی بیٹی کا کیس سلجھ جائے گا، فی الحال کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرِداخلہ شیخ رشید احمد نے بتایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے 2 بار ہدایت کی ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی کے کیس کو ترجیحی بنیادوں پرحل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس پر تیزی سے تحقیقات ہوئیں، ایک دو روز میں ملزمان کو گرفتار کرلیں گے، جیسے جیسے تحقیقات کر رہے ہیں کیس کی کڑیاں مل رہی ہیں۔
واقعے کی تفصیلات بتائے ہوئے وزیرِ داخلہ نے کہا کہ سفیر کی بیٹی گھر سے پیدل نکلیں اور شاپنگ کے لیے کھڈا مارکیٹ اتریں، وہاں سے ایک اور ٹیکسی میں راولپنڈی گئیں، تمام واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیجز موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پنڈی سے واپسی پر یہ گھر جاسکتی تھیں مگر ایف نائن گئیں، راولپنڈی سے وہ دامن کوہ کیسے آئیں اس کی فوٹیجز نکلوا رہے ہیں، واقعے کا مقدمہ اغواء، تشدد اور دھمکیوں کی دفعات کے تحت رات 2 بجے درج کیا گیا۔
شیخ رشید کا کہنا ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی کے راولپنڈی میں شاپنگ مال کے باہر ٹیکسی سے اترنے کی ویڈیو بھی ہے، دامنِ کوہ میں تیسری ٹیکسی کے ڈرائیور کا بھی انٹرویو کیا ہے، کھڈا مارکیٹ سے راولپنڈی جانا بھی انویسٹی گیشن میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کسی پروپیگنڈے کو ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا، بھارت نے افغان سفیر کی بیٹی کے اغواء کے کیس کو بہت اچھالا، بھارتی سوشل میڈیا پر پرانی تصاویر کو اچھالا گیا۔
وزیرِ داخلہ نے کہا کہ بھارت پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے میڈیا کو استعمال کرتا ہے، انٹرنیشنل میڈیا کو بھارت نے مس گائیڈ کیا ہوا ہے، ہم تمام صورتِ حال میڈیا کے سامنے رکھیں گے۔
شیخ رشید کا مزید کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان سے کہا ہے کہ 15 سو کیمرے مزید خریدنے کی اجازت دی جائے، جو بیان جاری کیا جائے گا فارن آفس سے مل کر جاری کیا جائے گا، ڈپلومیٹ کے جو بھی کیسز ہوتے ہیں فارن آفس دیکھتا ہے۔
داسو واقعے کے حوالے سے وزیرِ داخلہ نے کہا کہ چینی حکومت جانتی ہے کہ ہم اپنی بساط سے زیادہ ذمے داری ادا کر رہے ہیں، چین کے ساتھ مل کر داسو واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ داسو کے مسئلے پر پاکستانی ایجنسی محنت کر رہی ہے، چین نے کہا ہے کہ آپ کا اور ہمارا بیانیہ ایک ہونا چاہیئے، چین نے پاکستانی ایجنسیز کو سراہا ہے۔