• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انوار فیروز ، کی روشی سلامت ہے مگر وہ خود آسودہ خاک ہے۔ برسوں پر محیط تعلق کو اختصار سے قلم بند کرنے کا ہنر کہاں سے لاؤں کہ وہ دلکش شخصیت کا مالک تھا،صحافی، ادیب ، شاعر اور کالم نگار کے علاوہ بھی اس کی شخصیت کے بے شمار پہلو ہیں۔ بس وہ اک شجر سایہ دار تھا، اس نے عمر بھر صحافت کی اور اپنے بچوں کو رزق حلال کھلایا ورنہ آج کل کے چند صحافی تو دولت کو سب کچھ تصور کرتے ہیں ۔انوار فیروز، فیروز پور کا پٹھان تھا مگر اس کی طبیعت نہ جذباتی تھی نہ غصیلی تھی ،ان کی بیٹی نورین طلعت عروبہ بتا رہی تھیں کہ کل چوہدری نثار علی خان آئے تو کہنے لگے جب میں نے سیاست شروع کی تو کوئی مجھے پوچھتا نہیں تھا بس انوار فیروز نے میرا ہاتھ تھاما۔ انوار صاحب کی دوسری بیٹی درشہوار فیروز بھی شاعرہ ہیں دو بیٹیاں اور دو بیٹے شاعری کرتے ہیں۔ افتخار اور شہریار صحافت میں ہیں بلکہ شہریار تو مجھے بھری محلفوں میں بھی چاچا کہہ کر بلاتا ہے۔ جیسا باپ تھا ویسے بچے ہیں، سب علم کی قدر کرتے ہیں، سب تہذیب سے آگاہ ہیں، خدا سے دعا ہے کہ وہ انوار فیروز جیسے ٹھنڈے میٹھے انسان کو ٹھنڈی میٹھی جگہ عطا کرے۔ خواتین و حضرات ! آج میں نے تین شخصیات کے بارے میں لکھا ہے جو شخصیت ہست سے بود ہو گئی اس کے متعلق لکھ چکا ہوں۔ باقی دو جاوید حشمت اور ڈاکٹر جہانگیر بدر ہیں۔ دونوں ہشاش بشاش ہیں۔ پہلے جاوید حشمت کا تذکرہ ہو جائے۔ جاوید حشمت بینکار ہیں۔ اکثر اوقات بینکار شخصیت کے حوالے بے کار ہوتے ہیں مگر میر جاوید حشمت کی شخصیت بڑی دلکش ہے۔ وہ ان دنوں بنک آف خیبر کے سربرا ہ ہیں آپ کو حیرت ہو گی کہ پاکستان میں تمام سرکاری بنک خسارہ میں ہیں صرف بنک آف خیبر منافع بخش ہے۔ بنک کے منافع بخش ہونے کا سارا کریڈٹ میر جاوید حشمت کو جاتا ہے۔
2008ء میں جب جاوید حشمت نے یہ بنک جوائن کیا تو خسارے میں تھا مگر اب نفع میں ہے۔ باقی پنجاب بنک سراسر خسارے میں ہے۔ پنجاب بنک کے تو کئی اسکینڈل بھی سامنے آ چکے ہیں۔ اسی طرح پنجاب کوآپریٹو بنک بھی اسکینڈلز سے بھرا پڑا ہے۔ سندھ بنک، کشمیر بنک اور بولان بھی خسارے میں ہیں۔لگتا ہے ان بنکوں پر آسیب کا سایہ ہے۔ میں نے بنک آف خیبر کے منافع بخش ہونے کی وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ جاوید حشمت کسی بھی قسم کی سفارش کو نظر انداز کر دیتے ہیں اگر صوبے کا وزیر اعلیٰ زیادہ پرزور سفارش کرے تو جاوید حشمت اپنا استعفیٰ لے کر پہنچ جاتا ہے اور صاف پٹھانوں کے لہجے میں کہتا ہے کہ بابا استعفیٰ لے لو ، غلط سفارش نہیں مانوں گا بلکہ پچھلے دور میں وزیر اعلیٰ غلام حیدر ہوتی کسی قرضے کیلئے وفاق کی ایک اہم شخصیت کا پریشر تھا مگر پھر اس پریشر کے سامنے جاوید حشمت دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔ میں جب اس بنک کی کارکردگی دیکھتا ہوں تو مجھے نہ جانے کیوں خیال آ جاتا ہے کہ پاکستان کے خسارے والے تمام ادارے درست ہوسکتے ہیں۔ان کو منافع بخش ادارے بنایا جا سکتا ہے۔ مگر اس کام کیلئے ایک جاوید حشمت چاہئے جو کسی کی پروا نہ کرے، جو ناجائز باتیں ماننے سے صاف انکار کردے۔ خدا کرے پاکستان کے خسارہ بخش اداروں کو ایسے سربراہ مل جائیں۔ جو لوگ پاکستانی سیاست سے آگاہ ہیں وہ جہانگیر بدر کا نام ضرور جانتے ہیں۔ جہانگیر بدر کا بچپن اور لڑکپن سیاست کی نذر ہو گیا، ادھیڑ عمری بھی سیاست میں اور اب بھی سیاست میں۔ جہانگیر بدر نے گرفتاریاں، جیلیں اور کوڑے برداشت کئے۔ صعوبتوں کے باوجود اپنا نظریہ تبدیل نہ کیا بلکہ اب جب اسے پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی ہے تو اس کا مقالہ اپنی شہید قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کے حوالے سے ہے۔ بدر صاحب نظریاتی آدمی ہیں۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں۔ زندگی جدوجہد میں گزاری۔ آٹھویں جماعت میں پہلی گرفتاری سے لے کر آج تک پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں۔
ان کی تقریروں کا اسٹائل بھی جداگانہ ہے وہ خالصتاً لاہوری لہجے میں تقریر کرتے ہیں اور اکثر اوقات اپنی انگریزی تقریروں کا ترجمہ بھی کرتے ہیں۔ دلچسپ آدمی ہیں، اب ہماری سیاست کے دامن میں نظریاتی لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں، مفاد پرستی آ گئی ہے اور چڑھتے سورج کے پجاریوں کا راج ہے۔ خدا کرے ہماری سیاست میں پھر سے پیسے کی جگہ نظریہ آ جائے کہ نظریاتی لوگ حسین ہوتے ہیں، کالم کا آخری حصہ ان بے نام شخصیات کے نام ہے جن کا روزگار رمضان المبارک سے پہلے چھین لیا گیا ہے۔ بس یہی کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس سے پچیس نائب قاصد فارغ کر دیئے گئے ہیں۔ یہ نائب قاصدین ڈیلی ویجز پر کام کرتے تھے نئی حکومت نے بے روزگار کر کے گھر بھیج دیئے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے پیروکار خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بھی قریباً ساڑھے چار سو ملازمین کی قربانی دی ہے۔ مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے یہ ملازمین سابق حکومت میں شامل پیپلز پارٹی کے ایک وزیر صاحب شیر اعظم وزیر نے بھرتی کرائے تھے۔ تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ نے غریب ملازمین کے ساتھ اچھا انصاف کیا ہے۔ ان ملازمین کی خیر ہے کیونکہ بڑے ملازمین خوش ہیں بڑوں کی عید خوشیوں میں اور ان غریبوں کی روتے دھوتے گزر جائے گی۔ آخر میں سرور امان کے چند اشعار صورتحال کو مزید واضح کر رہے ہیں۔
شب تاریک چپ تھی، درودیوار چپ تھے
نمود صبح کے سبھی آثار چپ تھے
ہوائیں چیختی تھیں، فضائیں گونجتی تھیں
قبیلہ بٹ رہا تھا مگر سردار چپ تھے
متاع آبرو کو بچا سکتے تھے لیکن
محافظ سرنگوں تھے تو پہرے دار چپ تھے
گراتا کون بڑھ کر بھلا دیوار ظلمت
اجالوں کے پیمبر پسِ دیوار چپ تھے
تازہ ترین