• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو یہ نیریٹو کی جنگ جس کو ہم اردو زبان میں بیانیہ بھی کہتے ہیں، سیاست کا نہایت اہم سبق ہے۔ بیانیہ کبھی کبھی اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ حقائق پر بھی بھاری آجاتا ہے۔ دنیا بھر میں جنگ ہو یا الیکشن، آج کل ہر چیز کا آغاز بیانیے سے ہی کیا جاتا ہے اور شاید عقلمندی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اسی بیانیے کے تحت ذرائع ابلاغ کا استعمال باقاعدہ ایک ہتھیار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ البتہ پاکستانی سیاست میں ابھی تک کسی نئے اور واضح بیانیے نے اپنی جگہ نہیں بنائی۔ جو بیانئے 2018 میں چلے، آج بھی وہی چل رہے ہیں۔ لیکن سیاست ایک طرف، عوام نے اپنا بیانیہ بہرحال ضرور بنالیا ہے۔ پاکستانی عوام کے بیانیے کے دو اہم جزو ہیں۔ پہلا وہ جو آپ نے لندن سے ہوئی وائرل ویڈیو میں دیکھا۔ دنیا بھر میں جہاں بھی نون لیگی قیادت نظر آتی ہے تو غیر ملکی پاکستانی اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے بغیر نہیں رہتے۔ کل کی بات ہی لیں جب عابد شیر علی اور سلیمان شہباز لندن کے کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھارہے تھے تو دیگر پاکستانیوں اور عابد شیر علی کے درمیان بحث شدت اختیار کرگئی۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا، پاکستانی کمیونٹی ان صاحب کو پہلے بھی ایک تقریب کے دوران اسٹیج سے اتار چکی ہے۔ اسحاق ڈار کو بھی اکثر لوگ روک روک کر پاکستانی عوام کے پیسے کا سوال کرتے ہیں۔ شریف خاندان یا نون لیگی قیادت کیلئے ویسے دنیا کے کسی بھی کونے میں منہ چھپانا نا ممکن ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام نے سوال کرنا سیکھ لیا ہے۔ یہ ان کے بیانیے کا بھی اہم جزو ہے اور دراصل سیاست کا اہم جزو بھی جوابدہی ہی ہے۔

اس بیانیے کا دوسرا جزو جس کا احساس دلانے کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے وہ یہ کہ سابق ادوار کے حکمران، جب ووٹ مانگتے ہیں تو کہتے ہیں کہ میں اس زمین کی بیٹی ہوں اور خود ان کا اوڑھنا بچھونا سب انگلستان میں ہے، ان سب کا پردہ فاش کردیا۔ لیکن اب عوام بھی پہلے جیسے نہیں رہے، جیسے سوال کرنا جان گئے ہیں ویسے ہی حساب رکھنا بھی جانتے ہیں۔ عوام دیکھ رہےہیں کہ علاج کرانے کیلئے باہر جانا ہے، چھٹیاں گزارنے باہر جانا ہے، میٹنگ کرنے بھی باہر جانا ہے، خصوصی درخواستیں اور اپیلیں کرکے باہر جانے کی تگ و دو میں لگی رہنے والی یہ اپوزیشن آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہی ایسی تھی۔

کچھ ماہ پہلے شہباز شریف کی لاہور ائیر پورٹ کی ویڈیو بھی منظرعام پر آئی جب یہ لندن جانا چاہتے تھے۔ ان کے صاحبزادے جو پنجاب میں اپوزیشن لیڈر ہیں، وہ بھی باہر جانا چاہتے ہیں۔ یہ سیاست دان اپنے دورِ حکومت میں بھی بیرونِ ممالک میں عیدیں کرتے رہے ہیں کیونکہ ان کو عوام سے، ان کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ تو دراصل عثمان بزدارہیں جو اپنی مٹی کی قدر کرنا جانتے ہیں اور عید کی چھٹیوں میں اپنے بچوں کو لیکر دبئی، لندن یا امریکہ نہیں پہنچ جاتے۔ اور تو اور خاص طور پر عید کا دن وہ لاہور میں گزارتے ہیں، انتظامی امور کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر بعد ازاں اپنے گھر ڈی جی خان کا رخ کرتے ہیں۔ اس سال بھی اپنے اسٹاف کے ساتھ نماز عید کی ادائیگی کے بعد انہوں نے لوکل گورنمنٹ بورڈ کمپلیکس کا دورہ کیا اور پورے پنجاب میں عید کے موقع پر ہونے والی صفائی مہم کا جائزہ لیا۔ سینٹرل کنٹرول روم سے مختلف اضلاع کی صورتحال جاننے کیلئے یہ میٹنگ کافی دیر تک چلتی رہی جس میں مختلف اضلاع کے انتظامی افسران کو بھی ویڈیو لنک پر لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے بھر سے آلائشیں اٹھانے کا کام بروقت شروع ہوگیا اور اس وقت بھی انتظامیہ صفائی یقینی بنانے کیلئے متحرک ہے۔ اس کے برعکس اگر سندھ، بلکہ صرف کراچی ہی دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ بات بات پر باہر بھاگنے والے سیاست دان اور وطن کی مٹی سے محبت کرنے والے سیاست دان میں کیا فرق ہوتا ہے۔

الحمدللہ عید کا تہوار اور اس سےمتعلقہ انتظامات احسن طریقے سے سر انجام دئیے گئے اور پر امن انداز میں لوگوں نے عید کے دن گزارے۔ پنجاب میں260 مویشی منڈیاں لگائی گئی تھیں، منڈیوں کا انعقاد اس انداز میں کیا گیا کہ شہروں میں ٹریفک کے مسائل نہ پیدا ہوں اور عوام ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے اس فریضہ کی ادائیگی کرسکیں۔ یہاں تک کہ بڑی مویشی منڈیوں میں سنگل ڈوز کورونا ویکسی نیشن بھی فراہم کی گئی۔ یہ ایک انتہائی احسن اقدام تھا تاکہ بیوپاریوں اور گاہکوں، دونوں کو کورونا کے مرض سے بچایا جاسکے، کیونکہ پبلک ڈیلنگ کی وجہ سے یہ منڈیاں خطرناک زون ثابت ہوسکتی تھیں۔ عید کی نماز کیلئے مرکزی عیدگاہوں اور مراکز کی صفائی بھی عمل میں لائی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ 30 لاکھ بائیو ڈیگریڈایبل بیگز بھی تقسیم کئے گئے تاکہ آلائشوں سے پھیلنے والی گندگی اور بدبو سے بچا جاسکے۔ یہ ماحول دوست بیگ ویسٹ کلیکشن کیلئے استعمال کئے گئے کیونکہ عید پر صفائی کا زیادہ لوڈ ہوتا ہے اور صفائی مختلف فیزوں میں باری باری نہیں کی جاسکتی، تاہم پنجاب حکومت نے 10 ہزار اضافی گاڑیاں اور اضافی مشینری بھی انتظامیہ کو فراہم کی تاکہ صفائی مہم میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آئے۔ اس کے علاوہ صوبے میں 4 ہزار کلیکشن پوائنٹس اور آلائشیں ٹھکانے لگانے کیلئے ایک ہزار سے زائد پوائنٹس بنائے گئے۔

صرف یہی نہیں کہ عید سے متعلقہ کام اور باقی ہر چیز کی چھٹی، حالیہ بارشوں کو مد نظر رکھتے ہوئے واسا اور دیگر حکام کو بھی ہائی الرٹ پر رکھا گیا۔وزیر اعلیٰ کی ہدایات پر عملہ فیلڈ میں موجود رہا اور نشیبی علاقوں میں پانی کھڑا ہونے کی صورت میں کم سے کم وقت میں پانی کی نکاسی کا عمل یقینی بنایا گیا کیونکہ صوبے کا وزیر اعلیٰ فیلڈ میں موجود تھا، اس لئے واسا کی قیادت اور دیگر انتظامی افسر بھی فیلڈ میں نظر آئے۔یہ گورننس اور انتظامی سپر وژن کی بہترین مثال ہے جو پنجاب کی خصوصیت بنتی جارہی ہے۔

تازہ ترین