• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاید ہم دنیا کی دلچسپ ترین بلکہ مضحکہ خیز ترین قوم ہیں، میں پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے سر پکڑ کر بیٹھا اس عجیب و غریب تضاد پر غور کر رہا ہوں کہ ایک طرف تو ”بلیکئے“ سموسہ 35 روپے کا اور کچوری 100 روپے کی بیچ رہے ہیں تو دوسری طرف سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق کو ملک سے فرار کرانے والوں نے صرف 5000 روپے کی رشوت کے عوض اسے جہاز پر چڑھا دیا اور امیگریشن والوں نے صرف ایک ہزار روپیہ وصول کر کے امیگریشن کا ٹھپہ بھی لگا دیا یعنی لوٹ مار، چوری چکاری، بے ایمانی اور حرام خوری میں بھی کوئی اصول، قاعدہ، نظم و ضبط، سائنس یا سسٹم موجود نہیں، کوئی ”معیار“ موجود نہیں اور سارا نظام ”جو مزاج یار میں آئے“ کی بنیاد پر کھڑا ہے، پنجابی میں کہا جاتا ہے… ”لگا دا لگاتا“ یعنی جہاں جو سمجھ میں آئے، اچک لو، واقعی…
یہ ملک نہیں ہے منڈی ہے
کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے
اور کسی کے ہاتھ میں ڈنڈی ہے
یہ ملک نہیں ہے منڈی ہے
اور منڈی بھی ایسی جہاں مختلف دکانوں پر ایک جیسی ایک ہی جنس کی قیمتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں، دنیا میں شاید اکلوتا ملک ہو جہاں سو سو قدم کے فاصلے پر، ساتھ ساتھ پٹرول پمپس اور سی این جی سٹیشنز ہیں… بہرحال یہاں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ میں توقیر صادق کو ولن نہیں سمجھ رہا۔ مجھے تو وہ قربانی کا معصوم سا میمنا لگتا ہے کیونکہ اس بیچارے کی شکل تو کسی طرف سے بھی ”اربوں“ والی لگتی ہی نہیں۔ ویسے حیرت مجھے اس بات پر بھی بہت ہے کہ توقیر صادق سے وعدہ معاف گواہ بننے کی آفر واپس کیوں لے لی گئی ہے لیکن خیر ہے آج نہیں تو کل ”کٹی کٹا“ نکل ہی آئے گا لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ بہت سے دیگر سنسنی خیز سکینڈلز کی طرح اس پر بھی عوام کی کمزور یادداشت کا کمبل ڈال دیا جائے۔ عوامی یادداشت کی کمزوری کا جتنا فائدہ پاکستان کے طاقت ور اٹھاتے ہیں شاید ہی دنیا میں اس جیسی کوئی دوسری مثال موجود ہو۔
حالات و معمولات ملاحظہ فرمائیں… رمضان جیسے بابرکت مہینے میں بدبخت کمینے کھل کر کھیل رہے ہیں اور گڈ گورننس دور دور تک دکھائی سنائی نہیں دے رہی۔ کم آمدنی والے پانی کے ساتھ ایک آدھ کھجور لے کر افطاری کر رہے ہیں اور یہ میں نہیں اخباری خبر بتا رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 4 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد پر وکلاء حضرات نے تشدد فرمایا اور چیمبر کے دروازے توڑ دیئے۔ عدالت کہتی اور صحیح کہتی کہ سب حکومتیں ایک جیسی ہیں۔ رمضان میں لوڈشیڈنگ کے حوالہ سے عوام کو دی جانے والی ”جھونگا“ ریلیف کا وعدہ بھی کھوکھلا اور بودا ثابت ہو رہا ہے۔ شیخوپورہ کا ن لیگی ایم پی اے حیوانات کی ڈاکٹر کو دھکے اور چیپیڑیں کرا کے اسے جمہوریت کے فوائد یاد دلا رہا ہے۔ ریلوے کو سنبھالنے کی بجائے پنڈی تا اسلام آباد میٹرو بس کی فیزیبلٹی بنانے کا حکم جاری ہو چکا (اللہ اس ملک کے حال پر رحم کرے کہ 100 سال سے زیادہ پرانی ریلوے تو سنبھالی نہیں جا رہی، یہ میٹرو چلانے چلے ہیں) عورتوں نے مردانہ مظالم سے تنگ آ کر اپنا زنانہ جرگہ کھڑا کر لیا ہے جو اب تک گیارہ عورتوں کو انصاف دلا بھی چکا۔ ادھر ذرا یہ سانحہ بھی ملاحظہ ہو کہ کراچی کے علاقہ ”گڈاپ“ میں ایک فیکٹری کے فضلے کی وجہ سے وہاں کے دو لاکھ رہائشیوں کو کینسر کا باعث بننے والے ایک خطرناک ترین کیمیکل کا سامنا ہے۔ ادھر ای سی سی کے اجلاس میں نندی پور پراجیکٹ کی لاگت میں مبینہ بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا فیصلہ ہوا ہے کہ اندر کے ایک بھیدی نے دھماکہ دار خط لکھ کر رنگ میں بھنگ ڈال دی ہے اور میڈیا کو اس پر بہت الرٹ رہنا ہو گا، ایسا نہ ہو کہ گرد بیٹھنے پر رنگ میں سے بھنگ نکال کر پھر سے قابل استعمال بنا لیا جائے کہ کچھ فنکاروں کی فنکاری جادوگری کو بھی مات کرتی ہے۔ کشکول توڑ گروپ کے نمائندہ اسحاق ڈار بارے خوشخبری ہے کہ آئی ایم ایف سے 7.5 ارب ڈالر قرضے کیلئے ”غنیم“ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال چکے ہیں اور ہاں یاد آیا کہ ایک طرف 35 روپے کا سموسہ اور 100 روپے کی کچوری بیچتے ہوئے دوسری طرف توقیر صادق سے صرف 1000 روپیہ لے کر امیگریشن کا ٹھپہ لگا دینے والی ایک جیسی ناپاک ذہنیت نے غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ صرف پندرہ ہزار ڈالر کے عوض بیچی ہے ہم دو کو روتے تھے یہاں قدم قدم پر میر جعفر و میر صادق!
ان انتہائی مناسب، موزوں، مثبت بلکہ روح پرور حالات میں ایک مرد مجاہد کا یہ بیان پڑھ کر میری روح تک کے بھی رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ ”دنیا بھر میں یہودیت، عیسائیت، ہندومت وغیرہ ناکام ہو چکے“۔ تاثر یہ ابھرتا ہے جیسے اب ہماری باری سر پر کھڑی ہے تو میں اوپر صرف ایک دن کے چند اخبارات کا نچوڑ پیش کرنے کے بعد اس ایمان افروز خبر کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔
”رمضان کے دوران اکثر مسلم ممالک میں اشیائے ضروریہ مہنگی ہو جاتی ہیں“۔
”حکومتیں اس مسئلہ کو قابو کرنے میں لگی رہتی ہیں مگر بیشتر کو کامیابی حاصل نہیں ہو پاتی“۔
”مصر میں بھی رمضان کی آمد سے قبل ہی دکاندار مختلف اشیاء کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتے ہیں“۔
قارئین!
میرا خیال تھا کہ رمضان المبارک میں لوٹ مار کا اعزاز صرف ہمیں ہی حاصل ہے کیونکہ میں نے چند رمضان سعودی عرب میں بھی گزارے جہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا جس سے لاشعوری طور پر میں نے تاثر لیا کہ باقی عالم اسلام میں خیر خیرت ہوتی ہو گی لیکن اس خبر نے تو سارا بھرم ہی بکھیر کے رکھ دیا لیکن کمال یہ کہ اس حال اور زوال میں بھی کچھ لوگ ”نشاة ثانیہ“ کے تھری ڈی خواب دیکھنے دکھانے سے باز نہیں آتے۔
تازہ ترین