• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

58 منتخب اداروں کے ملازمین بھاری تنخواہیں وصول کررہے ہیں

اسلام آباد (انصار عباسی) بنیادی پے اسکیل میں سنگین بگاڑ پیدا ہوگیا ہے اور 58؍ اداروں سے تعلق رکھنے والے ملازمین اضافی الائونس وصول کر رہے ہیں اور کچھ معاملات میں تو ایسا بھی ہے کہ یہ ملازمین عام سرکاری ملازمین کے مقابلے میں دو سے تین گنا زیادہ تنخواہیں لے رہے ہیں۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ملازمین کا تعلق صدارتی سیکریٹریٹ، وزیراعظم آفس، قومی اسمبلی، سینیٹ سیکریٹریٹ اور تمام اعلیٰ عدالتوں سے ہے حالانکہ اپنے مینڈیٹ کے مطابق ان اداروں کو مساوات، برابری اور میرٹ کو یقینی بنانا ہے۔ 

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ تنخواہوں کے فرق کو کم کرنے کیلئے دیے جانے والے ڈسپیرٹی الائونس کے نوٹیفکیشن کے تحت وفاقی حکومت کے 20؍ سے 22؍ گریڈ کے سویلین ملازمین کو ان کی بنیادی تنخواہوں میں 25؍ فیصد اضافہ دیا جا رہا ہے، اسی نوٹیفکیشن میں وزارت کی جانب سے ان 58؍ اداروں کا نام بتایا گیا ہے جن کے ملازمین پہلے ہی اضافی الائونس وصول کر رہے ہیں۔ 25؍ فیصد الائونس اُن 58؍ اداروں کے ملازمین کو نہیں دیا گیا۔

 نوٹیفکیشن کے مطابق، یہ الائونس وفاقی حکومت کے گریڈ 20 تا 22 کے اُن سویلین ملازمین کیلئے ہوگا (ان میں وفاقی سیکریٹریٹ اور منسلکہ محکموں کے ملازمین شامل ہیں) جنہیں ان کی بنیادی تنخواہ کے مساوی یا 100؍ فیصد سے زیادہ یا پھر کوئی کارکردگی الائونس نہیں دیا گیا۔

 نوٹیفکیشن کے مطابق جن اداروں کے ملازمین اضافی (ایکسٹرا) الائونس وصول کر رہے ہیں ان کے نام یہ ہیں: صدارتی سیکریٹریٹ، وزیراعظم سیکریٹریٹ، تمام اعلیٰ عدالتیں، قومی احتساب بیورو، آئی ایس آئی، آئی بی، ایف آئی اے، قومی اسمبلی، سینیٹ سیکریٹریٹ، ایف بی آر، لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان، احتساب عدالتیں، اسپیشل جج (کسٹمز، ٹیکسیشن اور انسداد اسمگلنگ)، اسپیشل جج (سینٹرل)، بینکنگ کورٹس، اسپیشل کورٹس (نارکوٹکس)، اسپیشل کورٹس (بینک آفنس)، اسپیشل کورٹس (انسداد دہشت گردی)، مسابقتی اپیلیٹ ٹریبونل، انٹلیکچوئل پراپرٹی ٹریبونل، ڈرگ کورٹس، اینٹی ڈمپنگ اپیلیٹ ٹریبونل، سینئر سول جج ویسٹ اسلام آباد، سینئر سول جج ایسٹ اسلام آباد، اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری پولیس، نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز پولیس، اسلام آباد ماڈل ٹریفک پولیس، سول آرمڈ فورسز، فیڈرل سروسز ٹریبونل، سینٹرل ہیلتھ اسٹیبلشمنٹ اینڈ فیلڈ آفسز، اپیلیٹ ٹریبونل ان لینڈ ریونیو، کسٹمز ایکسائز اینڈ سیلز ٹیکس اپیلیٹ ٹریبونل، ہیلتھ پرسونیل / ہیلتھ اسٹیبلشمنٹس، پارلیمانی افیئرز ڈویژن، ڈسٹرکٹ پاپولیشن ویلفیئر آفس، انوائرمنٹل پروٹیکشن ٹریبونل، کلینکل ریجنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، ڈائریکٹریٹ جنرل اسپیشل، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلی ٹیٹیو میڈیسن، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسپیشل ایجوکیشن، ری ہیبلی ٹیشن سینٹر فار چلڈرن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈس آرڈر اسلام آباد، نیشنل کونسل فار ری ہیبلی ٹیشن، نیشنل بریل پریس اسلام آباد، ری ہیبلی ٹیشن یونٹ ووکیشنل ری ہیبلی ٹیشن اینڈ ایمپلائمنٹ آف ڈس ایبلڈ پرسن اسلام آباد، نیشنل موبیلٹی اینڈ انڈپینڈنس ٹریننگ سینٹر، نیشنل ٹریننگ سینٹر فار اسپیشل پرسنز جی نائن / 2 اسلام آباد، ووکیشنل ری ہیبلی ٹیشن اینڈ ایمپلائمنٹ آف ڈس ایبلڈ پرسنز ایس سی ون اسلام آباد، پروویژن آف ہاسٹل فیسلٹی ایٹ این ایس ای سی وی ایچ سی اسلام آباد، نیشنل اسپیشل ایجوکیشن سینٹر فار پی ایچ سی اسلام آباد، نیشنل اسپیشل ایجوکیشن سینٹر، نیشنل لائبریری اینڈ ریسورس سینٹر اسلام آباد، نیشنل ٹرسٹ فار دی ڈس ایبلڈ، کامن یونٹ ٹوُ مینیج گلوبل فنڈ، پاک فضائیہ کے وہ سویلین ملازمین جو فنانس ڈویژن کے 19؍ دسمبر 2012ء کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے تحت اضافی الائونس وصول کر رہے ہیں، ٹریڈ ڈویلپمنٹ آف پاکستان (وزارت تجارت کے ماتحت خود مختار ادارہ ہے)، گوادر پورٹ اتھارٹی (وزارت میری ٹائم افیئرز کے ماتحت خود مختار ادارہ)۔

 تنخواہوں کے ڈھانچے میں اس قدر خرابی کی وجہ سے بیوروکریسی شدید دلی رنج میں مبتلا ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ایسے ملازمین کو تنخواہوں میں فرق کا (ڈسپیرٹی) الائونس دیا جنہیں پہلے کوئی خصوصی اضافہ نہیں دیا گیا تھا۔

 اس کے علاوہ، وزیراعظم عمران خان نے پے اینڈ پنشن کمیشن کو ذمہ داری دی ہے کہ وہ بنیادی تنخواہوں کے مکمل نظام کا جائزہ لے اور مختلف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں فرق کو دور کرے تاکہ مساوات لائی جا سکے اور بیسک پے اسکیل ایک سے 22؍ تک کی تنخواہوں کو دھارے میں لایا جا سکے۔

 کمیشن کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی ہے کہ پنشن اسکیم کی اوور ہالنگ کی جائے اور پنشن کے متبادل نظام کا جائزہ لیا جائے جن میں طے شدہ کنٹری بیوشن شامل ہے اور ساتھ ہی بین الاقوامی روایات کے مطابق پنشن فنڈز تشکیل دیے جا سکیں۔

 وزیراعظم کی منظور کردہ شرائط کار کے مطابق، کمیشن کو یہ ذمہ داریاں دی گئی ہیں: ۱) بیسک پے اسکیل کی موزونیت کا جائزہ لیا جائے اور فیڈریشن بشمول صوبائی حکومتوں میں تمام سرکاری ملازمین کی موجودہ تنخواہوں کا بھی جائزہ لیا جائے اور بی پی ایس ایک تا 22 کی تنخواہوں کو دھارے میں لانے کیلئے تجاویز پیش کی جائیں۔ ۲) مخصوص محکموں / آکیوپیشن / کیڈرز کو موجودہ بی پی ایس سے علیحدہ کرنے پر تحقیق کی جائے۔ ۳) مینیجمنٹ گریڈ، مینجمنٹ پوزیشن اسکیل (ایم پی اسکیل)، اسپیشل پروفیشنل پے اسکیل (ایس پی پی ایس)، پروجیکٹ پے اسکیل وغیرہ جیسے خصوصی اسکیلز کا جائزہ لیا جائے اور مساوات اور بہتری لانے کیلئے تجاویز پیش کی جائیں۔ ۴) قابل قبول ریگولر الائونسز، اسپیشل انسینٹیوز اور دیگر الائونسز کا جائزہ لیا جائے اور موجودہ خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے درستگی کیلئے اقدامات تجویز کیے جائیں۔ ۵) موجودہ سہولتوں اور مراعات کا جائزہ لیا جائے اور تجاویز پیش کی جائیں اور اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ آیا ان سہولتوں کے عوض رقوم وصول کی جاتی ہیں۔

تازہ ترین