یہ موقع سال کے مختلف قمری مہینوں میں چاند کی 28 یا 29 تاریخ کو دن یا رات میں کسی وقت بھی آسکتا ہے۔ اسی لئے قمری مہینہ کبھی 29دن کا ہوتا ہے اور کبھی 30دن کا ۔ فی نفسہ ایک اقتران سے دوسرے اقتران تک 29.5 دن لگ جاتے ہیں۔ جب مقام اقتران سے سورج آگے بڑھتا ہے تو نئے مہینے کے اعتبار سے اس کے اوقات کا حساب شروع ہوجاتاہے۔اب اگلے دن غروب آفتاب کے وقت اس کے قابلِ رویت (Visible) ہونے یا نہ ہونے (Invisible) کے بارے میں ماہرینِ فلکیات کے معیارات موجود ہیں ، جو نیٹ پر ہر شخص مطالعہ کر سکتا ہے۔
حکمت نظام شمس وقمر :کائنات اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کے تحت چل رہی ہے، نظامِ شمس وقمر بھی اسی کاحصہ ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: (1)ترجمہ ”سورج اور چاند (قادرِ مطلق کے طے کردہ) ایک حساب کے مطابق چل رہے ہیں، (الرحمن:5)“۔ (2)ترجمہ”اور سورج (اللہ کی طرف سے)اپنی مقررہ منزل کی جانب (مسلسل) محوِ سفر ہے ، یہ بہت علم والی ایک غالب ہستی کامقرر کیا ہوا نظم ہے اور ہم نے چاند کیلئے منزلیں مقرر کررکھی ہیں، (یٰسٓ:38،39)“۔ نظامِ شمس وقمر کی من جملہ حکمتوں میں سے کچھ یہ ہیں،اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
(1)ترجمہ”لوگ آپ سے ہلال (پہلی تاریخ کے چاند) کے بارے میں دریافت کرتے ہیںآ پ کہئے، یہ لوگوں کے (دینی اور دنیاوی)کاموں اور حج کے اوقات کی نشانیاں ہیں، (البقرة:189)“۔ (2)ترجمہ”وہی ہے جس نے سورج کو روشنی دینے والا اور چاند کو روشن بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب جان لو، (یونس:5 )
اسلام کی عبادات میں سے نمازکے اوقات اور روزے کے سحر وافطارکا تعلق نظامِ شمسی سے ہے اورماہِ رمضان کے آغاز واختتام اور حج کا تعلق نظامِ قمری سے ہے۔ رمضان المبارک کے آغاز کا مدار” رویتِ ہلال“پر ہے۔چنانچہ رسول اللہ کا ارشادہے:ترجمہ”نئے چاندکو دیکھے بغیر رمضان کا آغاز نہ کرو اور نیا چاند دیکھے بغیرعید نہ مناوٴ، اگر مطلع ابرآلود ہونے کی بناپر (29رمضان کو)چاند نظر نہ آئے،تو 30کامہینہ مکمل کر لو“۔(صحیح بخاری :1906،صحیح مسلم: 1080)
نئے چاند کا چھوٹا بڑا ہونا: نئی قمری تاریخ کے تعیّن کا مدار شرعاً اورسائنسی طور پر ہلال کے چھوٹا بڑا ہونے یا غروب آفتاب کے بعد مطلع پر اس کے موجود ہونے کے وقت کی مقدارسے نہیں ہوتا، جیساکہ ہمارے ہاں بعض اوقات اہلِ علم بھی کہہ دیتے ہیں کہ چاند کافی بڑا ہے اور کافی دیر تک مطلع پرموجود رہا، لگتا ہے کہ ایک دن پہلے کا ہے،یہ سوچ اور طرزِ فکر غیر شرعی اور غیر سائنسی ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ترجمہ”ابو البختری بیان کرتے ہیں کہ ہم عمرے کیلئے گئے، جب ہم وادیٴ نخلہ میں پہنچے تو ہم نے چاند دیکھنا شروع کیا، بعض لوگوں نے کہا، یہ تیسری تاریخ کا چاند لگتا ہے اور بعض نے کہا، یہ دوسری تاریخ کا چاند لگتا ہے،راوی بیان کرتے ہیں پھر ہماری ملاقات حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے ہوئی، تو ہم نے(قیاس کی بنیاد پر اختلاف کیا) یہ صورتحال ان سے بیان کی، تو انہوں نے فرمایا : تم نے چاند کس رات کو دیکھا تھا؟،ہم نے کہا فلاں رات کو، انہوں نے کہا رسول اللہ نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے تمہارے دیکھنے کیلئے اسے بڑھا دیا، درحقیقت یہ اسی رات کا چاند ہے، جس رات کو تم نے اسے دیکھا ہے“(صحیح مسلم:2418)“۔
یہ حدیث اس مسئلے میں شریعت کی اصل ہے کہ نئے چاند کا مدار رویت پر ہے، اس امر پر نہیں ہے کہ اس کا سائز چھوٹا ہے یا بڑا یا مطلع پر اس کے نظر آنے کا دورانیہ کم ہے یا زیادہ۔اس لئے کسی عالم یا تعلیم یافتہ شخص کا نیا چاند دیکھ کر یہ کہنا کہ یہ دو یا تین تاریخ کا لگتاہے،یہ غیر شرعی اور غیر عالمانہ ہے۔ اسی طرح سائنسی حقیقت بھی یہی ہے مثلاً کسی قمری مہینے کے 29تاریخ گزرنے کے بعد شام کو نئے چاند کا غروبِ آفتاب کے فوراً بعد مطلع پر ظہورتو ہے مگر اس کا درجہ چار یاپانچ ہے، اس کی عمر 18گھنٹے ہے اور مطلع پراس کا ظہور پندرہ بیس منٹ ہے۔ تو اس صورت میں چاند مطلع پر تو موجود ہے لیکن اس کی رویت کا قطعاً کوئی امکان نہیں ہے لہٰذا یہ قمری مہینہ 30دن کا قرار پائے گا۔اب اگلی شام کواس چاند کی عمر 42گھنٹے ہوجائے گی،مطلع پر اس کا درجہ 12یا اس سے اوپر ہوجائے گا اورمطلع پر اس کا استقراربھی نسبتاً زیادہ وقت کے لئے ہوگا مثلاً پچاس منٹ اور اس کا حجم (Size) بھی بڑا ہوگا لیکن یہ قطعیّت کے ساتھ چاند کی پہلی تاریخ ہوگی لہٰذا میری اہلِ علم اور اہلِ وطن سے اپیل ہے کہ توہّمات کے حصار سے نکلیں اور حقیقت پسند بنیں۔کیا کئی قمری مہینے مسلسل 29دن یا 30دن کے ہوسکتے ہیں؟قرآن وسنت میں ایسی کوئی تصریح نہیں ہے کہ زیادہ سے زیادہ کتنے قمری مہینے مسلسل 30دن کے ہوسکتے ہیں اور کتنے مسلسل 29دن کے ہوسکتے ہیں۔امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز نے علامہ قطب الدین شیرازی مصنف تحفہٴ شاہیہ وزیج الغ بیگی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”زیادہ سے زیادہ مسلسل چار قمری مہینے30دن کے ہو سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ مسلسل تین قمری مہینے ممکنہ طور پر 29دن کے ہوسکتے ہیں“۔ (فتاویٰ رضویہ ،جلد: 26، ص :423 ) ۔ امام احمد قسطلانی نے ارشادالساری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے ”2 یا 3قمری مہینے مسلسل 29کے ہوسکتے ہیں، 4ماہ سے زائد ناقص نہیں ہوسکتے (جلد: 3، ص:357)“۔ایک ماہرِ فلکیات نے لکھا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسلسل 5قمری مہینے بھی29دن کے ہوسکتے ہیں لیکن یہ سب امکانات کی بات ہے، ان پر کسی شرعی فیصلے کا مدار نہیں ہے۔
شہادت کے ردّ وقبول کا اختیار قاضی کے پاس ہے: شہادت کے ردّ وقبول کا اختیار قاضی کے پاس ہے، شریعت کا اصول بھی یہی ہے اور جدید دور کے قانونی ضوابط بھی یہی ہیں۔ شہادت علی الاطلاق حجت نہیں ہے ورنہ شاہد خود قاضی بن جائیگا۔ رویتِ ہلال کا فیصلہ ایک قضا ہے اور اسکے لئے ایک ادارہ، مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان قائم کیا گیا ہے۔ لیکن صرف رویت ہلال کے مسئلے پر خیبرپختونخوا میں چند علماء متوازی عدالتیں لگا کر شہادتیں قبول کرتے ہیں اور فیصلے صادر کرتے ہیں۔ یہ شرعی لوگوں کا غیر شرعی اقدام ہے اور یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہاہے، ہر دور میں ان حضرات کا طرزِ عمل یہی رہا اور ہر دور میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے فیصلے سے ان چند حضرات نے اختلاف کیا اور اس سے مذہبی انتشار کو فروغ ملا اور مذہبی عناصر طعن وتشنیع کا نشانہ بنے۔مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان پر ہمیشہ یہ طعن کیا جاتا ہے کہ ہماری شہادتیں نہیں مانتے لیکن اللہ کا کرنا ایساہواکہ گزشتہ سال وزیرستان والوں نے 20 ثِقہ شرعی شہادتوں کی بنا پر مسجد قاسم علی خان پشاور اور سعودی عرب سے بھی ایک دن پہلے عید منالی ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شہادت علی الاطلاق حجت ہے تو وزیرستان کی شہادت مسجد قاسم علی خان والوں پر حجّت کیوں نہیں بنی اور اُنہوں نے اُنکے فیصلے کوکس بنا پر رَد کیا؟اِسی لئے گزشتہ سال ہفتہ کے روز ایک عید وزیرستان میں ہوئی ،اتوار کے روز مسجد قاسم علی خان پشاورمیں ہوئی اور سوموار کو قومی عیدہوئی اور میڈیاکی رپورٹ کے مطابق منگل کو بھی پچاس افراد نے عید کی نماز پڑھی،اُن کا موقف یہ قرار پایا کہ جب وہ خود چاند دیکھ لیں گے ،توعید ہوگی۔مستقل قمری کیلنڈرکا مسئلہ: آج کل بعض جدّت پسند اہل علم یہ کہتے ہیں کہ رویت ، علم کے معنیٰ میں ہے اور چونکہ موجودہ دور میں سائنسی اور فنی ذرائع علم سے چاند کی رویت کا ظنِّ غالب ہو جاتا ہے تو اس پر اعتمادکر کے مستقل اسلامی کیلنڈر بنا لیا جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ”رویت“ کا حقیقی معنی آنکھ سے دیکھنا ہے اور اسے علم کے معنی میں لینا مَجاز ہے اوراصولِ فقہ کا مسلمّہ قاعدہ ہے کہ جب تک کسی لفظ کا حقیقی معنی میں لینا دشوار نہ ہو تو اسے مَجاز پر محمول نہیں کرینگے۔ ہمارے نظامِ رویت کا مداربنیادی طور پر رویتِ بَصَری پر ہے لیکن اگر سائنسی اورفنی ذرائع سے ہمیں کسی چیز کا علمِ قطعی یا ظنِّ غالب ہو جائے تو شرعاً اس سے استفادہ کرنے میں حرج نہیں ہے بلکہ کرنا چاہئے اور ہم بہت سے دینی معاملات میں ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ ہم دینی مسائل کو شرعی اصولوں ہی کے مطابق حل کرتے ہیں لیکن ان اصولوں کا اطلاق کرنے میں قطعی سائنسی معلومات پر مدار رکھ سکتے ہیں۔اسی طرح ایسے عقلی قرائنِ ،جو قطعی ہوں یا ظنِّ غالب کے درجے میں ہوں، ان سے بھی قضاکے معاملات میں استفادہ کیا جاتاہے اور فقہ میں اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں۔ہمارے ہاں چند منحرفین کو موجودہ نظام کا پابند بنانے میں حکومت ناکام ہو تو کون سی اتھارٹی انہیں محض سائنٹفک نظام کا پابند بنائے گی؟
پس نوشت:
یہ آرٹیکل میں نے29، شعبان المعظم سے ایک ہفتہ پہلے لکھا تھا۔ اس سال وفاقی وزیر مذہبی امورسردار محمد یوسف اور خاص طور پر خیبرپختونخوا کے وزیرِ مذہبی امور جناب حبیب الرحمن نے رویتِ ہلال کے مسئلے پر قومی وملّی وحدت قائم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، صوبائی وزیرِمذہبی امور کی یہ پہلی تعمیری، مثبت، پرخلوص اور نتیجہ خیز کوشش تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نیت میں اخلاص ہو، اعتماد ہو، سیاسی قیادت پرعزم ہو تو وہ گریز کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے جرأت مندی کے ساتھ مسائل کا سامنا کرتی ہے ، ایسی صورتحال میں اللہ کی مدد شاملِ حال ہوتی ہے اور مسئلے کا حل نکل آتاہے۔ صوبائی وزیر مذہبی امور نے پختونخوا بالخصوص پشاور کے سرکردہ علماء کا اجلاس منعقد کیا اور اپنا عزم سب پر واضح کردیا کہ رویتِ ہلال کا منصب قضا ہے اور اس کے لئے ریاست کا مقررہ ادارہ ”مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان“ہے اور یہ کہ صوبائی حکومت مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان کے فیصلے کو ہی تسلیم کرے گی۔ مجھے باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ ذمہ دار علمائے کرام نے بھی اِس اصول سے اتفاق کیا، اِس کی بھرپور تائید کی اور بالآخر مفتی شہاب الدین پوپلزئی صاحب نے بھی علماء کے اِجماعی موقف کو درست تسلیم کیا۔ اس حوالے سے میں خیبرپختونخوا کے وزیر مذہبی امور کی مساعیِ جمیلہ اور علمائے کرام کی نتیجہ خیز کاوشوں کی تحسین کرتا ہوں اور مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا بھی شکرگزار ہوں کہ انہوں نے پشاور میں وزیرِمذہبی امور اور علمائے کرام کے ساتھ اجلاس میں کئے گئے اپنے وعدے کو احسن طریقے سے نبھایا اور مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان نے بھی بھرپور تعاون کیا اور رمضان المبارک کے چاند کے بارے میں حتمی اعلان کو مناسب وقت تک موٴخر کیا۔ میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی اِس تعمیری روش کو جاری رکھا جائے گا۔ یہاں میں یہ بات بھی ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ جامعة الرشید کراچی کے شعبہٴ فلکیات نے اپنے ہم مسلک نوجوان علماء میں رویتِ ہلال کے بارے میں آگہی پیدا کرنے میں نہایت مفید اور مثبت کردار ادا کیا ہے،ملک بھر میں نوجوان علماء پر مشتمل ان کی تقریباً ساٹھ ذیلی کمیٹیاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ علمی اور فکری کاوشوں کے عملی نتائج آنے میں کچھ وقت ضرور صرف ہوتا ہے اور یہ وقت ایک عشرے سے زیادہ عرصے پر مشتمل ہے۔ میں بحیثیتِ چیئرمین مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان اُن کے ساتھ رابطے میں رہتا ہوں اور اب مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان کے تمام ارکان کے بھی موبائل نمبر اور ای میل (جن حضرات کو یہ سہولت حاصل ہے)کے ذریعے ان کے رابطے میں آچکے ہیں۔گزشتہ سال سعودی عرب میں رویتِ ہلال کے مسئلے پر علماء اور ماہرینِ فلکیات کی ایک عالمی مجلس منعقد ہوئی، اس کی روداد مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے مرتب کرکے اپنے رسالے ”البلاغ“ میں شائع کی، اس کے بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر اور علماء سے میری اپیل ہے کہ اجتماعی جدوجہد سے ہلالِ رمضان کے قومی فیصلے کے حوالے سے جو تاریخی کامیابی حاصل کی ہے ، یہ ایک علمی، ملّی اور فکری اثاثہ ہے، اِسے ضائع نہ ہونے دیں بلکہ اس روایت کو پوری عزیمت و استقامت کے ساتھ آگے بڑھائیں۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ تمام نیوز ٹیلی ویژن چینلز کے مسلسل رابطوں کے باوجود میں گزشتہ تین سال سے رویتِ ہلال کے بارے میں متنازع انداز میں تبصرہ کرنے اور پروگراموں میں شرکت سے گریز کرتا رہا ہوں۔ میری تمام پرائیویٹ نیوز چینلز اور قومی اخبارات سے دینی، قومی وملی وحدت کے نام پر اپیل ہے کہ تنازعات اور تفرُّدات کو ابھارنے کے بجائے اِجماعی قومی موقف کو نمایاں کریں۔